فادرز ڈے اور اسامہ کائرہ


اسامہ کائرہ کی بےوقت جدائی پر بہت لکھا گیا، بہت کچھ کہا بھی گیا، ایسا بھی جو نہیں کہنا چاہئے تھا اگر لوگ صاحب دل ہوتے۔

کائرہ صاحب کی باتیں بھی سنیں جو انہوں نے دکھ بٹانے والوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہیں، اور نہ جانے کس دل سے کہیں۔ شاید کہیں کوئی بھاری پتھر رکھا گیا تھا جو سامنے والوں کی آنکھ اور دل سے اوجھل تھا۔

کچھ ہفتے گزر گئے ہیں، زندگی آگے بڑھ چکی ہے، لوگ باگ بھول رہے ہیں، معاملات زندگی میں پھر سے مشغول ہیں۔ لیکن کیا کائرہ صاحب اور ان کے خاندان کے لئے بھی سب ویسا ہی ہے، جیسا تھا؟

کیا وہ گھر کے اندر اتنے ہی کمپوزڈ ہیں جتنے کہ لوگوں کو نظر آئے۔ کیا دل اور روح میں پڑا شگاف ان کو سانس لینے دیتا ہے؟

کیا وہ اس لمحے کی سفاکی بھول سکتے ہیں جب انہوں نے جگر چیر دینے والی یہ خبر سنی؟

کیا اولاد کو گود میں جھولا دیتے، پشت پہ گھوڑا بن کے سوار کراتے، انگلی پکڑ کے سکول لے جانے سے کندھے پہ جنازہ اٹھا کے آخری منزل تک پہنچانا آسان ہوتا ہے؟

خدا کسی دشمن کو بھی اولاد کا دکھ نہ دکھائے”

ہم نے یہ فقرہ اپنے بچپن میں بار بار سنا!

جب ہوش سنبھالا تو گھر میں کچھ کتابیں، کچھ کپڑے اور کچھ تصویریں دیکھیں۔ ان ملبوسات کو کوئی نہیں پہنتا تھا، ان کتابوں کو کوئی نہیں پڑھتا تھا۔

بس اماں کی آنکھیں انہیں دیکھتے ہوئے کبھی نم ہو جاتیں اور کبھی کچھ یاد کر کے وہ مسکرا دیتیں۔ آنسوؤں کے سائے میں، جو آہستگی سے آنکھ کے گوشے سے نکلتے اور پھر کہیں گم ہو جاتے۔

کبھی کوئی تہوار ہوتا تو ابا قبرستان کا رخ کر لیتے جو گھر سے زیادہ دور نہیں تھا۔ ہم انگلی پکڑے ساتھ ہوتے۔ ابا قبرستان پہنچ کے ایک چھوٹی قبر کے پاس رکتے، کچھ دیر خاموش کھڑے رہتے، فاتحہ کے لئے ہاتھ بلند کرتے، ضبط کا بندھن چہرے پہ چٹخ رہا ہوتا، لبوں پہ خاموشی کا پہرا ہوتا۔

ہم پوچھ لیتے

ابا! یہ کس کی قبر ہے ؟

 ہمیں کوئی جواب نہ ملتا، واپسی کا سفر بھی خاموشی سے طے ہوتا۔

جب سکول پہنچ کے پڑھنے کے قابل ہو گئے (جو بہت جلدی ہو گئے تھے )۔ تب ہم نے ان کتابوں کو پڑھنے کی کوشش کی۔ یہ کسی پانچویں کلاس میں پڑھتی بچی کی کورس کی کتابیں تھیں۔ بچی کا نام سرورق کے اندر پہلے صفحے پہ لکھا تھا جسے پڑھ کے ہم بے ہوش ہوتے ہوتے بچے۔ اپنی آنکھوں پہ یقین نہیں آیا، دوبارہ پڑھا، سہ بارہ پڑھا لیکن جو لکھا تھا وہ ویسا ہی رہا۔

کتاب کے اندر والے صفحے پہ ہمارا نام لکھا تھا پر یہ ہماری کتاب نہ تھی۔ کلاس پنجم تھی لیکن ہم ابھی پنجم میں نہیں پہنچے تھے ۔

یا خدا! یہ کیا معمہ ہے ” ہم بڑبڑائے

بھاگے بھاگے اپنی بڑی بہن کے پاس پہنچے، جنہوں نے ہمیں چھوٹا سمجھ کے ٹالنے کی بہت کوشش کی پر آج ہم کہاں رکنے والے تھے۔ تجسس کا جادو سر چڑھ کے بول رہا تھا۔

اور اس دن ہمیں اپنے ماں باپ کے ایک ایسے المیے کی کہانی معلوم ہوئی جس کے لئے دعا کی جاتی ہے کہ ویسا نقصان دشمن کو بھی نہ پہنچے۔

یہ کہانی ہمارے پیدا ہو نے سے پہلے کی ہے۔

وہ پہلوٹھی کی اولاد پانچ سال انتظار کرنے کے بعد پیدا ہوئی اور اپنے ماں باپ کی آنکھوں کا تارا بن گئی۔ جس طرح کہانیوں میں شہزادے کی جان کسی توتے یا کبوتر میں ہوتی ہے بالکل اسی طرح ابا کی جان اس ننھی پری میں تھی۔

وہ خوبصورت تو تھی ہی، انتہائی ذہین وفطین اور باتونی بھی نکلی اور ایک زمانہ اس کی من موہنی باتوں کا گرویدہ۔ ابا دفتر سے واپسی پہ ایک لحظے کو بھی اس سے جدائی گوارا نہ کرتے۔ دوستوں کی محفل ہو یا مسجد میں جماعت کے ساتھ نماز، کوئی ادبی محفل ہو یا بازار میں خریداری کے مرحلے، باپ بیٹی جدا نہ ہوتے۔

بیٹی کو باتیں کرنے کا شوق، باپ کو سننے کا۔ بیٹی کانونٹ میں اپنی کلاس میں سب سے جیت کے آنے والی اور ابا اس جیت کا جشن منانے والے( کانونٹ سکول پنڈی میں وہ اور بےنظیر بھٹو کلاس فیلو تھیں)۔ بیٹی فرمائشیں کرنے کی عادی اور ابا پوری کرنے کے۔

اس کا کوئی کام ابا اماں پہ نہ چھوڑتے، ابا کی حساسیت حد درجے پہ۔

لیکن چشم فلک کو کچھ اور ہی منظور تھا۔ باپ بیٹی کا یہ محبت بھرا تعلق زیادہ دیر چل نہ سکا۔ اس محبت کی کل عمر دس سال ٹھہری اور اس کا انجام ایک لمبی اماوس بھری جدائی تھی۔

دس سال کی عمر میں ننھی پری کی مختصر علالت کے بعد ابدی سفر کو روانہ ہو گئی۔ دھرتی کی گود میں سو جانے کے لئے اپنے باپ کے کندھوں کا سہارا لینا ایک ایسا المیہ تھا جس نے ابا کو ساری دنیا سے کنارہ کش کرا دیا۔ دوستوں کی محفلیں چھوٹ گیئں عبادات تو پہلے بھی تھیں اب لمبی ہو گئیں۔ لبوں سے ہنسی چھن گئی، خاموشی نے پہرے ڈال لیے۔

ایک روگ تھا جو ابا کو لگ گیا تھا اور ابا جوگ لے کے جوگی بننے کی منزلوں میں تھے۔

آج خود اولاد والی ہوں تو سمجھ آتا ہے کہ ابا پہ کیا گزری ہو گی۔ ایک روح جو کہیں بہت دور سے آئی تھی دو سادہ دلوں کی پہلی اولاد بن کے، وہ جب بچپن میں ہی واپس لوٹ گئی تو ان دونوں کے دل کا ایک ٹکڑا ساتھ ہی لے گئی۔ وہ دونوں بہت سال جیے پر اپنے ادھورے پن کے ساتھ۔

ابا کے سجدے لمبے ہو گئے۔ ہاتھ ہمہ وقت دعا کے لئے بلند رہنے لگے۔ اللہ سے لو بڑھ گئی۔ کوئی گزارش تھی جس کی عرضی ابا مسلسل ڈال رہے تھے اور جانتے تھے کہ ان کے غم کا علاج اسی کے پاس ہے جس نے یہ آزمائش دی ہے۔ جس نے اس پھول کو واپس بلایا ہے بہت تھوڑی دیر مہک دنیا میں پھیلانے کے بعد۔

ابا یہ شعر بہت گنگناتے  تھے

وہ پھول اپنی لطافت کی داد پا نہ سکا

کھلا ضرور مگر کھل کے مسکرا نہ سکا

کچھ سال گزرے۔ ہماری اماں امید سے تھیں۔ بڑی بیٹی کی وفات کے بعد یہ پہلا بچہ دنیا میں آنے کو تھا۔ ہماری اماں بہت دل گرفتہ تھیں اور ابا کی خاموشی اور نمازوں میں اضافہ ہو چکا تھا۔ وظائف لمبے ہو چکے تھے۔ وہ دونوں آپس میں کوئی بات نہیں کرتے تھے۔

وقت قریب پہنچا تو ہماری نانی، اماں کو اپنے گھر لے گئیں حالانکه درمیان کے سب بچے پنڈی میں پیدا ہوئے کہ ابا کو نئے مہمان کو اکھٹے خوش آمدید کہنا پسند تھا۔

لیکن اب کے وقت اور تھا۔

بچی پیدا ہوئی نانی دیکھ کے رو دیں۔ کوئی یادوں کی پلکوں پہ چھم سے اترا تھا۔

ابا کو نانا نے اطلاع دی اور مبارک بھی۔ ابا کچھ دیر خاموش رہے پھر بولے

الحمدلله! رب نے میری سن لی

چچا جان، گھر میں سب کو بتا دیجیئے کہ اللہ نے جدائی کا داغ دے کے چھوڑ جانے والی کو مجھے لوٹا دیا، میری دعائیں سن لیں!

بچی کا نام وہی ہو گا جو ہماری پہلی بچی کا تھا

 

نانا گم صم تھے۔ خاموش آواز کے ساتھ آنسو پھسل رہے تھے اور اس دن گھر میں سب ایک دفعہ پھر روئے تھے۔

جانے والی طاہرہ کے غم میں اور آنے والی طاہرہ کی خوشی میں!

ابا نے ساری عمر طاہرہ ثانی کو طاہرہ اول سمجھا۔ غم پہ پھاہے تو لگے پر ہمارے ابا کبھی بھی وہ نہ بن سکے، جو تھے۔ زندگی کا سفر طے تو کیا مگر ایک غم کی دھیمی دھیمی آنچ دیتی ہوئی سلگتی کیفیت کے ساتھ ۔

سو جان لیجیے جب بھی اولاد ماں باپ کے ہاتھوں دفن ہوتی ہے۔ چاہے وہ کائرہ ہوں یا کوئی عام آدمی، زندگی کا مفہوم بدل جاتا ہے۔ زبان کا مزہ کسیلا ہو جاتا ہے، ہنسی میں بے ساختگی نہیں رہتی، سب ہماہمی اور رنگا رنگی بدل جاتی ہے۔ ماں باپ وہ نہیں رہتے جو تھے۔ آنکھیں اکثر گیلی رہتی ہیں اور زبان پہ پھر وہی دعا رہتی ہے

خدا یہ غم دشمن کو بھی نہ دکھائے”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).