مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقات: تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف ’گرینڈ اپوزیشن اتحاد‘ کے ذریعے تحریک پر اتفاق


مسلم لیگ نواز اور پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت عمران خان کی حکومت کے خلاف تحریک پر متفق ہو گئی ہے اور اس مقصد کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں سے رابطہ کرنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔

یہ فیصلہ اتوار کو رائے ونڈ میں بلاول بھٹو کے اعزاز میں مریم نواز کی طرف سے دیے گئے ظہرانے کے موقع پر کیا گیا۔

نامہ نگار عمردراز ننگیانہ کے مطابق اس ملاقات میں موجودہ حکومت کے خلاف ’فیصلہ کُن‘ تحریک سے متعلق حکمت عملی پر غور کیا گیا۔

دونوں رہنماؤں نے اپوزیشن قائدین پر الزامات کو عوام کو سیاسی قیادت سے محروم کرنے کی سازش کا حصہ قرار دیا ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو کی ملاقات کے بعد جاری کردہ بیان میں کہا گیا ہے کہ ’مقبول سیاسی رہنماؤں کو بہانوں سے راستے سے ہٹایا گیا، کٹھ پتلی کو بٹھایا گیا۔‘

یہ بھی پرھیے

کسی کے خلاف نہیں پاکستان کے حق میں جمع ہوئے: بلاول

’دیسی دماغ ولیمے کی فوٹو سے زیادہ سوچنے کی صلاحیت نہیں رکھتا‘

مریم جی کی واپسی!

ملاقات کے بعد بلاول بھٹو نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ 21 جون کو بی بی (بے نظیر بھٹو) کی سالگرہ پر جلسہ عام ہوگا اور وہیں سے (حکومت کے خلاف) تحریک شروع ہوگی۔

ان کا کہنا تھا کہ ’دل و جان سے کوشش کریں گے کہ یہ (موجودہ) بجٹ پاس نہ ہو۔‘

ایک سوال کے جواب میں انھوں نے حکومت سے عوام دوست بجٹ پیش کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

اتوار کو ہونے والی ملاقات کے بعد مسلم لیگ نون کی طرف سے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق ملاقات میں پاکستان کے سابق وزرائے اعظم بے نظیر بھٹو اور نواز شریف کے درمیان 2006 میں طے پانے والے میثاق جمہوریت کو ایک اہم دستاویز قرار دیتے ہوئے دونوں رہنماؤں نے اسے نئے تقاضوں سے ہم آہنگ کرنے کی ضرورت محسوس کی اور نیا لائحہ عمل بنانے پر غور کیا۔

ملاقات میں اعلیٰ عدلیہ کے معزز جج صاحبان کے خلاف حکومتی ریفرنس کی مذمت کرتے ہوئے انھیں واپس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔ مریم نواز اور بلاول بھٹو نے ان ریفرنسز کو ’بدنیتی پر مبنی اور عدلیہ کی آزادی پر حملہ‘ قرار دیا۔

بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ’یہ صرف قاضی فائز عیسیٰ کا نہیں بلکہ عدلیہ کے ادارے کا مسئلہ ہے‘۔ ان کے مطابق ’کٹھ پتلی حکومت چاہتی ہے کہ سیلیکٹڈ عدلیہ ہو اور سیلیکٹڈ اپوزیشن ہو۔ ہم سمجھتے ہیں کہ یہ غلط ہے۔‘

اعلامیے کے مطابق دونوں رہنماﺅں نے سپیکر قومی اسمبلی سے گرفتار ارکانِ قومی اسمبلی کے پروڈکشن آڈر جاری کرنے کا مطالبہ بھی کیا۔ حزب مخالف کی دو بڑی جماعتوں نے مطالبہ دہرایا ہے کہ ’سپیکر قومی اسمبلی جانبدارانہ رویہ ترک کریں۔‘

یاد رہے کہ اس سے قبل رمضان کے مہینے میں دونوں رہنماؤں کی ملاقات اسلام آباد میں زرداری ہاؤس میں ہوئی تھی جس میں پاکستان میں حزب اختلاف کی بڑی جماعتوں نے پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کی جانب سے دی گئی افطار دعوت میں شرکت کی تھی۔ افطاری پر ہونے والی اس ملاقات کے بعد تمام جماعتوں کے رہنماؤں نے مشترکہ نیوز کانفرنس کی جس میں بتایا گیا کہ ملاقات کا مقصد پاکستانی عوام کو درپیش مشکلات پر غور و فکر کرنا تھا۔

اتوار کو جاتی امرا میں ہونے والی ملاقات میں دونوں رہنماﺅں نے اس امر پر اتفاق کیا کہ اپوزیشن کے ایک مشترکہ لائحہ عمل کے لیے تمام اپوزیشن جماعتوں کے قائدین سے بات کی جائے گی اور اُن جماعتوں کو پوری طرح اعتماد میں لیا جائے گا۔

اعلامیے کے مطابق ’مشترکہ حکمت عملی کا دائرہ اُن سیاسی جماعتوں تک بھی پھیلایا جائے گا جنہوں نے تحریک انصاف کی حکومت کے قیام میں ووٹ دیا تھا یا حکومتی اتحاد میں شامل ہے لیکن اب حکومتی پالیسوں سے اتفاق نہیں کر رہے۔‘

ملاقات میں مولانا فضل الرحمن کی مجوزہ آل پارٹیز کانفرنس اور دونوں جماعتوں کے مشترکہ لائحہ عمل پر بھی بات ہوئی۔

اعلامیے کے مطابق ملاقات میں ’بنیادی حقوق کی کھلی خلاف ورزیوں، میڈیا کی آزادی سلب کرنے، صحافیوں پر حملوں، اپوزیشن کی آواز دبانے کے لیے سخت گیر ہتھکنڈوں اور سنسر شپ کی مذمت کی گئی۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32290 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp