امریکی حیلہ سازی: یہ کہانی نئی تو نہیں


اگلے چند روز میں خلیج میں کیا ہونے والا ہے اور کیا نہیں۔ یہ تو ایران، خلیجی ریاستیں اور امریکا جانیں۔ البتہ پچھلے سوا سو برس کی تین امریکی کہانیاں مجھ سے سن لیجیے۔

انیسویں صدی کے آخری عشرے میں اسپین اپنی آخری جنوبی امریکی نوآبادی کیوبا پر قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ہاتھ پاؤں مار رہا تھا۔ ریاستہائے متحدہ امریکا پورے براعظم کا بلا شرکتِ غیرے نیا آقا بننا چاہتا تھا۔ لہذا صدر ولیم کونلے نے کیوبائی مزاحمت کار قوم پرستوں سے برسرِپیکار اسپین پر دباؤ بڑھانے کے لیے امریکی بحریہ کا جنگی کروزر یو ایس ایس مین کیوبا کے دارالحکومت ہوانا کے قریب کھلے سمندر میں لنگر انداز کر دیا۔ تین ہفتے بعد پندرہ فروری اٹھارہ سو اٹھانوے کو یو ایس ایس مین خوفناک دھماکے سے دو ٹکڑے ہو کر غرق ہو گیا۔ عملے کے دو سو ساٹھ افراد ہلاک ہوگئے۔ صرف اٹھارہ زندہ بچ پائے۔

جیسے ہی خبر نیویارک پہنچی کہرام مچ گیا۔ امریکی بحریہ کے بورڈ آف انکوائری نے ہنگامی طور پر نتیجہ اخذ کیا کہ جہاز میں اندر سے دھماکا نہیں ہوا بلکہ اسپین کی بارودی سرنگوں کے حملے نے بارود خانے میں آگ لگائی اور جہاز ڈوب گیا۔ بورڈ آف انکوائری نے جہاز کے کمانڈر فرانسس ڈکنز اور دھماکا خیز مواد کے اپنے ہی ایک ماہر کیپٹن فلپ ایلگر کی شہادت کو گھاس تک نہیں ڈالی جن کا کہنا تھا کہ یو ایس ایس مین کسی حملے سے نہیں بلکہ بارود کا ذخیرہ پھٹنے سے تباہ ہوا ہے۔ کیونکہ بارود خانے سے متصل کوئلے کے ذخیرے میں گیس جمع ہونے کے سبب شعلے بھڑک اٹھے۔ مگر بحری امور کے وزیر تھیوڈر روز ویلٹ نے کہا کہ فلپ ایلگر کو حقائق کا مکمل علم نہیں۔

اخبارات نے اسپین کو ذمے دار قرار دیتے ہوئے جنگ جنگ کا شور مچا دیا۔ ولیم ہرسٹ کا مقبولِ عام اخبار ”نیویارک جرنل“ لگاتار شہ سرخی چھاپتا رہا ”مین کو یاد رکھو، اسپین کو جہنم رسید کرو“۔ جو امریکی فوجیوں کے قاتلوں کو کٹہرے میں لانے میں کامیاب ہو گا، اس کے لیے ولیم ہرسٹ نے پچاس ہزار ڈالر کا انعام مقرر کیا۔ جوزف پلٹزر کا اخبار ”نیویارک ورلڈ“ بھی پیچھے نہ رہا۔ شہ سرخی میں روزانہ سوال پوچھا جاتا کب انتقام لیا جائے گا؟

جوزف پلٹزر نے ایک نجی محفل میں کہا ”کوئی پاگل ہی سوچ سکتا ہے کہ اسپین نے اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری مگر ہمیں اخبار بھی تو بیچنا ہے“۔ (کیسی ستم ظریفی ہے کہ آج معیاری صحافت کا سب سے بڑا عالمی انعام پلٹزر پرائز زرد صحافت کے ایک امام جوزف پلٹرز کے نام پر ہے ) ۔

بہرحال جب جنگی بخار حسبِ منشا پھیل گیا تو امریکی کانگریس نے خوشی خوشی پچیس اپریل کو صدر کونلے کو جنگ کرنے کا اختیار دے دیا۔ کیوبا میں ہسپانوی بحری بیڑا چار گھنٹے میں نیست و نابود کر دیا گیا۔ گویا اسپین براعظم امریکا سے ویسے ہی نکلا جیسے چار سو برس پہلے مسلمان اسپین سے نکالے گئے تھے۔

بحرالکاہل میں امریکی بحریہ کے کمانڈر کموڈور ڈیوی نے منیلا پر حملہ کر کے دوسرے ہسپانوی بیڑے کو برباد کر دیا۔ دسمبر اٹھارہ سو اٹھانوے میں پیرس میں امریکا اور اسپین کا امن سمجھوتہ ہوا۔ پورٹوریکو، فلپینز، گوام پر امریکی قبضہ ہو گیا۔ کیوبا کو امریکی حلقہِ اثر میں نام نہاد آزادی مل گئی۔ امریکی فوجی طاقت کی یورپ پر دھاک بیٹھ گئی۔ بحریہ کے وزیر تھیوڈور روز ویلٹ کی ہیرو پنتی کے شادیانے بج گئے اور وہ ولیم کونلے کے بعد امریکا کے صدر بن گئے۔

یو ایس ایس مین کا مستول امریکا لایا گیا اور واشننگٹن کے آرلنگٹن قومی قبرستان میں نصب کر دیا گیا۔ شہداِ مین کی قومی یادگار بھی بنی۔

انیس سو چوہتر میں ایڈمرل ہائمن رکوے نے نجی طور پر تمام پرانی دستاویزات کنگھالیں۔ انیس سو ننانوے میں نیشنل جیوگرافی کی ٹیم نے جنگی جہاز مین کے زیرِ آب ڈھانچے کے فرانزک معائنے اور کمپیوٹر سیمولیشن کی مدد سے دستاویزی فلم بنائی۔ دو ہزار دو میں ڈسکوری چینل نے اپنے طور پر ایک تحقیقی فلم بنائی۔ سب ایک ہی نتیجے پر پہنچے۔ یو ایس ایس مین اسپین کے حملے سے نہیں بلکہ اپنا ہی بارود حادثاتی طور پر پھٹنے سے برباد ہوا۔ مگر امریکا کو جو مقصد حاصل کرنا تھا وہ کر لیا۔ اب آپ تاقیامت تحقیق پیٹتے رہئے۔

آئیے اگلے چھیاسٹھ برس فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ انیس سو چونسٹھ میں امریکا میں لنڈن بی جانسن حکومت برسرِاقتدار ہے۔ امریکا جنوب مشرقی ایشیا میں کیمونسٹ اثر و نفوذ کو روکنا چاہتا ہے۔ آنجہانی صدر کینیڈی شمالی ویتنام کا مقابلہ کرنے کے لیے جنوبی ویتنام کی فوجی تربیت کے نام پر سولہ ہزار امریکی فوجی تربیتی مشیروں کے بہانے بھیج چکے ہیں۔ اب امریکی انتظامیہ چاہتی ہے کہ کوئی ایسا موقع ملے جس کے پردے میں امریکا ایک ہی بار شمالی ویتنام کا قلع قمع کردے۔

چنانچہ جولائی انیس سو چونسٹھ میں امریکی بحریہ کے ایک جہاز یو ایس ایس میڈوکس کو خلیج ٹونکن میں شمالی ویتنام کے ساحل سے کچھ پرے کھڑا کر دیا جاتا ہے۔ اس کا کام سراغرسانی ہے۔ دو اگست کو تین شمالی ویتنامی گن بوٹس جہاز کے قریب آتی ہیں۔ ان کشتیوں پر یو ایس ایس میڈوکس سے بھاری گولہ باری کی جاتی ہے۔ دعوی کیا جاتا ہے کہ میڈوکس پر پہلے ویتنامیوں نے تارپیڈو اور مشین گنوں سے حملہ کیا۔ مگر یہ کیسا حملہ تھا کہ صرف ایک گولی جہاز کی چادر میں سوراخ کر پائی۔ تینوں حملہ آور ویتنامی گن بوٹس کو جوابی گولہ باری سے نقصان پہنچانے اور چار ویتنامی حملہ آور فوجیوں کی ہلاکت کا بھی دعوی کیا گیا۔

اس حملے کے دو روز بعد چار اگست کو امریکی فوجی ذرایع نے دعوی کیا کہ ویتنامی گن بوٹس نے دوبارہ یو ایس ایس میڈوکس پر حملے کی کوشش کی۔ دو ویتنامی مسلح کشتیوں کو تباہ کر دیا گیا اور متعدد ہلاکتیں ہوئیں۔ چنانچہ اسی دن شام کو امریکی کانگریس نے صدر کو جنوب مشرقی ایشیا میں کیمونسٹ خطرے کی روک تھام کے لیے فوجی اقدامات سمیت ہر قسم کی کارروائی کا اختیار دے دیا۔ صدر جانسن نے نصف شب کو قوم سے خطاب کیا اور پانچ اگست کو امریکی فضائیہ نے شمالی ویتنام کے خلاف پہلے بھرپور حملے میں پانچ بحری اڈوں اور تیل کے ذخیرے کو نشانہ بنایا۔ اور پھر پانچ لاکھ امریکی فوجی اگلے گیارہ برس کے لیے ویتنام بھجوا دیے گئے۔

کیا خلیج ٹونکن میں واقعی ویتنامی کشتیوں نے دو اور چار اگست کو امریکی جنگی جہاز پر حملہ کیا تھا؟

دو اگست کو یقیناً امریکی جہاز اور ویتنامی گن بوٹس میں جھڑپ ہوئی۔ مگر چار اگست کی جھڑپ جس کو بہانہ بنا کے شمالی ویتنام کے خلاف بھرپور امریکی کارروائی شروع ہوئی درحقیقت کبھی ہوئی ہی نہیں۔

حقیقت یہ تھی کہ خراب موسم کے سبب امریکی جنگی جہاز کے ریڈار نے غلط امیجز دینے شروع کیے اور جہاز کے کمانڈر نے تصوراتی حملہ آوروں پر گولہ باری شروع کرا دی۔ مگر دو ہزار پانچ میں نیشنل سیکیورٹی ایجنسی کی ڈی کلاسیفائیڈ ہونے والی دستاویزات سے پتہ چلتا ہے کہ کچھ ہی دیر بعد کمانڈر کیپٹن ہیرک نے ہائی کمان کو تار بھیجا کہ حملہ نہیں ہوا بلکہ مغالطہ ہوا ہے۔ ایک گھنٹے بعد دوسرا تار بھیجا گیا۔ یہ اطلاعات پیسفک نیول ہائی کمان کے توسط سے وزیرِ دفاع میکنامارا کی میز تک پہنچائی گئیں۔ بعد ازاں میکنامارا نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ان کا صدر جانسن کے ساتھ ورکنگ لنچ طے تھا لہذا وہ یہ پیغامات بروقت نہ دیکھ سکے۔

البتہ اس وقت کے نائب امریکی وزیرِ خارجہ برائے اقتصادی امور جارج بال نے ایک برطانوی صحافی کو انٹرویو میں انکشاف کیا کہ وزیرِ دفاع میکنامارا، قومی سلامتی کے مشیر میک جارج بنڈی اور خود صدر جانسن کے علم میں تھا کہ چار اگست کو امریکی جہاز پر کوئی حملہ نہیں ہوا۔ لیکن چند ماہ قبل شمالی ویتنام کے خلاف کارروائی کا فیصلہ ہو چکا تھا لہذا ایک بہانے کی تلاش تھی بھلے وہ کتنا ہی بودا ہو۔

آئیے مزید انتالیس برس فاسٹ فارورڈ کرتے ہیں۔ پانچ فروری دو ہزار تین کو اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں امریکی وزیرِ خارجہ کولن پاول نے صدام حسین کے وسیع تر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں سے دنیا کو نجات دلانے کے لیے فوجی کارروائی کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے جہاں صدام حسین کی ”حیاتیاتی و کیمیاوی ہتھیار ساز موبائل لیبارٹریز“ کی تصاویر دکھائیں۔ وہیں کولن پاول کے ہاتھ میں ایک شیشی بھی تھی جس میں بقول ان کے خشک انتھریکس بھرا ہوا تھا۔ یہ وہ انتھریکس تھا جو ایک لفافے میں کسی نے دو برس قبل امریکی سینیٹ کے پتے پر پوسٹ کیا تھا اور کانگریس کی عمارت کو احتیاطاً خالی کرا لیا گیا تھا۔

کولن پاول نے شیشی لہراتے ہوئے اسے عراق کے کیمیاوی ہتھیاروں کے واحد زندہ ثبوت کے طور پر پیش کیا۔ اور پھر انیس مارچ کو صدام حسین کے خلاف آخری فوجی کارروائی شروع ہو گئی۔ جانے وہ کیمیاوی و حیاتیاتی ہتھیاروں کے ذخیرے اور لیبارٹریاں صدام حسین نے کہاں چھپا دیں جو آج تک نہیں مل سکیں۔ البتہ عراق ضرور نیو امریکی ورلڈ آرڈر کی لیبارٹری بن گئی۔
سمجھ تو آپ گئے ہوں گے؟
بشکریہ روزنامہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).