مصر کے صدر محمد مرسی کی زندگی پر ایک نظر


محمد مرسی

محمد مرسی جمہوری طور پر منتخب ہونے والے مصر کے پہلے صدر تھے لیکن صرف ایک ہی برس کے بعد تین جولائی 2013 کو فوج نے ان کی حکومت کا تختہ الٹ دیا۔

فوج کے اس اقدم سے پہلے محمد مرسی کی حکومت کے خلاف بڑے پیمانے پر مظاہرے شروع ہو چکے تھے تاہم انھوں نے فوج کے اس الٹی میٹم کو ماننے سے انکار کر دیا تھا کہ سنہ 2011 میں حسنی مبارک کو اقتدار سے الگ کیے جانے کے بعد ملک میں پیدا ہونے والے سب سے بڑے سیاسی بحران کو جدل از جلد حل کیا جائے۔

تختہ الٹ دیے جانے کے بعد چار ماہ تک محمد مرسی کو نامعلوم مقامات پر قید رکھا گیا اور پھر ستمبر سنہ 2013 میں حکومت نے اعلان کیا کہ اب محمد مرسی پر باقاعدہ مقدمہ چلایا جائے گا۔

حکومت کا الزام تھا کہ محمد مرسی نے اپنے حامیوں کو صحافی اور حزب مخالف کے دو رہنماؤں کو قتل کرنے پر اکسایا اور کئی دیگر افراد کو غیر قانونی طور پر قید کیا اور ان پر تشدد کروایا تھا۔

حکومت نے یہ الزامات صدارتی محل کے باہر ہونے والے ان ہنگاموں کی بنیاد پر قائم کیے تھے جن میں اخوان المسلمون کے کارکنوں اور حزب مخالف کے مظاہرین کے درمیان تصادم ہوا تھا۔

محمد مرسی اور اخوان المسملون کے 14 دیگر سرکردہ رہنماؤں پر قائم کیے جانے والے ان مقدامات کی سماعت نومبر سنہ 2013 میں شروع ہوئی۔

مقدمے کی پہلی سماعت پر کٹہرے میں کھڑے محد مرسی نے نہ صرف چیخ چیخ کر کہا تھا کہ انھیں ’فوجی بغاوت‘ کا شکار کیا گیا ہے بلکہ انھوں نے اس عدالت کو ماننے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

ان کا کہنا تھا ’ملک کے آئین کے مطابق میں جمہوریہ کا صدر ہوں اور مجھے زبردستی قید کیا گیا ہے۔‘

لیکن اپریل سنہ 2015 میں محمد مرسی اور ان کے دیگر ساتھیوں کو 20، 20 سال قید کی سزا سنا دی گئی۔ اگرچہ انھیں اپنے کارکنوں کو قتل پر اکسانے کے الزام سے بری کر دیا گیا تھا تاہم انھیں مظاہرین کو حراست میں لینے اور ان پر تشدد کرنے کے جرائم کا مرتکب پایا گیا۔

اس کے علاوہ محمد مرسی کو کئی دیگر جرائم کا بھی مرتکب پایا گیا جن میں غیر ملکی عسکریت پسندوں کے گٹھ جوڑ سے سنہ 2011 میں قیدیوں کو چھڑانے سے لے کر خفیہ سرکاری معلومات افشا کرنے، دھوکہ دہی اور توہین عدالت کے الزامات شامل تھے۔

پیشہ ورانہ تعلیم

محمد مرسی سنہ 1951 میں دریائے نیل کے کنارے واقع شرقیہ صوبے کے ایک دیہات میں پیدا ہوئے تھے۔

انھوں نے سنہ 1970 کے عشرے میں قاہرہ یونیورسٹی سے انجنیئرنگ کی ڈگری حاصل کی جس کے بعد وہ پی ایچ ڈی کے لیے امریکہ چلے گئے تھے۔

مصر واپسی پر وہ زقازیق یونیورسٹی میں انجنیئرنگ کے شعبے کے سربراہ تعینات ہوئے۔

محمد مرسی

اس دوران وہ اخوان المسلمون کے نظم کے اندر بھی ترقی کرتے رہے اور جماعت کے اس شعبے میں شامل ہو گئے جس کا کام کارکنوں کو رہنمائی فراہم کرنا تھا۔

سنہ 2000 سے لے کر سنہ 2005 کے درمیانی عرصے میں وہ آزاد رکن کی حیثیت سے اس پارلیمانی اتحاد میں بھی شامل رہے جس میں اخوان المسمون بھی شامل تھی۔

لیکن اس کے بعد وہ اپنے آبائی حلقے سے انتخابات ہار گئے۔ محمد مرسی کا دعویٰ رہا ہے کہ انھیں دھاندلی سے ہرایا گیا تھا۔

انھوں نے رکن پارلیمان کی حیثیت سے لوگوں کو اپنے انداز خطابت سے متاثر کیا، خاص پر ان کی وہ تقریر خاصی مشہور ہوئی تھی جب سنہ 2002 میں ریل کے بڑے حادثے کے بعد انھوں نے سرکاری نااہلی کے لتے لیے تھے۔

اپریل سنہ 2012 میں محمد مرسی کو اخوان المسلمون کا صدارتی امیدوار منتخب کر لیا گیا تھا۔ انھیں امیدوار بنانے کے لیے جماعت کے نائب رہنما اور مشہور کاروباری شخصیت خیرت الشتار پردباؤ ڈالا گیا تھا کہ وہ اپنے کاغذات نامزدگی واپس لے لیں۔

اگرچہ خیرت الشتار کے مقابلے میں محمد مرسی کو کم کرشماتی شخصیت کا حامل سمجھا جاتا تھا لیکن مرسی اس وقت اپنی جماعت ’حزب الحریت و العدل (فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی) کے چیئرمین تھے اور جماعت کا خیال تھا کہ ان کے جیتنے کے امکانات زیادہ ہیں۔

اپنی انتخابی مہم کے دوران مرسی نے خود کو ایک ایسے رہنما کے طور پر پیش کیا جو حسنی مبارک کے دور کے بڑی بڑی شخصیات کو اقتدار میں آنے سے روک سکتا تھا۔

مظاہروں کا نیا سلسلہ

جون سنہ 2012 میں انتخابات میں چند نشستوں کی برتری سے اقتدار میں آنے والے مرسی نے وعدہ کیا کہ وہ ایک ایسی حکومت کے سربراہ ہوں گے جو مصر کے تمام شہریوں کے لیے کام کرے گی۔

لیکن ناقدین کا کہنا تھا کہ وہ اپنے ایک سالہ ہنگامہ خیز اقتدار کے دوران عام لوگوں کی بھلائی میں ناکام ثابت ہوئے۔ ناقاین کا الزام تھا کہ مرسی نے ملکی سیاست میں اسلام پسندوں کو کھلی چھٹی دے رکھی تھی جس سے اقتدار اخوان المسلمون کے ہاتھوں میں مرتکز ہوتا جا رہا تھا۔

ناقدین کا یہ بھی کہنا تھا کہ محمد مرسی ملکی معیشت کو درست سمت میں نہیں چلا پا رہے تھے حالانکہ ان کے خود اقتدار میں آنے کی وجہ بری معیشت اور مہنگائی تھی جس کے بعد لوگوں نے حقوق اور معاشرتی انصاف کے حق میں جلوس نکالنا شروع کر دیے تھے۔

مصر کے صدر عبدالفتح السیسی

عوامی سطح پر محمد مرسی کی حکومت کی مخالفت میں اضافہ نومبر سنہ 2012 میں اس وقت شروع ہوا جب انھوں نے اسلام پسند ارکان کی اکثریت والی پارلیمان سے ایک ایسا نیا آئین بنانے کا حکم دیا جس کے بعد صدر کے صوابدیدی اختیارات میں بہت اضافہ ہو جاتا۔

حزب مخالف کے کئی دنوں کے احتجاج کے بعد محمد مرسی اپنے حکم نامے کی شقوں میں کمی کرنے پر رضامند ہو گئے، لیکن اسی ماہ اس وقت ان کے خلاف احتجاج میں اضافہ ہو گیا جب قانون ساز اسلمبی نے عجلت میں آئین کا ایک مسودہ منظور کر دیا حالانہ اسمبلی میں موجود سکیولر، لبرل اور مسیسحی ارکان نے اس اجلاس کا بائیکاٹ کر دیا تھا۔

ملک میں بڑھتی ہوئی سیاسی بے چینی اور افراتفری کے ان دنوں میں محمد مرسی نے ایک نیا صدارتی حکم نامہ جاری کر دیا جس کے تحت 15 دسمبر کو آئینی مسودے پر ریفرنڈم تک قومی اداروں اور پولنگ سٹیشنوں کی حفاظت کے ذمہ داری مسلح افواج کے سپرد کر دی گئی۔

ناقدین کہتے ہیں کہ یہ صدارتی حکم ملک میں مارشل لا نافذ کرنے کے مترادف تھا۔

اگرچہ نئے چارٹر کی منظوری کے بعد فوج واپس بیرکوں میں چلی گئی لیکن چند ہی ہفتوں کے اندر اندر نہر سویز کے کنارے شہروں میں صدر مرسی کے حامیوں اور ان کے مخالفین کے درمیان تصادم اور ہنگاموں کے بعد ایک مرتبہ پھر ان علاقوں میں فوج تعینات کر دی گئی۔ ان ہنگاموں میں 50 سے زیادہ افراد ہلاک ہوئے تھے۔

23 جنوری سنہ 2013 کو اس وقت کے فوج کے سربراہ اور موجودہ صدر، عبدالفتاح السیسی نے خبردار کیا تھا کہ ملک میں جاری سیاسی بحران کے نتیجے میں ’ریاست منہدم ہو سکتی ہے۔‘

اپریل کے آخر میں حزب اختلاف کے کارکنوں نے تمرد (بغاوت) کے نام سے گلی محلوں میں ایک بڑی مہم کا آغاز کر دیا جس میں لوگوں سے ایک ایسی پٹیشن یا عوامی درخواست پر دستخط کرنے کو کہا گیا جس کا متن یہ تھا کہ محمد مرسی سکیورٹی بحال کرنے اور معیشت پر قابو پانے میں ناکام ہو چکے ہیں، اس لیے ملک میں نئے صدارتی انتخابات کرائے جائیں۔

اور پھر تمرد کی کال پر جب تین جون سنہ 2013 کے دن صدر مرسی کے اقتدار کا ایک سال پورا ہونے پر لوگوں سے باہر نکلنے کو کہا گیا تو اس لاکھوں افراد مصر کی سڑکوں پر نکل آئے۔

’تختہ الٹ گیا‘

محمد مرسی

صدر منتخب ہونے کی پہلی سالگرہ کی شام صدر محمد مرسی نے قوم سے جو خطاب کیا اس میں ان کا لہجہ مصالحت والا تھا۔ انھوں نے تسلیم کیا کہ ان سے ’بہت سی غلطیاں ہوئیں اور اب ان غلطیوں کو درست کرنے کا وقت آ گیا ہے۔‘

محمد مرسی کے خلاف مظاہروں میں شدت آنے کے بعد فوج نے یکم جولائی کو انھیں متبہ کیا کہ اگر انھوں نے 48 گھنٹوں کے اندر اندر عوام کے مطالبات کے حوالے سے انھیں مطمئن نہ کیا تو وہ مداخلت کے کر اپنا ’روڈ میپ‘ نافذ کریں گے۔

فوج کی جانب سے دی جانے والی ڈیڈ لائن کے قریب آتے آتے مرسی نے اصرار کرنا شروع کر دیا کہ وہ مصر کے جائز رہنما ہیں اور اگر انھیں زبردستی ہٹانے کی کوشش کی گئی تو ملک میں افراتفری پھیل جائے گی۔

مصر کی فوج نے تین جولائی کی شام کو آئین کو معطل کر دیا اور صدارتی انتخابات سے پہلے ایک ٹیکنوکریٹک عبوری حکومت کی تشکیل کا اعلان کیا۔

محمد مرسی نے اس اعلان کو ’بغاوت‘ قرار دیا تھا۔ محمد مرسی کو تین جولائی کو ان کے اقتدار کے پہلے برس کی تکمیل پر ملک میں لاکھوں افراد کے مظاہروں کے بعد فوج نے اقتدار سے الگ کر دیا تھا۔ انھیں ایک خفیہ مقام پر زیرِ حراست رکھا گیا۔

محمد مرسی کے حامیوں نے مصر سمیت ملک کے مختلف شہروں میں مظاہرے کیے اور ان کی فوری رہائی کا مطالبہ کیا۔

مصر کی فوج نے 14 اگست کو دارالحکومت میں اخوان المسلمین کے دو کیموں پر دھاوا بول دیا۔ اس کارروائی میں کم سے کم 1000 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32537 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp