تبدیلی کا عذاب اور پیٹ کی حقیقت


نام تو اس نے پہلے ہی سونامی رکھا تھا لیکن تب کسے معلوم تھاکہ عمران خان جوں ہی اقتدار کا زینہ چڑھے گا تو اس کی تبدیلی کا خواب ایک مجّسم عذاب بن کر گلی گلی وہ تباہی پھیلائے گی کہ سونامی بھی منہ چھپاتی پھرے گی، اس بد نصیب مملکت کو اب کے بار ایک عجیب آدمی سے واسطہ پڑا ہے۔

جس کاخیال ہے کہ بائیس کروڑ خلقِ خدا میں کوئی ذی ہوش اور صاحب عقل انسان زندہ ہی نہیں بچا بلکہ سب اس کی اداؤں کی قتیل ہی ٹھہرے، تبھی تو وہ مذہب سے معاشیات اور تاریخ سے سیاست تک دلیل سے عاری اور حقائق سے دور بے ڈھنگی گفتگو کرتے ہوئے سانس تک نہیں لیتا۔

سیاست کے لئے اس نے اپنی ایک خود ساختہ سائنس تراشی ہے جس کے عجیب و غریب کلیے ہیں یعنی اگر مخالفین نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو ”عوام“ کی ذمہ داری ہے کہ وہ نہ صرف میرے پلڑے میں ڈال دے بلکہ مبارکبادوں کا تانتا بھی بندھ جائے ( لوڈ شیڈنگ کا خاتمہ اور دوسرے پراجیکٹس اس کی بڑی مثالیں ہیں ) ۔

خان صاحب کا ایک سیاسی کلیہ یہ بھی ہے کہ اپنے ہر مخالف کو ہر اس جرم کا ذمہ دار ٹھراؤ جو اپنی نا اہلی کے باعث خود سے سرزد ہو ( معاشی تباہی اس کی بڑی مثال ہے ) ۔ ایک اور کلیے پر تبدیلی کا علمبردار سختی کے ساتھ کاربند ہے کہ طاقت کے منطقے سے کبھی مت الجھنا بلکہ ان کی ہر ہاں میں ہاں ملاتے جانا اور ( کمزور طبقوں ) پارلیمان سیاستدانوں، میڈیا اور سرکاری ملازمین حتٰی کہ عوام کی گوشمالی اور سرکوبی سے کبھی صرف نظر مت کرنا۔ کیونکہ اس سے کوئی خاص نقصان نہیں ہوتا اس لئے موصوف سپیکر سے پارلیمان تک ”خصوصی توجہ“ دیتے رہتے ہیں۔

سیاستدانوں پر زندانوں کے علاوہ تمام راستے بند ہوتے جا رہے ہیں، آزادی اظہار محض ایک خواب بن کر رہ گیا ہے اور میڈیا زنجیروں میں جکڑا دکھائی دے رہا ہے۔
غریب سرکاری ملازمین اور عوام مہنگائی کے سونامی کے آگے باندھ دیے گئے اور وہ ایک مظلومانہ بے بسی کے ساتھ اپنی سانسیں گنتے جا رہے ہیں۔

تاہم ممنوعہ منطقوں کے آس پاس پرواز تو کیا سوچنے سے بھی گریزاں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ خان صاحب کی سیاست سے زیادہ اس کی زبان کی پھسلن کو شہرت ملی لیکن اس کے باوجود بھی ”یہاں“ اس کی زبان پھسلن بھول کرراہ راست پر آجاتی ہے ورنہ برگزیدہ ہستیوں سے جاپان اور جرمنی کے بارڈر اور حلف کے الفاظ سے غزوہ احد اور بدر تک اس ”پھسلن“ نے عالمی میڈیا تک میں ایک دھوم مچائے رکھی۔

ایک اور مشہور زمانہ کلیہ یہ ہے کہ الزامات اور بہتان طرازی سے جڑی جتنی بھی لغت ہے اسے پوری طرح ازبر کیا جائے اور بلاناغہ اسے مخالفین پر تھوپتے جائیں اور یہی وہ کلیہ ہے جو اسے کنٹینر سے سٹیٹ ہاؤس لے کر گیا کیونکہ شیخ رشید سے پرویز الٰہی اور جام صادق علی سے عمران خان جیسی سیاست کرنے والوں تک کے پاس کل سیاسی قوت اور زادِ راہ ہی تو یہی ہوتا ہے۔

جھوٹ بولو ڈٹ کر بولو، کثرت سے بولو اور بار بار بولو یہی وہ سیاسی کلیہ اور فلسفہ ہے جس نے ہر اس آدمی کو اقتدار کی راہداری کی طرف کھینچا جو اس فن میں طاق ہو، بد زبانی الگ سے معیار ٹھری یہی وجہ ہے کہ اقتدار کی غلام گردشوں میں اس قبیلے کی مانگ بہت ہے اور وہاں ایک غول امڈ آیا ہے۔ زبان درازی کے ساتھ کذب بیانی کا ہنر آتا ہو تو مشیر کی ایک اور کرسی سہی عوام پر ایک اور بوجھ سہی کیا فرق پڑتا ہے۔

عمران خان صاحب اپنی تقریر کے دوران کبھی ”قصہ درد“ لے بیٹھے اور عوام کی غربت کا رونا روئے (تقریر کی حد تک ) تو کمال مہارت کے ساتھ اپنی آواز کے اتار چڑھاؤ اور چہرے کے ایکسپریشن کو استعمال میں لاتے ہوئے مسیحا کا روپ دھار لیتا ہے اور کبھی مخالیفین پر برہم ہو تو یہی اتار چڑھاؤ اور یہی ایکسپریشن ایک اور زاویہ تراشتا ہے یعنی درد غضب کا روپ دھار لیتا ہے، اور خان صاحب کا ہنر یہ ہے کہ اس ادا سے ایک طبقے کو گھائل بھی کر گئے اور قتیل بھی اس سلسلے میں ان کا ٹارگٹ خصوصًا جذباتی اور کم عمر نوجوان ہی ہوتے ہیں۔

خان صاحب کی سیاسی ڈاکٹرائن اور ”کلیہ نوازی“ یقینًا اسے مسند اقتدار پر لے گئی۔ اس کے طاقتور سیاسی مخالفین حسبِ خواھش زندانوں میں ٹھونس دیے گئے ہیں ان پر مقدمات کی بھر مار کردی گئی ہے۔ مخالف اور زبان دراز میڈیا کا گلا گھونٹ دیا گیا ہے۔

”معاونین“ اور دوستوں کو منصب بانٹ دیے گئے، وزارت عظمٰی کی دیرینہ خواہش بھی پوری ہوگئی لیکن اس سب کے باوجود وزیراعظم۔ پہر ذہنی انتشار اور بے بسی کے کرب سے نکل کیوں نہیں پارہے ہیں۔

نہیں معلوم کہ اندر خانے وجوہات کیا ہیں فقط اتنا نظر آتا ہے اور اس وطن کے ہر بد نصیب باشندے کو نظر آتا ہے کہ خنجراب سے تفتان اور چترال سے کراچی تک ایک سوال پیہم برس رہا ہے کہ آپ کی تبدیلی نے اس قوم کے ساتھ کیا کیا۔

ان خوابوں کی تعبیر کہاں ہیں جو آپ گلی گلی بانٹتے رہے؟ وہ تبدیلی یہی تھی جو بھوک اور غربت بانٹتی پھرتی ہے؟ وہ شفافیت یہی تھی جو آپ کے خاندان سے آپ کے ساتھیوں تک سب کے دامن سے چمٹ چکی ہے؟

المیہ تو یہ ہے کہ پاکستانیوں گھبرانا نہیں کا یقین کرنے والے کتنے رہ گئے ہیں کیونکہ نوے دن میں تبدیلی کا گردان بھی یہی لوگ سنتے رہے جو تبدیلی کے عذاب کا شکار ہوئے۔ سیاسی آئیڈیل ازم اپنی جگہ لیکن پیٹ کی حقیقت سب کچھ ہڑپ کر جاتی ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).