مودی حکومت: انڈیا کی معاشی ترقی کے دعووں میں کتنی حقیقت ہے؟


مودی حکومت

مودی حکومت کو معاشی ترقی کی بحالی کے لیے دباؤ کا سامنا ہے

انڈیا کے سابق چیف معاشی مشیر نے یہ خدشہ ظاہر کیا ہے کہ انڈیا اپنی معاشی ترقی کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے۔ ایک ہندوستانی اخبار میں شائع ہونے والے اپنے کالم میں اروند سبرامنیئن نے کہا ہے کہ ان کی تحقیق کے مطابق ہندوستان نے معاشی ترقی ماپنے کا طریقہ کار تبدیل کر دیا ہے جس کی وجہ سے اب اس کی سالانہ مجموعی قومی پیداوار (جی ڈی پی) بڑھر چڑھا کر تقریباً ڈھائی فیصد تک بتائی جا رہی ہے۔

اُدھر انڈیا کے وزیرِ اعظم نریندرا مودی کے اقتصادی مشیروں کی ٹیم نے سبرامنیئن کے اخذ کردہ نتائج کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ جلد ہی ان تمام نکات کا تفصیلی جواب دیا جائے گا۔

حکومتی رد دلائل خواہ کیسے بھی ہوں تاہم سبرامنیئن کے مشاہدات نے ہندوستان کی معاشی ترقی کے دعووں پر کئی سوالات الٹھا دیے ہیں۔

دہلی

سابق اعلیٰ ترین اقتصادی مشیر اروند سبرامنیئن کہتے ہیں کہ ہندوستان کی جی ڈی پی کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جا رہا ہے

2018 میں انڈیا کی معاشی ترقی کی رفتار دنیا بھر میں سب سے زیادہ بتائی جاتی ہے مگر کئی چوٹی کے ماہرینِ اقتصادیات کا ماننا ہے کہ نیا طریقہ کار درست نہیں ہے جس کے باعث یہ معیشت کی حقیقی تصویر پیش کرنے سے قاصر ہے۔

تنازع کیا ہے؟

2015 میں ہندوستان نے اپنی جی ڈی پی ماپنے کے طریقہ کار کو تبدیل کر دیا تھا۔

بڑی تبدیلیوں میں سے ایک یہ تھی کہ جی ڈی پی کو اب بنیادی اخراجات کے بجائے مارکیٹ کی قیمتوں سے ماپا جاتا ہے۔ سادہ الفاظ میں کہیں تو پہلے جی ڈی پی کا حساب کسانوں کو ان کی مصنوعات پر ملنے والی تھوک قیمتوں سے لگایا جاتا تھا مگر اب اس کا تخمینہ صارفین کی جانب سے ادا کیے گئے مارکیٹ نرخوں پر کیا جاتا ہے۔

اس کے علاوہ بیس ایئر، یعنی جس سال کی قیمتوں سے موازنہ کیا جانا تھا کو 05-2004 سے تبدیل کر کے 12-2011 میں تبدیل کر دیا گیا تاکہ سہہ ماہی اور سالانہ شرحِ نمو کا جائزہ لیا جا سکے۔

تب سے اب تک یہ طریقہ اقتصادیات اور شماریات کے ماہرین کی کڑی نظروں میں رہا ہے۔

اور سبرامنیئن کے اس دعوے کہ 12-2011 سے 17-2016 کے درمیان معاشی ترقی بڑھا چڑھا کر پیش کی گئی نے ان تمام شکوک و شبہات کو تقویت دی ہے۔ جہاں سرکاری اعداد و شمار اسے 7 فیصد قرار دیتے ہیں، وہیں سبرامنیئن کے نزدیک حقیقی ترقی تقریباً 4.5 فیصد رہی ہے۔

ان کا تبصرہ ان کی اپنی تحقیق پر مبنی ہے جسے ہارورڈ یونیورسٹی کے سینٹر فار انٹرنیشنل ڈیولپمنٹ نے شائع کیا ہے۔

2015 میں جب نیا طریقہ کار نافذ ہوا تب سے اب تک کئی ماہرین نے وزیرِ اعظم نریندرا مودی کی حکومت میں لگائے گئے معاشی نمو کے بلند تخمینوں پر سوالات اٹھائے ہیں۔

ان کی حکومت کی جانب سے تیز شرحِ نمو کے دعوے کے باوجود سال 2017 اور 2018 کے درمیان بے روزگاری 45 سال کی بلند ترین سطح پر پہنچ گئی تھی۔

ہندوستان کے مرکزی بینک کے سابق سربراہ اور بین الاقوامی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے سابق چیف اکنامسٹ رگھورام راجن نے بلند شرحِ بیروزگاری کی بناء پر ڈیٹا پر شکوک کا اظہار کیا ہے۔

مودی معاشی پالیسی

ہندوستان کا زرعی بحران معاشی ترقی کی راہ میں ایک بڑی رکاوٹ ہے

انڈیا کی حکومت کیا کہتی ہے؟

حکومت نے معاشی ترقی ماپنے کے اپنے طریقہ کار کا دفاع کیا ہے۔

اپنے ایک بیان میں ہندوستان کی وزارتِ شماریات نے کہا ہے کہ “ہندوستان مختلف شعبوں کی جانب سے معیشت میں کیے گئے تعاون کا معروضی تخمینہ لگاتا ہے اور ملکی جی ڈی پی کے تخمینے تسلیم شدہ طریقہ کار کے تحت لگائے جاتے ہیں۔”

یہ پہلی مرتبہ نہیں ہے کہ ڈیٹا جمع کرنے کے حوالے سے حکومت سوالات کی زد میں آئی ہو۔ وزارتِ شماریات کی ایک تحقیق میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ جون 2016 کو ختم ہونے والے مالی سال میں ہندوستان کی جی ڈی پی کا تخمینہ لگانے کے لیے استعمال کیے گئے ڈیٹابیس میں موجود 36 فیصد کمپنیوں کا پتہ نہیں لگایا جا سکا یا پھر انہیں غلط زمروں میں شامل کیا گیا تھا۔

حکومت نے خود بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ اس کی جانب سے ڈیٹا اکھٹا کرنے کے طریقہ کار میں مسائل موجود ہیں۔

سبرامنیئن نے مطالبہ کیا ہے کہ ہندوستانی اور غیر ملکی ماہرین پر مبنی ایک آزاد پینل ہندوستان کے جی ڈی پی ڈیٹا کا جائزہ لے۔

سبرامنیئن لکھتے ہیں کہ “میری نئی تحقیق کے مطابق بین الاقوامی مالیاتی بحران کے بعد ماہرینِ شماریات جو عوام کو یقین دلانا چاہتے ہیں کہ ہندوستانی معیشت گولی کی رفتار سے ترقی کرے گی، اس بیانیے کو ایک مزید حقیقت پسندانہ بیانیے میں تبدیل ہونا ہوگا جس میں معیشت ٹھوس ترقی تو کرے گی مگر یہ انتہائی تیز رفتار نہیں ہوگی۔”

اس سے انڈیا پر کیا فرق پڑے گا؟

یہ وزیرِ اعظم مودی کی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے جس نے حال ہی میں دوسری مدت کے لیے انتخابات جیتے ہیں مگر اس پر معیشت کو بحال کرنے کے لیے کافی دباؤ ہے۔

حکومت کی اپنی شخصیات تسلیم کرتی ہیں کہ ہندوستان اب تیز ترین رفتار سے ترقی کرنے والی معیشت نہیں ہے، گزشتہ پانچ سالوں میں معاشی ترقی کی سست ترین شرح کی وجہ سے اس نے یہ اعزاز چین کے ہاتھوں کھو دیا ہے۔

نہ صرف یہ کہ اس سے ہندوستان کی ساکھ کو نقصان پہنچ سکتا ہے مگر اس سے یہ بھی نشاندہی ہوتی ہے کہ کس طرح گزشتہ چند سالوں میں نافذ کی گئی معاشی پالیسیوں نے معیشت کی ایک غلط تصویر پیش کر کے اقتصادی ترقی میں رکاوٹ ڈالی ہوگی۔

مثال کے طور پر ہندوستان میں مہنگائی کو قابو میں رکھنے کے لیے شرحِ سود بلند رکھی گئی مگر اس سے قرضے حاصل کرنے کی قیمت میں بھی اضافہ ہوا جس سے کاروبار میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ حالات اس وقت مزید خراب ہوئے جب بینکوں کو غیر وصول شدہ قرضوں کے بحران کا سامنا کرنا پڑا جس سے پیسے تک رسائی مزید مشکل ہو گئی۔

چنانچہ رواں سال جب معاشی ترقی رکنے لگی تو مرکزی بینک نے تین مرتبہ شرحِ سود میں کمی کا اعلان کیا۔

مودی معاشی ترقی

بے روزگاری حال ہی میں 45 سال کی بلند ترین سطح پر جا پہنچی تھی

ملازمتوں کی کمی اور ملک کو لاحق زرعی بحران ایسے دو بڑے چیلنجز ہیں جنہوں نے معاشی ترقی کی راہ میں رکاوٹ ڈال رکھی ہے۔

ماہرین کے مطابق معیشت پر اعتماد کی بحالی کے ساتھ ساتھ فوری طور پر شماریاتی نظام کو از سرِ نو استوار کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پالیسی جائزوں کے لیے تیزی سے ڈیٹا اکھٹا کیا جا سکے۔ حکومت کا کہنا ہے کہ وہ ڈیٹا اکھٹا کرنے کے نظام میں جدت لانے کے لیے ورلڈ بینک کے ساتھ کام کر رہی ہے۔

وزیرِ اعظم مودی نے حال ہی میں کمیٹیاں تشکیل دی ہیں جو سرمایہ کاری کو راغب کرنے اور ملازمتیں پیدا کرنے کے لیے پالیسیاں بنائیں گی۔ ہندوستانی معیشت کی مایوس کن صورتحال دیکھتے ہوئے سبرامنیئن کا بھی خیال ہے کہ حکومت کو معاشی سست رفتاری کے مسئلے سے نمٹنے کے لیے تیزی سے کام کرنا ہوگا۔

وہ لکھتے ہیں کہ “معیشت کے تیز رفتار ہونے کے بجائے سست رفتار ہونے کی اس نئی حاصل شدہ معلومات کی بنیاد پر ہنگامی طور پر اصلاحات کی جانی چاہیئں۔”


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32493 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp