پہلی جنگ عظیم: وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے
28 جولائی 1914، جب پہلی عالمی جنگ عظیم شروع ہوئی اور یورپی اقوام نے اس کو قبول کیا جو غلط فہمی میں یہ سوچتے تهے کہ یہ جنگ ان کے سیاسی اور معاشی بحرانوں کو سلجها دے گی،
ان کا یقین تها کہ جلد ہی کم وقت میں جنگ ختم ہوجائے گی اور فوجی جوان کرسمس واپس اپنے خاندانوں کے ساتھ منائیں گے۔ مگر ایسا کچھ نہیں ہوا جیسا ان لوگوں نے سوچ رکھا تها، انجام بالکل مختلف تها، جنگ کو چار سال سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا تها اور جنگ جاری تهی اور اس کے نتائج میں انگنت انسانی جانوں کا قتل اور بهیانک ناقابل تلافی تباہی ہاتھ آئی تهی۔
جب جنگ کا اختتام ہوا تو ایک تباہ حال اور صدمات سے دوچار یورپ میں کافی سوال پیدا ہوئے۔ ادیبوں، آرٹسٹوں اور فلمسازوں نے اپنے خیالات کا بهرپور اظہار جنگ کے بهیانک نتائج اور نقصانات پر کیا یہاں تک کہ ایک دلچسپ کتاب (Memory, Sites of Mourning by Jay Winter) نے بهی کافی سوالات کے جوابات دئے۔
جنگ کے خاتمے کے بعد فوجیوں کو میدان جنگ میں جو جہاں مرتا وہیں دفن کر دیا جاتا تها لیکن کچھ فوجیوں کے سوگوار خاندانوں کی خواہش تهی کہ ان کے پیاروں کو واپس اپنے وطن اور علاقوں میں دفن کیا جائے نہ کہ دیار غیر میں چهوڑ دیا جائے، اس سے اچها یہی ہے کہ وہ لوگ اپنے آبائی قبرستانوں میں دفن ہوں، دوسری طرف وہ لوگ تهے جو چاہتے تهے سب فوجی جوان ایک ساتھ ایک مقام پر دوسرے کامریڈ ساتھیوں کے ساتھ ہی ایک مشترکہ قبرستان میں دفن ہو جائیں پهر یہ ان کے اتحاد کی علامت بنا رہے گا۔
حکومت اور جنگ سے متاثر خاندانوں کی ایک طویل بحث کے بعد آخر میں فرانس نے اپنے فوجیوں کی لاشیں واپس ان کے آبائی علاقوں میں منتقل کروا دی جہاں ان کی دوبارہ تدفین ہوئی اور یہی امریکی حکومت نے بهی کیا مگر برطانوی حکومت جنگی اخراجات کی وجہ سے یہ کام کرنے میں ناکام رہی اور اپنے فوجیوں کو وہیں دفن کر دیا جہاں جہاں دیار غیر میں وہ لوگ قتل ہوئے تهے۔
جنگ میں ایک بڑی تعداد برصغیر کے فوجیوں کی بهی تهی جنہوں نے اپنی جانیں قربان کر دی مگر اپنی دهرتی کے لئے نہیں بلکہ ان کالونیل سامراجی طاقتوں کے لئے جن کے وہ غلام تهے،
سامراجی طاقتوں کی نظر کبهی بهی ان برصغیر کے فوجیوں کی قربانیوں پر نہیں گئی اور ان کی اموات ضائع ہی ہوئیں جن کا کبهی کوئی ذکر تک نہ ہوا۔
اپنے فوجیوں کی یاد میں برطانوی حکومت نے ایک یادگار ویسٹ منسٹر کے علاقے میں تعمیر کروائی، یہ ان فوجیوں کی یاد میں تهی جن کی شناخت نہیں ہوئی تهی۔
اس یادگار کو دیکھ کر فرانس سمیت کافی یورپی ممالک نے بهی ایسی یادگاریں تعمیر کروائی اور اس کو اپنی جیت کا نشان ظاہر کیا۔
جنگ ختم ہوگئی تهی مگر پهر بهی یہ حکومتیں جنگ کی ہولناک یادوں کو لوگوں کے دلوں میں زندہ رکھنا چاہتی تهیں اور اس جنگ کو اپنی قوم کی طاقت اور جیت کے طور پر پیش کرنا چاہتی تهیں۔
وہ تمام ممالک جو اس جنگ میں شریک تهے اپنے اپنے جرنیلوں اور فوجیوں کے مجسمے بنوا کر چوک چوراہوں پر نسب کر دیا کرتے تهے اس طرح وہ عوام کے جزبات کو ابهارتے تهے۔
جرمنی کی حکومت نے اپنے ایک جنرل ہندن برگ کا لوہے کا مجسمہ تعمیر کروایا جو اپنی قوم میں ایک شاطر جنگجو مشہور تها اور اس کی شہرت اتنی زیادہ تهی کہ جرمنی کے لوگ اس کی چهوٹی مورتیاں بهی خریدا کرتے تهے۔
ایک طرف حکومتیں جنگی یادگاریں تعمیر کروانے میں مصروف تهیں اور جنگ کو اپنی جیت ثابت کرنا چاہتی تهیں اور لوگوں میں نیشنل ازم اور حب الوطنی کے جزبات کو ہوا دیتی تهیں۔
جبکہ دوسری طرف ادیب، لکهاری، شعراء اور آرٹسٹ اس کام میں مصروف تهے کہ لوگوں کو جنگ کے بهیان ک نتائج اور بے معنی جنگ کے برے اثرات سے آگاہ کریں۔
Kathe Kollwitz ایک خاتون آرٹسٹ جس نے اپنا کمسن بیٹا پیٹر یکم اکتوبر 1914 کو اس جنگ میں کهو دیا تها، اس کو بیلجیم کی کے ایک قبرستان میں دفن کیا گیا، کیتھ کولوتز اپنے شوہر کے ساتھ اپنے بیٹے کی قبر پر گئی جہاں اس نے ایک خاردار چاردیواری کے درمیان تنگ جگہ پر بہت ساری قبروں کو دیکها، ہر قبر کر صلیب کا نشان اور ایک نمبر لکها ہوتا تها شناخت کے لئے اور جب وہ ماں اپنے بچے کی قبر کو تلاش کرنے کے بعد اس کی قبر پر گئی تو اس نے وہاں خاموش ہو کر اپنے بچے کے ساتھ گزارے خوبصورت لمحات کو یاد کیا اور خوب روئی یہاں تک کہ کچھ پهول اپنے بچے کی قبر پر رکھ دیئے۔
اس نے کچھ تصاویر اپنے بیٹے اور اس کے ساتھیوں کی یاد میں بنا کر یادگار پر رکھی مگر 1919 میں اس نے یادگار کو توڑ دیا اور 1925 میں دوبارہ تعمیر شروع کی جس یادگار کا نام رکھا \”غمزدہ و دکهی والدین\” جس کو 1932 میں مکمل کر کے بیلجیم قبرستان میں رکھ دیا گیا مگر بعد میں جب پیٹر کی قبر کو دوسری جگہ منتقل کیا اس وقت وہ مجسمے وہاں سے ہٹا دیئے گئے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ عام عوام کے لئے جنگ ایک ذاتی نقصان اور تباہی کی علامت ہے نہ کہ جیت و عظمت کی، یہ وہ نظریہ ہے لوگوں کا جو حکومتوں سے بلکل مختلف ہے۔
ایک فرینچ فلمساز نے ایک فلم بنائی جس میں دکهایا گیا کہ ایک رات تمام جنگی فوجی اپنی قبروں سے باہر نکل کر اپنے اپنے علاقوں اور گهروں کی طرف گئے اور دیکھتے ہیں کہ سب کچھ ویسا ہی ہے اور کچھ بهی نہیں بدلا اور لوگوں کی زندگیاں رواں دواں ہیں۔ ان کی بیویاں اور دوست احباب گانے بهی سن رہے ہیں اور لطف اندوز ہو رہے ہیں، ان کی بیویاں اب زندگی میں آگے بڑھ کر ان کی جگہ دوسرے شوہروں کے ساتھ ناچ رہی ہیں اور سب خوش ہیں۔
پهر وہ سوال کرتے ہیں کہ آخر کیوں ہمیں بغیر کسی مقصد کے اکسایا گیا کہ وہ ملک و قوم کے نام پر اپنی زندگیاں قربان کر دیں اور زندگیاں قربان کر بهی دیں لیکن کس وجہ سے اور کس کے لئے؟ اس کا کیا فائدہ ہوا؟
اور ان سوالات کا کوئی جواب نہیں تها۔
___________________________
یہ کالم ڈان اخبار کے 21 ستمبر 2014 کے شمارے میں شائع ہوا اور ہم سب کے لئے حمزہ بلوچ نے اس کا ترجمہ کیا۔
- قوموں کے عروج و زوال کا فلسفہ - 06/04/2018
- پہلی جنگ عظیم: وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے - 01/09/2016
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).