میں نے اپنا ہی ہاتھ تھام لیا


اگر پہلے برس میں ہی یہ حال ہو گیا ہے کہ چھوڑوں گا نہیں ماروں گا چن چن کے، پانچ ہزار لٹکا دو تو سب ٹھیک ہو جائے گا، زرد صحافت کا علاج گالی گھونسہ اور تلوار۔ تو سوچیے کہ اگلے چار برس کس طرح یہ حکومت اور پرجا گزار پائے گی؟ اگر حکماِ عظام ہی شغلِ بے نظام اپنا لیں گے تو گلی محلوں کے تلنگے کہاں جائیں گے۔

اب تو یہ تمیز کرنا بھی دشوار تر ہوتا جا رہا ہے کہ یہ کوئی سنجیدہ تھیٹر ہے، کامیڈی ہے، بلیک کامیڈی کہ ٹریجڈی۔

یہ تک سجھائی نہیں دے رہا کہ کون سا محاورہ منطبق ہوگا؟ باؤلے گاؤں میں اونٹ آیا کہ بندر کے ہاتھ میں استرا، اوچھے کے ہاتھ میں تیتر باہر رکھوں کے بھیتر، سونے کی چھری ملی تو مارے خوشی کے اپنا پیٹ پھاڑ لیا یا پھر راہ میں کٹورا مل گیا تو پانی پی پی اپھارہ کر لیا۔ وہ شہرِ آشوب ہے کہ محاوراتی تاثیر بھی ہجرت کر چلی ہے۔

المیہ یہ نہیں کہ کچھ پتہ نہیں، المیہ یہ ہے کہ کچھ پتہ نہیں کو بھی ظاہر یوں کیا جا رہا ہے گویا سب پتہ ہے، لاعلمی کوئی عیب یہ نہیں، عیب یہ ہے کہ لاعلمی کو بتدریج علم کا درجہ حاصل ہو رہا ہے۔

کسی کو برا لگے کہ بھلا مگر کڑوی حقیقت تو یہی ہے کہ حکمرانی ایسا اسپِ وحشی ہے جسے نکیل ڈالنے کے لیے بے وقوفانہ مہم جوئی نہیں سفاک عقل مندی درکار ہے۔ یکسو نگاہ کے بجائے چہار سو خبر رکھنے والی نظر کی ضرورت ہے، رسمی تعلیم بھلے معمولی سہی پر سوجھ بوجھ غیر معمولی ہونی چاہیے یا کم ازکم یہی معلوم ہو کہ جو میں نہیں جانتا اسے سلٹانے کے لیے جانکار نورتنوں کے سپرد کر دوں۔ لیکن اگر آئینہ ہی راجہ کا واحد صلاح کار ہو اور درباری صرف سہولت کار تو ایسے رجواڑے کے لیے ایک سورہِ فاتحہ۔

اگر خام قسم بندی بھی کی جائے تو جناح صاحب کا دور مختصر مگر قدرے اصولی و جمہوری کہا جا سکتا تھا۔ بعد از جناح بیورو کریسی کی بادشاہ گری رہی، پھر فوج کود پڑی اور ایوب خان کا دور آمرانہ مگر بنیادی صنعتی ترقی کا دور کہلایا، یحییٰ خان کا زمانہ انتظامی طوائف الملوکی سے عبارت تھا، بھٹو کا نیم جمہوری نیم آمرانہ دور کہلایا، ضیا الحق کا ظالمانہ گرفت والا دور تھا جس میں قوم کو دولے شاہ کا کنٹوپ پہنانے کی سرتوڑ کوشش ہوئی اور خاصی حد تک کامیاب بھی رہی۔

ضیا کے بعد سے مشرف کے آنے تک کے درمیانی گیارہ برس کو نیم خود مختار و نیم کٹھ پتلیانہ زمانہ کہا جا سکتا ہے۔ مشرف کا دور آدھا تیتر آدھا بیٹر تھا۔ زرداری دور قانون سازی کے اعتبار سے بہتر مگر کرپشن کے اعتبار سے ابتر۔ نواز شریف کی تیسری مدت اقتصادی اعتبار سے غنیمت مگر طرزِ حکمرانی کے لحاظ سے بند کمروں میں فیصلہ سازی کا دور۔

مگر موجودہ دور کو کس خانے میں رکھا جائے؟ طوائف الملوکی یا ملوکی طوائفیت، دورِ ملنگی، جمہوری فسطائیت، عسکری جمہوریت یا پھر،

سفر درپیش ہے اک بے مسافت
مسافت ہو تو کوئی فاصلہ نئیں (جون ایلیا)۔

آپ کہہ سکتے ہیں کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔ ابھی سے موجودہ دور کی نپائی کیوں ہونے لگی ہے۔ ابھی تو دو ہزار بیس، اکیس، بائیس آئے گا تب جا کر دو ہزار تئیس آئے گا۔ بات آپ کی بالکل درست ہے مگر مجھے کیوں لگ رہا ہے۔۔۔

میں نے اپنا ہی ہاتھ تھام لیا
اور کوئی قریب تھا ہی نہیں (لیاقت علی عاصم)۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).