’تڑاواہ‘: کراچی میں خواجہ سراؤں کا ایک منفرد سیلون جہاں خواتین بھی جا سکتی ہیں


لوگوں کا عام خیال یہ ہے کہ خواجہ سرا یا تو بھیک مانگ سکتے ہیں، سیکس ورکرز کے طور پر کام کر سکتے ہیں یا پھر ناچ سکتے ہیں۔

لیکن اب لوگوں کے سوچنے کا انداز بدل رہا ہے اور وہ کہتے ہیں کہ یہ کام بھی کر سکتے ہیں، ان کو موقع دینا چاہیے۔

خواجہ سرا بیبو حیدر ایک ہیئر ڈریسر ہیں اور ان کا خواب تھا کہ وہ اپنا سیلون کھولیں۔

اس مقصد کے حصول کے لیے نہ صرف انھوں نے اس کام کی باقاعدہ تربیت حاصل کی بلکہ انتھک محنت بھی کی۔

ذاتی تجربات نے انھیں اپنے مقصد کے حصول کے لیے پرعزم بنا دیا۔

’سب لوگ ایک اچھے سیلون اور برانڈ سے بال کٹواتے ہیں۔ میں نے بھی ایک اچھا سا ہئیر کٹ کروانے کے لیے رابطے کیے۔ جو بھی فون اٹھاتا تھا وہ یہ کہتا تھا کہ جی یہ آپ کی آواز ایسی کیوں ہے؟ یہ خواتین کا سیلون ہے، معذرت کے ساتھ یہاں پر کھسروں (خواجہ سراؤں) کو آنے کی اجازت نہیں ہے۔’

بیبو حیدر خواجہ سراؤں کے حوالے سے معاشرے میں موجود روایتی سوچ کو تبدیل کرنے کی خواہاں ہیں

بیبو نے بیوٹی پارلر مالکان اور وہاں آنے والی خواتین کے اس منافقانہ رویے کی وجہ سے آخرکار اپنا سیلون کھول لیا۔ وہ خواجہ سراؤں کے حوالے سے معاشرے میں موجود روایتی سوچ کو تبدیل کرنے کی خواہاں ہیں۔

وہ کہتی ہیں ‘ہم سے کام لیتے وقت سیلونز میں کسی کو مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جب ہم ایک کسٹمر کے طور پر جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو صرف عورتوں کے لیے ہے۔’

بیبو حیدر چاہتی ہیں کہ اُن کے سیلون میں صرف خواجہ سرا ایک دوسرے کے لیے ہی کام نہ کریں بلکہ خواتین کو بھی سروسز فراہم کی جائیں۔

میک اپتصویر کے کاپی رائٹALAMY
Image caption‘ہم سے کام لیتے وقت سیلونز میں کسی کو مسئلہ نہیں ہوتا لیکن جب ہم ایک کسٹمر کے طور پر جاتے ہیں تو وہ کہتے ہیں کہ یہ تو صرف عورتوں کے لیے ہے’

انھوں نے اپنے سیلون کا ایک منفرد سا نام ‘تڑاواہ’ رکھا ہے۔ اس کے پیچھے مقصد تھا کہ جب سیلون کے نام کے معنی دریافت کیے جائیں تو عام لوگوں اور خواجہ سراؤں کے درمیان ایک مکالمہ ہو سکے۔

بیبو نے بتایا ‘ہم معاشرے کے سامنے کئی باتیں نہیں کر سکتے تو ہماری برادری کے اندر ایک فارسی زبان استعمال کی جاتی ہے۔ اسی زبان میں مستعمل ایک لفظ تڑاواہ ہے جس کے معنی ہیں سجانا، سنورانا اور خوبصورت بنانا۔’

خوجہ سرا نتاشا خان تڑاواہ نامی سیلون کھلنے کی وجہ سے بے حد خوش اور مطمئن ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ یہاں انھیں کھل کر بات کرنے کی آزادی حاصل ہے۔

گاہک

ان کا کہنا ہے ‘ہم جن پارلرز میں جاتے تھے وہاں خواتین کا بھی آنا ہوتا تھا۔ اُن میں سے بعض ہمیں دیکھ کے چلی جاتی تھیں۔ ان کی وجہ سے پارلر مالکان کا رویہ کافی خراب ہو جاتا تھا۔’

ایک اور خواجہ سرا سونم نے بتایا کہ ‘عموماً ہم اپنی ہی کمیونٹی کی خواجہ سراؤں، جن کو کام آتا ہے، کو گھر بلا کر کام کروا لیا کرتے تھے۔ بیبو کے پارلر کی وجہ ہم ہر کام باآسانی کروا لیتے ہیں۔’


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32484 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp