دہلی کے بھانڈ اور طوائفیں


شاہی اور شہر آبادی کا تو ذکر ہی کیا۔ اب سے چالیس پچاس پہلے پہلے تک دلّی میں ایک سے ایک منچلا رئیس تھا۔ ریاست تو خیر باپ دادا کے ساتھ 1857 ء میں ختم ہو گئی تھی مگر فرنگی سرکار سے جو گزارہ انہیں ملتا تھا۔ اس میں بھی ان کے ٹھاٹ باٹھ دیکھنے کے لائق تھے۔ انہیں میں سے ایک بگڑے دل رئیس تھے جو اپنی شاہ خرچیوں کی وجہ سے نواب صاحب کہلانے لگے تھے۔ انہیں نت نئی سوجھتی تھی۔ قمری مہینے کی چودھویں رات کو اِن کے ہاں شب ِ ماہ منائی جاتی تھی۔ کبھی بیت بازی ہوتی، کبھی مشاعرہ ہوتا، کبھی تاش، پچیسی اور شطرنج کی بازیاں ہوتیں۔ کبھی میر باقر علی داستان گو طلسم ہو شربا کی داستان سناتے۔ کبھی گانے بجانے کی محفل ہوتی اور کبھی ناچ نرت کی سبھا جمتی۔

رات کو کھانا سب نواب صاحب ہی کے ہاں کھاتے۔ نواب صاحب کھانے کے شوقین تھے، ایک آدھ چیز خود بھی پکاتے تھے اور دوستوں کو کھلا کر خوش ہوتے تھے۔ دیوان خانے میں کھانے سے فارغ ہونے کے بعد کھلی چھت پر سب آ گئے۔ دری چاندنی کا فرش ہے۔ چاروں طرف گاؤ تکیے لگے ہوئے ہیں، مہمان ان کے سہارے ہو بیٹھے۔ حقے اور پیچوان لگ گئے۔ خمیرے کی لپٹیں آنے لگیں۔ گلاب پاش سے گلاب چھڑکا گیا، موتیا کے گجرے سے کنٹھے گلوں میں ڈالے گئے۔

چنگیروں میں چنبیلی کے پھول اور عطر میں بھیگی ہوئی روئی رکھی ہے۔ چاندنی کے خاصدانوں میں لال قند کی صافیوں میں دیسی پان کی گلوریاں رکھی ہیں۔ چوگھڑا الائچیاں، زردہ اور قوام علیحدہ رکھا ہے۔ پان کھائے گئے، حقے کے کش لگائے گئے، آپس میں بولیاں ٹھولیاں ہوئیں، آوازے توازےکیے گئے، ضلع جگت اور پھبتی بازی ہوئی۔ اِتنے میں چاند نے کھبت کیا۔ چاند کے چڑھنے تک یونہی خوش گپیاں اور نوک جھونک ہوتی رہی۔

جب چاندنی خوب پھیل گئی تو نواب صاحب نے میر کلو کی طرف دیکھا۔ یہ میر کلو دیوان خانے کے مختار کل تھے۔ تمام انتظامات میر کلو ہی کیا کرتے تھے۔ نواب صاحب نے کہا۔

”کیوں صاحب، کیا دیر دار ہے؟ “

میر کلو نے کہا ”حضور! حکم کا انتظار ہے۔ “

وہ بولے ”تو شروع کرو۔ “

پہلو کے کمرے سے سبز رنگ کی پشواز پہنے ایک اُجلے رنگ کی حسین عورت خراماں خراماں آ کر سینے پر دونوں ہاتھ رکھ کر کھڑی ہو گئی۔ محفل پر اُس نے ایک نظر ڈالی اور پھر نہایت ادب سے مجرا عرض کیا۔ اوہو! یہ تو موتی بھانڈ ہے! پیچھے دو سارنگی والے، ایک طبلہ نواز اور ایک مجرے والا، اُجلی پوشاک پہنے آکھڑے ہوئے۔ طبلے پر تھاپ پڑی، سارنگیوں پر لہرا شروع ہوا، طبلہ نواز نے پیش کارن گایا، موتی بھانڈ نے گت بھری تو یہ معلوم ہوا کہ اندر کے اکھاڑے کی پری اُتر آئی۔

چکر دار گت ختم ہوئی تو سب کے منھ سے ایک زبان ہو کر نکلا ”سبحان اللہ! “ موتی بھانڈ نے تسلیمات عرض کی۔ کوئی ایک گھنٹے تک کتھک ناچ کے مشکل توڑے سنائے، پھر لے کی تقسیم ایک سے سولہ تک دکھائی، آخری میں تتکار کا کمال دکھایا۔ سب نے جی کھول کر داد دی۔ واقع میں موتی بھانڈ نے اپنے فن میں کمال حاصل کیا تھا۔ اور جب اُس نے مور کا ناچ دکھایا تو اس کے تھرکنے پر محفل لوٹ گئی۔ نواب صاحب نے ناچ ختم ہونے پر اُسے بلایا اور کہا۔

”موتی، تم پر یہ فن ختم ہے۔ مور کا ناچ سبھی ناچتے ہیں مگر جس سلسلے سے تم ناچتے ہو، یہ اور کسی کے بس کی بات نہیں۔ بالخصوص ناچتے ناچتے جب مور اپنے پیروں کو دیکھتا ہے اور اس کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں، اس کیفیت کو جس خوبی اور سچائی سے تم ادا کرتے ہو، بس یہ تمہارا ہی حصہ ہے۔

نواب صاحب نے یہ کہہ کر ایک اشرفی اور چند رویے انعام دیے۔ موتی بھانڈ نے انعام لے کر مودبانہ تین سلامکیے اور ہاتھ جوڑ کر کہا۔

”حضور کی ذرّہ نوازی اور فن کی قدر دانی ہے کہ اس غلام کو یوں سراہتے ہیں۔ ورنہ میں کیا میری بساط کیا؟ میں آنم کہ من دانم۔ “

یہ شائستگی اور علم مجلس دلّی کے فنکاروں میں اب سے نصف صدی پہلے تک موجود تھا۔ جب فنکار اور فن کی ناقدری ہونے لگی تو فنکار کا وقار اور فن کا اعزاز جاتا رہا۔ موتی کے بعد دلّی میں زری اور کلّن جیسے بھانڈ رہ گئے تھے جو بھنڈیلوں اور نقالوں کے سہارے زندہ تھے، اور کمینوں میں ان کا شمار ہوتا تھا۔ جس زمانے میں گانے بجانے کو عیب نہیں، ہنر سمجھا جاتا تھا۔ دلّی کے شرفا اِسے فن کی حیثیت سے سیکھتے تھے۔ دلّی میں اچھے استادوں کی کمی نہیں تھی۔ کوئی ستار سیکھتا، کوئی طبلہ، کسی کو گانے کا شوق ہوتا تو راگ راگنیاں سیکھتا اور کسب و ریاض سے اِس علم و فن میں اتنی مہارت حاصل کرلیتا کہ پیشہ ور بھی اس کا لوہا ماننے لگتے۔

گانے بجانے کے سلسلے میں دلّی کی ڈیرہ دار طوائفوں کا مختصر سا تذکرہ بے جا نہ ہوگا۔ نئی تانتی اب سے پچاس سال پہلے کی طوائفوں کا صحیح تصور بھی نہیں کر سکتی۔ ڈیرے دار طوائفیں پیشہ نہیں کماتی تھیں اور نہ عام طوائفوں کی طرح مجرے کرتی تھیں۔ ان کے ٹھکانے دراصل تہذیبی ادارے ہوتے تھے جن میں تمیز، اخلاق اور شائستگی سکھائی جاتی تھی۔ ہر کس و ناکس ان کے ہاں جا بھی نہیں سکتا تھا۔ یہ ہمارے ہوش سے پہلے کی بات ہے کہ شرفاء ان کے ہاں اپنے بچوں کو تہذیب سیکھنے کے لئے بھیجا کرتے تھے۔ دونی جان اور چونی جان کی یادگار موتی جان اور نوشابہ جان البتہ 1947 ء تک دلّی میں موجود تھیں جو نہایت مہذب مشہور تھیں۔ دوانی جان وہی تھیں جن کے بارے میں توتلے شہزادے مرزا چپاتی نے یہ شعر کہا تھا

دھستے دھستے ہو دئی اتنی ملت

تھات پیسے تی دوانی رہ دئی

یعنی

گھستے گھستے ہو گئی اتنی ملٹ

سات پیسے کی دوانی رہ گئی

نوشابہ جان کا نام گانے اور ناچنے میں بھی نکلا ہوا تھا۔ دلّی کے گنے چنے شرفا کے گھرانوں میں جایا کرتی تھیں اور اپنے کمال فن کا مظاہرہ کرتی تھیں۔ شعر بھی کہتی تھیں۔ دلّی کی بیگماتی زبان بولتی تھیں۔ بولی ٹھولی اور ضلع جگت میں بھی نہیں چوکتی تھیں۔ اگر کبھی باہر سے قابل تکریم فنکار شہر میں آتے تو اُن کی دعورت کرتیں، سو پچاس شرفا کو بلاتیں۔ پہلے دسترخوان بچھایا جاتا، عمدہ کھانا کھلایا جاتا۔ اس کے بعد پان، سگریٹ سے تواضع ہوتی۔ سب گاؤ تکیوں کے سہارے ہو بیٹھتے۔ فقرے بازی ہوتی، پھبتیاں کی جاتیں۔ کسی کو نقل محفل بنایا جاتا، یہ عموماً کوئی ثقہ بزرگ ہوتے۔ برجستہ شعر پڑھے جاتے، ہنسی مذاق کی باتیں ہوتیں، مگر کیا مجال جو ذرا بھی بے ہودگی کسی سے ہو جائے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2