ایک تھا پیر اور ایک تھا مُلا


لوگو ٹھہرو میری بات سنو۔ آج پیروں کے ہاں دستاربندی ہے نئے پیر کی۔ وہاں مت جانا۔ یہ کفر نہ کرنا۔ خدا سے رابطے کے لیے کسی واسطے کسی انسان کی ضرورت نہیں۔ ہاتھ اٹھاؤ جو چاہو مانگو اگر وہ مانگ تمھارے لیے اچھی ہو گی پوری ہو جائے گی۔
لوگوں نے بات سنی۔ ان کے دل گھبرائے۔ شک نے ڈیرے ڈالے۔ کوئی گھر گیا۔ کوئی سوچنے لگا۔ کوئی دستار بندی دیکھنے چل پڑا۔

پیر نے ماں کے پیروں کو ہاتھ لگائے۔ اپنے بڑوں کو یاد کیا۔ کوشش کے باوجود اسے بڑوں کی اچھائی سے زیادہ ان کے برے کام یاد آئے۔ ڈولتے قدم اٹھاتے پیر دہلیز کی جانب چلا تو بہن نے اٹھا کر دستار اس کے سر پر رکھ دی۔
ملا نے لوگوں کو جاتے دیکھا۔ دل میں کہا کہ اس زمین پر عذاب آئے گا۔ خدا کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں لوگ بندوں کو۔

پیر حجرے میں پہنچا۔ لوگوں کا رش دیکھا اپنی اوقات سوچی۔ اتنے بندوں کی امیدوں پر میں کیسے پورا اتروں گا۔ مجھے تو کچھ معلوم نہیں کہ ان کو کہنا کیا ہے۔ یہ کچھ مانگیں گے تو میں کدھر سے دوں گا؟

ملا اب اپنے گھر کو چل پڑا تھا۔ یہ پیروں نے بادشاہی کے مزے لیے ہیں۔ اس پیر کے بزرگوں میں ایک اچھا بندہ گزرا تھا۔ باقی سب نے بس اس کے نام کا ہی کھایا ہے۔ پیر کھڑا اپنے مریدوں کو دیکھ رہا تھا۔ مرید اپنی آس امیدیں دل میں لیے اپنے نئے پیر کو تک رہے تھے۔ جو نوجوانی کی عمر سے نکل رہا تھا۔ جو سب کچھ لگتا تھا پیر نہیں لگتا تھا۔

ملا اب غصے میں لال ہوتا جا رہا تھا۔ پیروں نے اک اونچے ٹیلے پر قبضہ جمایا۔ پیر کا نام اونچا پیر ہو گیا۔ ان کا دربار اونچا دربار ہو گیا۔ ان کا پنڈ اونچا پنڈ ہو گیا۔ یہ اونچے ہو گئے۔ لوگ نیچے رہ گئے ان کی مانتے رہے تو بہت نیچے دوزخ میں سڑیں گے۔

پیر اب بیٹھ گیا تھا۔ پہلا مرید اس کی جانب بڑھ آیا تھا۔ اس نے گھٹنوں کو ہاتھ لگا کر کہا پیر صاحب عرضی ہے۔ پیر کو لگا کہ یہ چھوٹی سی دنیا ہے اس کے اردگرد۔ جس کے اب فیصلے اس نے کرنے ہیں۔ اردگرد کے بڑے زمیندار بھی اکٹھے اک ٹولی میں حجرے میں اسی وقت داخل ہونے لگے تھے۔

ملا اب اپنے گھر اپنے ہاتھ کا تکیہ بنا کر لیٹا ہوا تھا۔ کیسے جاہل لوگ ہیں، پیر انہی کے پیسوں پر پل گئے۔ لوگوں نے جب خوشی دیکھی تو اپنی زمین جا کر پیروں کے نام رجسٹر کرا دی۔ کوئی غم آیا تو مال ڈنگر بیچ کر نذرانے دے کر منت مان آئے۔

پیر خیالوں میں بادشاہ ہوا بیٹھا تھا۔ سفید دستار سادہ سی تھی پر کسی تاج سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ مرید چپ چاپ کھڑا تھا۔ اس نے دو بار عرضی ہے کہہ دیا تھا۔ پیر نے سنا ہی نہیں تھا۔

ملا کو مسجد کا خیال آیا کہ کیسے ویران رہتی ہے۔ کوئی اس کی طرف دھیان نہیں دیتا۔ دھیان کیسے دے غریبوں کا علاقہ ہے۔ جن کے پاس بڑے رقبے ہیں انہوں نے اپنے ڈیروں پر مصلے بنا رکھے ہیں۔ سات بندوں کے لیے سجدوں کی جگہ چھوڑ کر یہ سب مسجد سے ہی بے غم ہو گئے ہیں۔ ان کو پیر ہی ٹھیک ہیں۔ یہ ہیں ہی اس قابل سڑیں جہنم میں۔ دونوں جہانوں میں۔

مرید نے ایک بار پھر کہا تھا کہ پیر صاحب عرضی ہے۔ پیر نے سنا تو مرید کو غور سے دیکھا۔ اپنی بادشاہی اپنی رعایا کے خیال سے باہر آیا۔ اٹھ کر کھڑا ہوا۔ ساتھ ہی حجرے کے سارے لوگ بھی کھڑے ہو گئے۔

مرید گھبرا گیا، پیر نے اسے نظرانداز کیا۔ اس کا دل چاہا کہ خدا کا شکر ادا کرے۔ جس نے اسے ایسی بادشاہی بخشی۔ اپنے دونوں ہاتھ جوڑے، آنکھیں بند کیں، خدا کو یاد کیا، جڑے ہوئے ہاتھوں کا نمستے بنا۔ دونوں انگوٹھے آنکھوں کے درمیان ماتھ پر رکھے۔ شکر ہے مالک بولا۔

سب لوگوں نے اسے کوئی اشارہ سمجھا۔ شکر ہے مالک بولا، اتنے لوگوں نے آواز بلند کی تو پیر نے آنکھیں کھول لیں۔ مرید کو دیکھا وہ پھر بولا عرضی ہے۔
پیر نے اپنے دل پر ہاتھ رکھا اک ڈرامہ سا کیا سر جھکایا، بولا عرضی نہیں حکم ہے۔ حکم کرو۔

کتنی نسلوں بعد آج پھر مرید کو عزت ملی تھی۔ اس کی عرضی کو حکم کہا تھا، یوں لگا تھا وہ بزرگ خود آ کر کھڑے ہو گئے ہیں جن کے نام سے یہ آستانہ منسوب ہوا تھا۔ مرید سناٹے میں آیا کھڑا تھا۔ اب پیر اسے کہہ رہا تھا حکم۔ مرید کو سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ کیا کہے۔ کیسے بتائے کہ کیا کہنے آیا ہے۔ کیا عرضی لایا تھا۔

مرید کو چپ ہی کھڑا دیکھا تو پیر نے اسے اپنے پیچھے حجرے میں آنے کا اشارہ کیا۔ تنہائی میں مرید بولا پیرا میرے ساتھ ظلم ہوا ہے۔ میں نے اپنے دشمن کو مارنا برباد کرنا ہے۔ پیر سوچ میں پڑ گیا کہ کیا کہنا ہے۔

ملا کروٹیں بدلتا جا رہا تھا۔ اسے کسی طرح چین نہیں پڑ رہا تھا۔ وہ خیالوں میں کئی بار شریعت نافذ کر چکا تھا۔ کتنے سر اڑا چکا تھا، کتنوں کے ہاتھ کاٹ چکا تھا۔

پیر اپنے مرید کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالے دیکھ رہا تھا۔ اسے بہت دیر ہو گئی تھی کچھ کہنے میں۔ اسے کچھ سوجھ ہی نہیں رہا تھا۔ اسے لگا کہ اس کے بزرگ اس کے حال پر ہنس رہے ہیں۔ ساتھ کھڑے ہیں یہ تک کہہ رہے ہیں کہ وڈا آیا پیر۔

پیر نے کہنا شروع کیا تم پہ ظلم ہوا۔ تمھارا اختیار ہے۔ بس یاد رکھو تم جو کرو گے وہ بھرو گے۔ جیسے تمھارے دشمن کو بھرنا ہے۔ اس کی قسمت اب تیرے ہاتھ آ گئی ہے۔ تم اپنے فیصلے کے اب خود خدا ہو، رحم ہی کرو زیادتی نہیں۔

ملا مسجد کی طرف جاتا بازار میں رش پولیس کی عدالت سے واپس جاتی گاڑی دیکھ کر رک گیا۔ لوگ باتیں کر رہے تھے اک نامی بدمعاش کو اک مزارع نے بازار میں کیسے مار دیا تھا۔ مار کے گرفتاری دے دی تھی، عدالت میں جرم قبول کر لیا تھا، کیس شروع ہوتے ہی اختتام کو پہنچ گیا تھا۔

کیسا عجیب بندہ تھا کہ اسی کو مار کر پیش ہو گیا تھا جس سے اس کی ضد تھی۔ جس نے کبھی اس پر ظلم کیا تھا۔ اس نے اپنا جرم قبول کیا۔ لوگ حیران رہ گئے تھے۔ وہ بھاگ سکتا تھا پر بھاگا نہیں تھا۔ اس نے اپنا بدلہ لیا تھا کسی اور سے غرض نہیں رکھی تھی، یہ انہونی ہوئی تھی، دشمن دار علاقے کی روایت سے بہت الگ۔

کسی نے یاد دلایا کہ اسی قاتل نے پیر سے پہلی ملاقات کی تھی۔ ملا نے اعلان کر دیا کہ پیر دھرتی پر فساد پھیلائے گا۔ اس کی سرکوبی ضروری ہے۔ شریعت میں اس کی سزا بتانے ہی والا تھا کہ کسی نے اسے ٹوک دیا۔ ملا کو بتایا کہ پیر نے کل قاتل اور مقتول دونوں کے لیے دعا کرائی ہے، ان کے لیے رحم مانگا ہے رب سے۔ ملا نے کچھ کہنے کے لیے منہ کھولا لیکن اسے کچھ بھی نہ سوجھا۔ وہ ذرا سا جھجکا اور مسجد کی طرف روانہ ہو گیا۔

پیر خانے پر رش بڑھ گیا تھا۔ پیر نے اپنی دستار کے بل کھول کر اتنے ہی کر لیے تھے جن سے سر ہی ڈھانپ سکے۔ وہ نظریں جھکائے بیٹھا رہتا تھا۔ مرید آتے عرضی ہے کہتے۔ پیر دونوں ہاتھ جوڑ کر ماتھے تک لے جاتا معافی مانگتا شکر ادا کرتا۔ یا دہشت سے کانپ کانپ جاتا۔ کسی کو کچھ پتہ نہیں لگتا تھا پر لوگ یہی کچھ بتاتے کہتے تھے اوروں سے۔ لوگوں کے لیے نئی بات تھی کہ پیر کو عرضی بولو تو وہ حکم کرو کہے۔ علاقے کے خان وڈیرے حیران تھے۔ وہ پیر کے حجرے میں بڑھتے رش سے خائف تھے۔ سیاستدانوں کو اپنی سیٹ کی پڑ گئی تھی۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

وسی بابا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

وسی بابا

وسی بابا نام رکھ لیا ایک کردار گھڑ لیا وہ سب کہنے کے لیے جس کے اظہار کی ویسے جرات نہیں تھی۔

wisi has 406 posts and counting.See all posts by wisi