آصف علی زرداری کی گرفتاری۔۔۔۔کاہے کی لڈیاں کاہے کا افسوس


بلوچ سردار آصف علی زرداری کی گرفتاری کو اگر جمہوری اور موجودہ سیاسی تناظر میں دیکھا جائے تو یہ انصاف و احتساب کے نظام کا ایک خود مختار اور جرت مندانہ قدم ہونے سے زیادہ انتقامی کارروائی اور نا ہنجار لونڈوں کو سبق سکھانے اور سیاسی مخالفین کی سرکوبی کے جذبات پر مبنی قدم زیادہ لگتا ہے۔ اگر یہ واقعی ایک مضبوط و آزاد نظام انصاف کا ایک غیر جانبدارانہ اور good intention پر مبنی عمل ہوتا جس کا مقصد اس ملک کے غریب عوام کے ساتھ کی گئی سالہا سال کی نا انصافیوں کا ازالہ ہوتا یا پھر جس کا مقصد اس ملک کے عوام کو ان کے خون پسینے سے ادا شدہ ٹیکسز اور ان کے غریب ملک کی لوٹی دولت ان کو واپس دلانا ہوتا تو مجھے بہت خوشی ہوتی۔ یقین کیجیے مجھے بہت خوشی ہوتی، مگر میں جانتی ہوں یہ وقتی قدم ہے، جس کا مقصد کسی شہر یار کی ذاتی دلچسپی و مفاد کی حفاظت تو ہو سکتا ہے مگر اس ملک کے غریب عوام کی بھلائی ہر گز نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو یہ عمل بلا امتیاز و بلا تفریق دائیں و بائیں جانب یکساں طور پو لاگو نظر آتا۔

مگر ایسا نہیں ہے کیونکہ میں جانتی ہوں کی یہ pick and choose فارمولے پر مبنی نام نہاد احتساب کا عمل ہے جس کے دائرے میں صرف وہ آئیں گے جونا ہنجار ہیں لہذا ان کو احتساب کے بن بیلٹ کے جھولے پر جھٹکے دلائے جائیں گے۔ اور اگر انھوں نے ابتدائی جھٹکوں کے دوران ہی اپنی اصلاح کر لی تو سب کچھ ریورس ہو جائے گا، prolonged انصافی راہداریوں کے سرخ فیتے میں گھسٹ گھسٹ کر ان کی کالی کرتوتوں کی فائلیں جل جائیں گی یا ان ملزموں کی طبعی موت تک لٹکی رہیں گی اور باقیوں ناہنجار لونڈے نے ان کو دیکھ دیکھ کر خود ہی عبرت پکڑ لیں گے۔

یہ انصاف اور یہ انصاف کا شوربہ۔

اور یہ بات بھی زیادہ پرانی نہیں ہے کہ جتنے بھی حکومتی لشکر کے کے سرکردہ سورما ہیں یہ ماضی قریب میں کہاں اور کن صفوں کے سپاہی تھے۔ کیا ان میں سے بہت سے زرداری صاحب کے ساتھ پاکستان نامی دستر خوان پر کھابے اڑانے کے بعد مفادات کے مشترکہ حمام میں اشنان نہیں کرتے رہے؟ کیا ان پر بھی بھی اتنے ہی کرپشن کے الزامات ان کے موجودہ لیڈر کی طرف سے اتنے ہی زورو شور سے نہیں لگائے جاتے رہے جتنے ان ان کے سابقہ قائدین پر۔

اور کیا یہ بتائی گئی ساری کرپشن ان کے سابقہ لیڈر نے اکیلے ہی کر لی بغیر ان موجودہ حکومتی لشکر کے مجاہدین کی سابقہ سہولت کاری کی خدمات کے؟ اب یا تو یہ کہا جائے کہ ان مجاہدین کے موجودہ لیڈر ماضی قریب میں ان کے بارے میں جھوٹ بولتے تھے یا پھر یہ کہ وہ بولتے تو سچ تھے مگر اب یہ مجاہدین جو کل کے لٹیرے تھے حقی و سچی توبہ کا بعد آج اپنی اصلاح کر چکے ہیں and they have repented their ways اور حکومتی حمام میں اشنان کر کے پوتر ہو چکے ہیں۔ اگر ایسا ہے تو وہ اشنان گھاٹ ہمیں بھی دکھایا جائے اور پوری قوم کو اس میں اک اجتماعی غسل کروایا جائے تا کہ قومی وجود پر موجود کرپشن و گناہوں کی بھل صفائی کے بعد مکمل اجتماعی پاکیزگی و طہارت کو یقینی بنایا جا سکے۔

سچ یہ ہے کہ یہ سارا کھیل زمان مکان کے بدلنے کا ہے جس میں نہ تو کوئی قدر مستقل ہے اور نہ قانون۔ یہاں محب وطن و غدار، لٹیرے و محافظ، صادق و دروغ گوہ اور دوست و دشمن کے درمیان جگہ و کردار کا تبادلہ ہوتے دیر نہیں لگتی۔ یہ سیاسی مداریوں، کھلاڑیوں اور بادشاہ گروں کی لیلا ہے جس میں آپ اور مجھ جیسے صرف تالیاں یا سر پیٹنے کے لئے ہوتے ہیں۔

مجھے اچھی طرح اندازہ ہے کہ لوٹ مار تو دور کی بات یہاں تو انصاف و احتساب بھی سسٹم کا دائرے میں رہ کر نہیں ہوتا جو بذات خود نا انصافی سے زیادہ خطرناک عمل ہے۔ کیونکہ جب ایک بار انصاف کے لئے سسٹم کو توڑا جاتا ہے تو بعد میں لا قانونیت و غیر آئینی و غیر جمہوری اقدامات کی ٹرین بھی اسی راستے سے گزاری جاتی ہے اور اسی راستے سے پھر چور اور لٹیرے بھی بشیر و عافیت منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔

اور مجھے اس بات کا بھی اچھی طرح ادراک ہے کہ یہ جو جمہوریت کے درد میں اور زرداری صاحب کی حمائیت میں آج سڑکوں پر چیخ رہے ہیں کل یہ ہی ان کو سڑکوں پر گھسیٹنے کی بات مائیک توڑ توڑ کر کیا کرتے تھے۔

کیا آج پنجاب کی سرزمین کے مرہون منت ان تین تین بار اقتدار کے مزے لوٹنے والے مداریوں کو یہ بھول گیا کہ یہی وہی بلوچ سردار آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے پنجاب کی تقسیم کی سازش کو جنوبی پنجاب میں موجود اپنے ہم ہمنواؤں کی مدد سے تقویت دی اور سینہ ٹھوک کے اس پر سیاست کی اور اپنے مفادات کی بھینٹ پنجاب کو بڑھایا اور نفرتوں کے بیج بوئے۔ اور سندھی سیاستدانوں کے لئے یہ بھی یاد رکھنے کے قابل ہے کہ یہی وہی بلوچ سردار آصف علی زرداری ہیں جنہوں نے سماٹ سندھیوں کی پارٹی پی پی پی کو ہائی جیک کیا اور اصل پی پی جو سندھ کا اصل چہرہ تھی کو دفن کر کے ایک نئی پی پی تشکیل دی جس کا نہ تو چہرہ سندھ سے ملتا ہے نہ ذہن۔

تو پھر آج یہ سب مرے کیوں جا رہے ہیں؟ یاد رکھیے آج جگہ بدلنے، وقت بدلنے اور پارلیمنٹ میں پوزیشن بدلنے سے ان سب کے مفادات تو ایک ہو سکتے ہیں مگر یہ حقیقت نہیں بدل سکتی کہ اس ملک اور اس کے عوام کا نہ کل کسی کو درد تھا اور نہ آج ہے۔ یہ سب مفادات کی جنگ ہے اور یہ سب ایک دوسرے کے مفادات کے محافظ ہیں کیونکہ یہ جانتے ہیں کہ ایک دوسرے کو بچائے رکھنے میں ہی ان سب کی بقا ہے۔ کیونکہ ایک کہ اگر ایک کے کپڑے اترے تو دوسرے کی باری آئی سمجھو۔

مجھے یہ بھی یاد ہے کہ پانامہ سکینڈل میں کتنے سو لوگوں کے نام تھے مگر اس میں ننگا صرف کن لونڈوں کو کیا گیا۔ باقی سب کا کیا بنا؟ کیا ان پر یہ نظام انصاف لاگو نہیں ہوتا تھا یا وہ پیسہ اس ملک کا نہیں تھا؟ اور وہ جو کہتے تھے کہ شریفوں کے خلاف پانامہ ٹرائل ایک prototype case ہو گا بس precedent سیٹ ہو جانے دو پھر دیکھنا کیسے باقی فیضیاب گان پانامہ بھی دھر لیے جائیں گے کیا ان میں سے کوئی اب یہ بتائے گا کہ ان باقی پانامہ زدگان کا کیا ہوا؟ کورٹ میں کتنے کیسز دائر ہوئے اور ان پر عدالتوں نے کیا فیصلے کیے۔ اور کوئی مجھے بتانا پسند کرے گا کہ جماعت اسلامی والوں کی پانامہ کے باقی فیضیاب گان کے خلاف جو لاہور ہائی کورٹ میں رٹ تھی اس کا کیا بنا؟ اس کو خارج کیوں کر دیا گیا؟ مقصد پورا ہو گیا تھا یا ہدف؟

میں نے تب بھی یہی کہا تھا کہ مجھے بہت خوشی ہوتی اگر پانامہ ٹرائلز اس ملک کے عوام اور اس ملک کے مفادات کے لئے بلا تفریق اور سسٹم کے اندر رہ کر شروع کیا جاتا مگر افسوس کہ ایسا نہیں ہے، یہ ذاتی مفادات اور ان کے ٹکراؤ کا رن ہے جس میں حصہ لینے والے سابقہ و موجودہ حکمرانوں کا کچھ نہیں بگڑے گا کیونکہ وہ تو ہاتھی ہیں ان کا کیا جائے گا ان کو خراشیں آئیں گی جو مدمل ہو جائیں گی اور پھر یہ ایک ہی گھاٹ سے پانی پییں گے۔ مگر اس رن میں اس ملک کے غریب عوام جو محض چیونٹیاں ہیں وہ کچلے جائیں گے۔ ان کے لئے نہ کچھ کیا جا رہا ہے نہ ان کو کچھ ملنے والا ہے اور پھر ایسا ہی ہوا جو سب نے دیکھا۔

لہذا میں آج بھی کہتی ہوں کہ جو کچھ بھی آج ہو رہا ہے یہ محض ذاتی مفادات و تحفظات کی اکھاڑ پچھاڑ ہے جو بہت جلد ٹھنڈی پڑ جائے گی۔ وقت گزر جائے گا بجٹ بھی پاس ہو جائے گا اور یہ گرد بھی بیٹھ جائے گی۔

مگر اس اکھاڑ پچھاڑ میں یہ ساری گرد اور کیچڑ عوام کی آنکھوں، نتھنوں، کپڑوں اور ان کے کاروبار و روزگار پر گرے گا اور آخر میں یہ ساری گرد اور کیچڑ اس ملک کے نظام انصاف و احتساب پر گرے گا جس کے داغ سالہا سال کی دھلائی سے بھی نہیں جائیں گے اور ان کے مدہم پڑنے سے پہلے ٹائم بدلے گا، وقت بدلے گا پارلیمنٹ میں پوزیشن بدلے گی اور پھر سے یہ احتساب و انصاف کا عمل شروع ہوگا پچھلے حکومتی حمام میں نہانے کر صاف ہو جائیں گے اور نئے دھر لیے جائیں گے۔

صیاد وہی ہوگا، چال و شکار میں فرق ہوگا۔ ایک لا حاصل اور بے نتیجہ اٹھا پٹخ جاری رہے گی۔ ہم جنگلوں کے اس پار تالیاں اور سر پیٹتے رہیں گے۔ کم از کم اج تک تو یہی ہوتا آیا ہے۔ ہمارے لئے نہ کل کچھ تھا نہ آج ہے تو پھر ہم کسی کے گرفتار یا آزاد ہونے کی خوشی میں کاہے کی لڈیاں ڈالیں یا کاہے کا سوگ منائیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).