میں مانتا ہوں آپ بہت ایماندار ہیں لیکن کچھ تو کرنا ہی ہوگا


مان لیا آپ ایماندار ہیں، بہت مخلص ہیں۔ اچھی نیت کے مالک ہیں، کچھ کرنا چاہتے ہیں۔ وہ مسیحا ہیں جو قوم کی لوٹی ہوئی دولت واپس لائے گا۔ انشا اللہ۔ مجھے معاف کیجئے گا کیونکہ میں یہ بھی مانتا ہوں کہ آپ کو سیاست نہیں آتی۔ اور بہتر ہے کہ آپ کو نہ ہی آئے۔ مگر داخلی تو داخلی، آپ کو خارجی امور پر گرفت ہے اور نہ ہی سفارتی آداب کی کوئی آگاہی۔ کوئی بات نہیں، آپ سیکھ جائیں گے۔

کیا آئی ایم ایف اور کیا بیرونی قرضوں کا سلسلہ، جناب والا، آپ اپنی ہی کہی باتوں، وعدوں اور ارادوں سے یوٹرن لے لیتے ہیں۔ بخدا کوئی بات نہیں، آپ سیکھ رہے ہیں۔ تقاریر تو ایک طرف آپ حساس معاملات اور موضوع پر بات کرتے ہوئے درست الفاظ کے چناؤ سے بھی قاصر ہیں۔ کوئی بات نہیں، یہ بھی سیکھ ہی جائیں گے۔

آپ سے پہلے جو تمام شخصیات اس منصب پر برجمان ہوئیں، ایک ہی راگ الاپتی رہیں کہ بدحالی اور سنگین حالات کی ذمے دار ماضی کی حکومتیں ہیں۔ آپ بھی یہی کہتے ہیں۔ عمران صاحب، یہ بھی مان لیا کوئی بات نہیں۔

آپ نے ارشاد فرمایا کہ بس مزید ایک سال کی سختی اور ہے، اس کے بعد ملک کو درپیش معاشی اور اقتصادی بحران سے آپ نکال لیں گے۔ مان لیا۔ غرض یہ کہ ایک لمبی اور طویل فہرست ہے جس میں بات اتنی سی ہے کہ اپنے کابینہ سے لے کر پالیسی تک آپ بھی وہی کر رہے ہیں جو پہلے کے لیڈران کرتے آئے تھے۔ میں جانتا ہوں۔ آپ کی سیاسی گٹھ جوڑ اور سمجھوتے اصول نہیں، مجبوری کی بنیاد پر ہیں۔ اسی لئے کوئی بات نہیں، آپ سیکھ جائیں گے۔

پر ایک چیز تو ہے جسے سیکھنے کی آپ کو ضرورت نہیں۔ اور آپ کو اس کے بارے میں بتانا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔ آپ کو جو جو نہیں آتا، وہ سب آپ سیکھ جائیں گے۔ اسی لئے میں آپ کی ہر بات مان لیتا ہوں۔ مگر کیا آپ میری ایک چھوٹی سی بات مان لیں گے؟

اگر میں کہوں کہ آپ کرکٹ کے ایک عظیم کھلاڑی رہے ہیں جس نے اپنی باقی ٹیم کی مدد سے پاکستان کو بانوے کا عالمی کپ جتایا تھا۔ مانیں گے نا؟ یقیناً یہ ہم سب کا سرمایۂ افتخار ہے۔

آپ نے کل اپنی انتہائی مصروفیت کے باوجود پانچ ٹویٹ پر مشتمل تجاویز، نصیحت اور دعائیں ٹیم تک ارسال کیں۔ بیشک پاکستان اور بھارت کے درمیاں میچ کسی جنگ سے کم نہیں اور آپ ایک سابق کرکٹر ہیں، آپ سے بہتر یہ بات اور کون جان سکتا ہے۔

آپ اقتدار میں آنے سے بہت پہلے کا کرکٹ کے حوالے سے لاتعداد بار اصلاحات اور تبدیلی کی جانب قوم کو آگاہ کر چکے ہیں اور خود اس وقت کی حکومت کواپنا قیمتی مشورہ بھی دیتے رہے، یقیناً آپ کے ہاتھ میں اس وقت نہ فیصلے کروانے کی طاقت تھی اور نہ ہی کوئی اختیار۔ آپ حکمرانوں کی توجہ اس جانب طرف مبذول ہی کروا سکتے تھے۔ آپ کا شکریہ۔

حضرت، پھر عام انتخابات ہوئے اور نیا پاکستان کی بنیاد رکھی گئی۔ تبدیلی، بہتری اور فرسودہ لوگوں سے نجات، بہتر نظام اور طرزِ حکومت کے لئے کوششیں شروع ہوئیں اور آپ ہی کی جیسے میری طرح کے لوگ جو سیاست اور ریاست کے پیچ و خم سے بے خبر ہیں انہوں نے ایک عظیم دور کا خواب دیکھنا شروع کیا، کیونکہ اب آپ جناب، قبلہ ہمارے قابلِ احترام وزیرِ اعظم بن کر ابھرے۔ ایک بار پھر سے، آپ کو مبارک ہو۔

آج آپ سے صرف کرکٹ کی بات کرتے ہیں۔ ۔ کیونکہ کل کے زخم ابھی تازہ ہیں اور بات کہہ دینے سے دل کی بھڑاس نکل جائے گی۔

مگر بات بلّے والے کی ہو، خواہ کرکٹ ہی کیوں نہ ہو۔ ’روک سکو تو روک لو‘ ۔ تبدیلی تو بہرحال آنی ہی تھی، یہ الگ بات ہے کہ تبدیلی کے نتائج مثبت بھی ہو سکتے ہیں اور منفی بھی، دونوں باتوں کا امکان موجود رہتا ہے جس کا انحصار، نتائج کی بنیاد پر ہوتا ہے۔ کیونکہ تبدیلی از خود بہتری نہیں لا سکتی۔ اور اس حوالے سے اور تناظر میں کی گئی پہلی تبدیلی۔ نجم سیٹھی!

خان صاحب آپ شاید بھول نہ گئے ہوں، اسی لیے ضروری ہے کہ یاد دہانی کراتا چلوں۔ نجم سیٹھی، وہی کمبخت صحافی جسے نوازنے کی خاطر اِس صحافی کو قومی کرکٹ کے ادارے کا سربرہ مقرر کیا گیا۔ بھلا وہ کیا جانے کرکٹ کس بلا کا نام ہے؟ کیا ہوا اگر انہوں نے پاکستانی ٹیم کی ایشین کپ میں فتح میں مدد کی وہ محض اتفاق ہوا ہوگا۔

اور یوں کارکردگی دکھانے اور نتائج حاصل کرنے والے ایک اہل شخص کو ذاتی ناپسندیدگی کی بنیاد پر ہٹا دیا گیا۔ تبدیلی آ ہی گئی۔

آپ کرکٹ کی زیادہ سمجھ رکھتے ہیں، سو میں نے یہ بھی مان لیا، سوچا نئے آنے والے صاحب ضرور کچھ کرشمہ دکھائیں گے۔ کیونکہ آپ کو کچھ اور آتا ہو یا نہیں۔ کرکٹ پر تو عبور ہے! اور اگر ہم میں سے کسی کو یقین نہ بھی ہوتا تو آپ کی ورلڈ کپ کی کہانیاں بائیس سال کی سیاست میں سن سن کر طوطے کی طرح رٹا لگا رہا ہوتا، جیسے ہم لگاتے ہیں۔ شوکت خانم ہسپتال کے علاوہ ایک یہی وہ دلیل تو تھی جو دی جاتی تھی!

آپ میریٹ اور میریٹوکرسی کی بات کرتے ہیں۔ یعنی ایک ایسا عمل جس کے تحت لوگوں کو ان کی اہلیت، قابلیت، کارکردگی، ایمانداری اور فرض شناسی پر مبنی مستقل بنیادوں پر مشتمل اصولوں پر پرکھا جائے نہ کہ اپنی ذاتی پسنددیدگی یا ذاتی مفاد یا پھر ذاتی تعلقات کی بنیادوں پر۔

آپ ہی تو فرماتے ہیں جہاں میریٹ، قوانین اور انصاف کا قتل ہوگا وہاں ترقی نہیں ہو سکتی۔ کہیں خدانخواستہ آپ نے اپنے فرمودات پہ بھی یوٹرن تو نہیں لے لیا؟

کل کیا ہوا؟ یقیناً آپ نے میچ تو دیکھا ہی ہوگا۔ اس ذلت کا ذمے دار صرف ناقص کارکردگی نہیں، وہ ناقص فیصلے ہیں جس کا نتیجہ کل رات کرکٹ سے شغف رکھنے والے لوگوں نے دیکھا۔ ذلّت، اور وہ بھی جو براہ راست پوری دنیا نے دیکھی! ہم نہ دل سے کھیلے، نہ دماغ سے! صرف ہم اپنی اپنی پرچی جیب میں رکھ کر کھلے!

اس بدترین کارکردگی کی ذمے داری آپ کے ذاتی دوست مانی صاحب پر عائد ہوتی ہے اور ان کے بعد ان کے فائز کردہ وہ تمام ذمے داران جو اس ٹیم اور ورلڈ کپ سے منسلک تیاری میں ملوث تھے۔

میں آج یہ کہنے پر مجبور ہوں کہ باقی جو سب آپ کو نہیں آتا، مجھے امید ہے آ جائے گا۔ لمحہِ فکریہ یہ ہے کہ جو آپ کو آتا ہے، اس کے باوجود بھی اگر یہی حال رہا اور آپ نے ذمے داری نبھانے کی بجائے دوستی نبھائی، تو میرے جیسے بہت سوں کی یہ سوچ کہ آپ سیکھ جائیں گے، وہ ڈھارس جو بندھی ہے، ٹوٹ جائے گی۔ نیز یہ کہ پھر جو جو کچھ جو آپ کو نہیں آتا، اس کا تو پھر۔ ۔ ۔

آخر میں عرض کرتا چلوں، بیشک لوٹی ہوئی دولت واپس لانا بے حد ضروری ہے، پر سوال یہ بنتا ہے کہ جب ملکی وقار اور عزت لوٹ جائے، ضرور بتایئے گا، وہ واپس کیسے آئے گی؟
اور چاہے آپ کرکٹر نہ بھی ہوتے۔ آخرکار، سرکار، آپ پی۔ سی۔ بی کے منتظمِ اعلیٰ ہیں۔ کچھ تو کرنا ہی ہوگا! رہی دوستی تو وہ چائے کے کپ پر سہی۔ کرکٹ کے کپ پر نہیں!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).