مسلمانوں کا اصل مسئلہ فری میسن تنظیم نہیں، علم کا بحران ہے


‘ ہم سب’ کی ایک مستقل قلمکار محترمہ سلمی اعوان نے ”ہیکل سلیمانی، الاقصی کی بربادی اور خفیہ خزانے کی تلاش ” کے عنوان سے نئے کالم میں ایک کتاب کے مندرجات بیان کئے ہیں۔ جیسا کہ عنوان سے ظاہر ہے کہ اس میں بیت المقدس کے حوالے سے بات کی گئی ہے۔ بیت المقدس سے بیک وقت یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں کی نسبت اور لگائو کے حوالے سے کتاب کے چند خیالات، واقعات کو موضوع بنایا گیا ہے۔

کالم کے مطابق کتاب میں حضرت سلیمان علیہ سلام کی طرف سے جادوگروں وغیرہ کے خلاف کارروائیوں کا ذکر، حضرت سلیمان کا جادوگروں کے جادو ٹونے کی اشیا کو زمین میں دفن کرنا، فرانس سے نائٹس کا بیت المقدس آ کر رہنا، حضرت سلیمان کے دفن کردہ جادو ٹونے کی بعض اشیا ان نائٹس کو مل جانا، اس کے بعد ان نائٹس کا دنیا کی معیشت پر چھا جانا، پھر ان نائٹس کا فرانس کے بادشاہ فلپ چہارم کے ہاتھوں قتل، بعض نائٹس کا بھاگ کر آئر لینڈ جانا، وہاں ”فری میسن” نامی ایک عالمی خفیہ تنظیم کی بنیاد ڈالنا، دنیا پر ” فری میسن” کا اقتدار ہونے کا (یک سازشی نظرئیے کے طور پر) ذکر کیا گیا ہے۔

میرا مشاہدہ ہے کہ پاکستان میں عمومی طور پر انہی کتابوں سے علم ملتا ہے جو انگریزی یا کسی اور غیر ملکی زبان سے ترجمہ کی ہوئی ہوتی ہیں۔ ہمارے کئی اصحاب علم ایسی معرفت والے ہوتے ہیں کہ جس طرح ہمارے کوئی ایٹمی سائینسدان جنوں سے بجلی بنانے کے مقالے پورے اعتماد کے ساتھ کانفرنس میں پیش کرتے ہیں۔ اس کتاب کے مصنف پاکستانی ڈاکٹر کاشف مصطفی، جن کا شمار دنیا کے بہترین ہارٹ سرجنوں میں ہوتا ہے، جنوبی افریقہ میں مقیم ہیں۔ ان کے اس سفر نامے کا ترجمہ سابق بیوروکریٹ و قلم کار اقبال دیوان نے کیا ہے۔ اس سفر نامے کے تعارف پر مبنی کالم سے اس حقیقت کا اعادہ ہوا ہے کہ ہمارے اعلی تعلیم یافتہ، اپنے شعبے میں عالمی مہارت کے حامل افراچ کس طرح کی سوچ رکھتے ہیں اور مسلمانوں میں کس طرح کی روایتی باتوں کو فروغ دے رہے ہیں، کس طرح ہوائی قلعوں سے مسلمانوں کی پسماندہ ذہنیت کی تسکین کر رہے ہیں۔

دنیا کے عیسائی، یہودی، لا مذہب تو ترقی کے سفر پہ گامزن ہیں، مسلمان اپنی جہالت، پسماندگی، افلاس، کمزوری اور بے چارگی کے اسباب دور کرنے، دنیا میں مضبوط بننے کی عملی راہیں اختیار کرنے پہ توجہ دیں تو عین مناسب ہو گا۔ مذہب میں بھی مقتدر ترین علما جذبات، خاص وقت اور خاص شخصیات آنے پر دنیا کا ماحول تبدیل ہوجانے کی نوید کی طرح کی باتوں کو مسلمانوں کی نجات کی راہ سے تعبیر کرتے ہیں۔

ہمیں دنیا میں دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے افراد کے کردار اور ان کے کاموں پر توجہ دینے کی ضرورت ہے کہ انہیں سمجھا جا سکے اور طاقت کے تمام میدانوں میں ان کا مقابلہ کرنے کی سبیل کی جا سکے۔ غیر مسلموں سے مقابلہ کرنے کی پہلی شرط حصول علم ہے۔ حصول علم کے لئے جہالت کا خاتمہ ناگزیر ہے، چاہے وہ جاہلانہ طرز عمل ہمارے سماجی شعبے میں ہو، سرکاری، سیاسی شعبے میں ہو، مذہبی شعبے میں ہو یا کسی بھی شعبہ ہائے زندگی سے متعلق، جہالت کا خاتمہ اور حصول علم دنیا بھر میں مسلمانوں کی بقا کے لئے ناگزیر ہے۔

اگر ہم ظاہری شعبوں میں ہی غیر مسلموں کا مقابلہ کرنے کے قابل ہو سکیں تو ہمیں ان کی کسی خفیہ تنظیم سے خوفزدہ ہونے کی ضرورت باقی نہیں رہے گی۔ توہم پرستی، شخصیت پرستی، نسل پرستی، الغرض اللہ تعالی کے سوا کسی کی بھی پرستش سے مسلمانوں کو نجات حاصل کرنا ہوگی۔ یہ راہ اختیار کئے جانے تک مسلمان غیر مسلموں کی خفیہ تنظیموں اور ان کے مافوق الفطرت ہتھکنڈوں سے خوف زدہ ہی رہیں گے اور ان کے بھوت مسلمانوں کو ڈراتے رہیں گے۔ اور مسلمان اچھا وقت قیامت کی طرح اچانک نازل ہونے کے انتظار میں موجودہ حالت زار میں ہی گزارہ کرتے رہیں  گے۔

غیر مسلموں نے دنیا میں حکمرانی، من مانی کی طاقت، خفیہ تنظیموں اور جادوئی ٹوٹکوں سے حاصل نہیں کی بلکہ صنعت، تجارت، علم میں زینہ بہ زینہ ترقی کرتے ہوئے حاصل کی ہے اور اب وہ اس بلندی پہ پہنچ چکے ہیں کہ جہاں ان کا کسی بھی شعبے میں مقابلہ کرنا مشکل سے ناممکن ہو چلا ہے۔ اور ہم مسلمان” دنیا ہلتی ہے تو ہلتی رہے، میں اپنی جگہ سے نہیں ہلوں گا” کی عملی اور ازلی تصویر بن کر رہ گئے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).