گھر جلانے، آشیانے پھونکنے کی ثقافت


\"yousafلذیزقصوری فالودہ سےلطف اندوز ہوئےتومعلوم پڑاکہ ہمیں اپنی منزلِ مقصود پرپہنچنےمیں تقریباًایک گھنٹہ کی تاخیرہوچکی ہےمگراس تاخیر کا بھی فائدہ یہ ہوا کہ سورج ڈھلنے کے کچھ مزید قریب ہو گیا لہٰذا اُس کی تپش بھی قدرے ماند پڑچکی تھی۔ ہم ضلع قصورکے بگری نامی قصبہ کی جانب گامزن تھےجہاں ایک مسیحی خاندان کےگھرکوآگ لگا کراس\”پُرکشش روایت\” کومزید تقویت دی جاچکی تھی۔

رہائشی آبادی میں داخل ہونے سے قبل ہمیں کچھ فاصلہ پیدل طےکرنا پڑاتویوں لگا گویاہمارے پاوں کسی تپتےصحرامیں دھنستےچلےجاتے تھے۔ سارے کاساراعلاقہ اورراستہ نہری ریت سے بھراپڑاتھا۔ قریب کےریتلے ٹیلوں پرگندمی رنگ کے پرندےاُڑنے، چُگنے اور پھڑ پھڑانے کی دھن میں مگن تھے۔ مخالف سمت سےآنےوالی دوگدھا گاڑیوں کےسواردونوجوان تھےجو نجانےکس فتح کے جشن اورنشےمیں ایسے دھت کہ اُن کےگدھوں کےٹاپوں سے اُڑنے والی ریت مٹی ہمیں گرد میں نہلا گئی۔ گرمی،پسینہ،ریت اورمٹی جب سب ایک ساتھ جڑ جاہیں توبندہ کی حالتِ زار کیا ہو سکتی ہے اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں!

قصبہ میں داخل ہوئےتومملکت ِخداداد کے دیگر قصبہ جات کی ماند اِدھر بھی ناپختہ گلیاں، بے ترتیب چھوٹے بڑےگھر،کلیر نالیاں، فضا میں \"1417201\"جانوروں کے فضلات کی امیزش، ہر دیوار پر گوبر کے اوپلوں کی نمائش، مسجد کامینار، عزاداری کا عَلم اور گرجا گھر کی صلیب سب اپنی اپنی جگہ مرکزِ نگاہ، کچھ لونڈے پانی سے کھیلنے میں مست، بلکہ چند ایک تو پانی سے بھری بالٹیاں لئے ہماری جانب لپک پڑے مگر پھر نجانے کیا سوجھی کہ اُن کے قدم اُدھر ہی ٹھہر گئے۔

45 سالہ جوُہرا مسیح، اُس کے تینوں بیٹوں اور چند مقامی افراد نے کچی زمین پر پانی کا چھڑکاو لگا کر بڑے پائے کی رنگین چارپائیاں اور صوفے ایک چاردیواری میں سجا رکھے تھے۔ سانولی رنگت اور درمیانی عمر کا ایک شخص جس کے ایک بازو پر ململی کپڑا لپٹا اور دوسرے ہاتھ سے زخمی بازو کو سہارا دیئے تھا یکا یک مجھ سے بغل گیر ہوگیا اور کسی دکھی فریادی کی ماند بلبلاتے ہوتے کہنے لگا، \”ہمارے ساتھ بہت ظلم ہوا ہے۔ اس ملک میں مسیحیوں پر ظلم و زیادتیاں بڑھتی جاتی ہیں مگر حکومت اور ہمارے رہنماوں کے پاس اس کی روک تھام کا کوئی انتظام نہیں ہے\”۔

جھُورہ مسیح کچھ دیر سنبھلا، لمبے لمبے سانس لئے، بچوں کو شربت، لسی اور چائے کا بول کر پھر سے گویا ہوا، اِس بار وہ سخت چتاونی دے رہا تھا، بولا، \”اس ملک میں گھروں، بستیوں، گرجا گھروں اور انسانوں کو جلانے کی رِیت چل پڑی ہے بابو جی! جو آگے چل کر سب کچھ بھسم کردے گی۔ کسی کا دین، دھرم ،ایمان ،عقیدہ کچھ نہیں بچے گا اگر اس مذہبی خود پسندی اورجنونیت کو نہ روکا گیا تو\”۔ جھُورہ کے \"1418256\"لہجے میں مایوسی، دکھ ، کرب، رنج ، الم سبھی رنگ جھلک رہے تھے۔ جھُورہ نے اپنی بات کو با وزن بناتے ہوئے فیصل آباد کے گوجرہ، لاہور کی جوزف کالونی، قصور کے کوٹ رادھا کشن سمیت سانگلہ ہل اور شانتی نگر سبھی واقعات کو ایک ہی سانس میں دوہرا ڈالا تاکہ اُس کی چتاونی پر شک کی کوئی گنجائش ہی باقی نہ رہے۔

جھورا مسیح کے نو تعمیر شدہ گھر کو مبینہ طور پرگاوں ہی کے چند افراد نے ایمانی مخالفت کی بنا پرآگ لگا دی تھی جس کے نتیجے میں گھریلو سامان ، استعمال کی مختلف اشیااور ایک عدد بیل گاڑی جل کر خاکستر تو ہو ہی گئی تھی مگر حملہ آوروں نے جھُورہ مسیح اور اُس کے بیوی بچوں کو بھی شدید جسمانی تشدد کا نشانہ بنایا۔ خاندان پر بلوئے کے دوران پستول کی ایک گولی جھُورہ مسیح کے ہاتھ کی ہتھیلی کے آر پار ہوگی۔ جھُورہ مسیح کو یہ گلا بھی ہے کہ بہت جدوجہد کے بعد آخر ایف آئی آر درج بھی ہوئی تو اُس میں جرم کی درست سمت نشاندہی نہیں کی گئی ۔

جھورہ مسیح کی بیوی نےچاردیواری میں داخل ہوتے ہی اُلجھے اُلجھے سوالوں کی بوچھاڑ کر دی، وہ کرخت لہجے میں بولی، \”کیا ہم اس ملک کے شہری نہیں؟ کیا یہاں کا قانون سب کے لیے برابر نہیں؟ کیا انصاف، قانون اور تحفظ صرف \”اُنہیں\” کا حق ہے؟ اپنی محنت مزدوری کی اُجرت مانگنا بھی کوئی جرم ہے کیا؟ ہمارے لئے انصاف کی آواز کون اٹھائے گا؟ نوٹس کون لے گا ؟ کون نقصان کا ازالہ کرئے گا؟ بچوں کی زندگی اور حقِ روزگار کی ضمانت کون دے گا؟ ازہ رسانی سہنے کی رودار بیان کرتے کرتے وہ خاتون آنسو صاف کرنے کو ذرا خاموش ہوئی تو یوں لگا گویا اُس کی خاموشی اِن سوالوں کے جواب مانگ رہی تھی مگر وہاں موجود ہر شخص کبھی نظریں جھکا لیتا اور کبھی اُس \"14182533\"دُکھیاری کو بھیگی پلکیں صاف کرتے حیرت سے تکنے لگتا۔

اگر کسی قاری کے پاس ان سوالوں کے جوابات ہو ں تو اِس فریادن کے آنسو پونچھنے میں اُس کی مدد ضرور کرے۔

جھورہ مسیح کے بیٹے نے چند ماہ قبل گاوں کے کچھ افراد کے ساتھ مشترکہ طور پر گاجر کا بیوپار کیا تھا مگر کاروبار میں سےمنافع کی رقم کا مطالبہ اُس کے خاندان کو ایسا مہنگا پڑا کہ لینے کے دینے پڑ گئے ۔ نا صرف یہ بلکہ اقساط پر حاصل کیا گیا موٹر سائیکل بھی ضبط کر لیا گیا اور جان کے لالے الگ سے۔

جھُورہ مسیح کی چتاونی پر سنجیدہ غور و فکر اور اُس کی گھر والی کے سوالوں کے جوابات ہی دراصل گھروں کو آگ لگانے کی اِس ثقافت کے آگے بند با ندھ سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments