کرپشن صرف مالی نہیں اخلاقی بھی ہوتی ہے


کرپشن انگریزی کا لفظ ہے جسے ہم نے اردو کا ایک بڑا اچھا لفظ عطا کیا ہوا ہے ”بدعنوانی“۔ جس کی مزید تشریح کی جائے تو مطلب بنتا ہے کہ کوئی ایسا کام کرنا جس سے ہمارا لقب برا پڑ جائے، جیسے چور، جیسے ڈاکو، قاتل، بے ایمان، وغیرہ وغیرہ۔

ہم جس معاشرے میں رہتے ہیں وہ صدیوں سے اپنی ایک خاص ثقافت اور اخلاقی قدروں کا حامل رہا ہے۔ ابھی بھی ہے یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے۔ اسلام اس خطے میں کچھ زیادہ عرصہ پہلے نہیں تھا۔ اسلام دین ہے اور ایک مینی فیسٹو ہے۔ جسے آ پ زندگی گزارنے کے لیے ایک مکمل اور جامع دستاویز کہہ لیں۔ اسلام آ نے کے بعد ہمارے خطے کی اخلاقی قدروں میں زیادہ تبدیلی نہیں آ ئی کہ بہت سی تو یہاں پہلے ہی موجود تھیں۔ جیسے خاندان کا تصور، ماں کی عزت، عورت کا پردہ ( اگرچہ یہ پردہ اونچی ذات کی عورتیں کرتی تھیں ) ، رشتوں کا احترام اور بہت سی ایسی چیزیں بریصغیر کے سماج میں پہلے ہی موجود تھیں۔ ان سے ہٹ کر اسلام نے جو ایک اخلاقی پیٹرن دیا اس میں ایک مکمل پیکج تھا جسے آ پ کسی ایک فرد کا پورا کردار کہہ لیں۔

وہ جھوٹ نہ بولے۔
امانت میں خیانت نہ کرے۔
وعدہ کرے تو پورا کرے۔
حسن سلوک سے پیش آ ئے۔
اچھی گفتگو کرے اور اخلاق حسنہ اپنائے۔

ناپ تول میں کمی نہ کرے۔
نکاح کے بغیر جسمانی تعلق قائم نہ کرے۔
حیادار رہے، یعنی نگاہ اور ذہن صاف رکھے۔
اگر سردار ہے تو رعایا کا غلام بن کے رہے۔

اور ایسی چھوٹی چھوٹی چیزیں جو بظاہر اتنی اہم نہیں لگتیں مگر مل کر ایک مکمل کردار کی تشکیل کرتی ہیں۔ اس کے ساتھ نشہ آ ور مشروبات یا ماکولات سے مناہی کردی۔ وجہ یہ تھی کہ نشے کی حالت میں انسان اپنی شعوری حالت میں نہیں رہتا اور اس کی لاشعوری حرکت کسی دوسرے فرد کی دل آ زاری کی باعث بن سکتی ہے۔

اسلام کا ایک مکمل انسان کا تصور ان چیزوں کے بغیر مکمل نہیں ہوتا اور مذکورہ بالا رویوں میں سے بھی کسی ایک رویے کی عدم موجودگی بھی اخلاقی بدعنوانی سمجھی جاتی ہے۔

اب آ تے ہیں ہم وطن عزیز کی طرف جہاں ہم گزشتہ کچھ مہینوں سے ”ریاست مدینہ“ کا شور سن رہے ہیں۔ لیکن یہ وہ ریاست ہے جس میں کرپشن کا مطب فقط پیسے کا ہیر پھیر ہے۔ شاید موجودہ ریاست مدینہ کے حواری اور اصحابی دیگر اخلاقی بدعنوانیوں سے واقف نہیں یا پھر وہ ان باتوں کو بدعنوانی سمجھتے ہی نہیں۔ حاکم وقت بلکہ خلیفتہ اللہ سے لے کر ان کے اندھا دھند پیروکاروں تک ہر فرد ضرورت سے زاید بد زبانی میں مبتلا ہے، یہ وہ ریاست ہے جہاں خلیفہ کے نکاح میں آ نے کے بعد ایک خاتون مادر ملت کہلاتی ہے اور نکاح سے خارج ہوتے ہی مادر ذلت قرار دے دی جاتی ہے۔

یہ وہ ریاست ہے جہاں مادر زاد ہرہنگی کی نمائش کرنے والی ایک عورت کو خلیفہ کے حق میں چند جملے بولنے پر ایک دم سب سے محترم اور باوقار خاتون ہونے کا سرٹیفیکیٹ مل جاتا ہے۔ یعنی جدید ریاست مدینہ کے قانون کے مطابق کسی بھی شخص کے کردار کا تعین اس شخص کی خلیفہ وقت کی خوشامد یا تنقید کے ساتھ جوڑ دیا گیا ہے۔ اور اس خود ساختہ فاشزم کو جمہوریت کی سند بھی ساتھ ہی عطا کردی گئی ہے۔

خلیفتہ المسلمین بلکہ خلیفتہ الارض ظاہر ہے انسان ہیں۔ لیکن ہم انہیں خطا کے پتلے نہیں کہہ سکتے، کیونکہ جدید ریاست مدینہ کے اخلاقی ڈھانچے میں ایسی کسی گستاخی کی کوئی گنجائش نہیں ہے، جو شخص مالی بدعنوانی کے جانی دشمن خلیفہ کی کمزور اخلاقیات کی دہائی دے گا اس کا تیاپانچہ کرنے کے لیے ایک لشکر اس پر ٹوٹ پڑے گا، ناقص دلیلوں اور بے جان مباحث کے ڈھیر لگ جائیں گے۔ معلوم نہیں جدید ریاست مدینہ کے اس محب وطن، ایماندار، سادگی پسند، صاف گو اور نیک نیت خلیفہ نے سیاست کی یہ طرز کہاں سے سیکھی ہے جس میں باقی سب کچھ تو ہے لیکن اخلاق حسنہ دور دور تک مفقود ہے۔

خلیفہ ہر دوسرے دن اپنی تقریر میں اسلامی تاریخ کے حوالے دیتے ہیں، لیکن شاید ان کا دھیان ابھی تک کسی مشیر نے اس طرف نہیں موڑا کہ اسلامی ریاست میں صرف میثاق مدینہ ہی نہیں تھا بلکہ اس ریاستی ڈھانچے میں فرد کی اخلاقی تربیت پہ بھی اتنا ہی زور تھا۔ آ پ دارارقم کی آ پ اصحاب صفہ کی تاریخ اٹھا کے دیکھ لیں جس میں اکھڑ اور بدتہذیب عربوں کی اخلاقی تربیت کی گئی اور انہیں شائستگی سکھائی گئی۔ یہ وہ عرب تھے جو زبان اور لوہے کی، ہر دو تلواروں سے کاٹ پیٹ کرنا جانتے تھے۔

اعتراض کا جواب کیسے دینا ہے، سیاسی مخالفین سے کیسے نمٹنا ہے یہ سب اس ماڈل میں شامل تھا۔ جدید ریاست مدینہ کے خلیفہ نے بائیس سالہ جدوجہد میں جو اخلاق اور شائستگی کی جو رہی سہی دیوار بھی گرائی ہے آ ج حکومت میں آ نے کے بعد وہ اسی کا سامنا کررہے ہیں تو ان کے پیروکار اس پہ اتنا تلملاتے کیوں ہیں؟ یہ فارمولا تو سائنس کا بھی ہے کہ ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے۔ آ ج جو بیج آ پ بورہے ہیں کل اسے کاٹنا بھی آ پ نے ہے۔

”کسی کے خدا کو برا مت کہو مبادا یہ کہ وہ تمہارے خدا کو گالی دے“ کوئی بھی سیاسی یا سماجی ڈھانچہ فقط ایک طرفہ پروپیگنڈا پہ کھڑا نہیں رہ سکتا، کبھی نہ کبھی اسے شکستہ ہوکے گرنا ہی ہوتا ہے۔ تو ایسے میں فقط پیسے کا ہیر پھیر ہی بد عنوانی نہیں ہے بلکہ وہ ساری غیر اخلاقی حرکتیں بھی بدعنوانی میں شامل ہیں جو جدید ریاست مدینہ کے خلیفہ اور ان کے پیروکاروں میں موجود ہیں اور جنہیں خلیفہ کی حمایت میں استعمال کرنے پر آ ج کل فن کا درجہ حاصل ہوچکا ہے۔ معتوب سابق حکمران قوم کا پیسہ لوٹ کے بھاگے تھے، مگر خلیفہ نے قوم کا اخلاق چھین کر گٹر میں ڈال دیا ہے۔

سو میری خلیفہ سے گزارش ہے کہ اسلامی تاریخ میں سے واقعات کو لے کر ان کی مسخ شدہ مثالیں دینے کی بجائے خلفاء راشدین، اور حضرت عمر بن عبد العزیز کے اسوہ حسنہ سے بھی کچھ روشنی پکڑیں اور اپنے پیروکاروں کو ہر تقریر میں ”چور اور ڈاکو“ والے نعرے کی بجائے ایک اچھا نعرہ دے دیا کریں۔ کیونکہ ان بے چاروں کی تو یہ حالت ہے کہ آ پ کہیں گے سورج مغرب سے نکلتا ہے تو آ پ کی اس زبانی لڑکھڑاہٹ کو ثابت کرنے کے لیے وہ آ دم سے لے کر سٹیفن ہاکنگ تک سبھی انبیاء، صالحین، سائنس دانوں، مفکرین اور دانشوروں کی مثالیں ڈھونڈ ڈھونڈ کے معترضین کے آ گے ڈھیر کردیں گے، اور مشرق سے اگلے دن کا سورج طلوع ہونے تک یہی کرتے رہیں گے۔
( ان الانسان لفی خسر)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).