قومی یگانگت کی ضرورت اور سول ملٹری تعلقات کی نوعیت


حکومت نے ایک نوٹی فیکیشن کے ذریعے قومی ترقیاتی کونسل بنانے کا اعلان کیا ہے جس کی صدارت وزیر اعظم کریں گے اور اس میں وزیروں اور حکومت کے عہدیداروں کے علاوہ پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ کو بھی رکن کے طور پر شامل کیا گیا ہے۔

یہ کونسل ترقیاتی منصوبوں کا لائحہ عمل اور حکمت عملی تیار کرے گی۔ اس کے علاوہ صوبوں کے درمیان اشتراک عمل میں بھی تعاون فراہم کرے گی ۔ سرکاری اعلان کے مطابق علاقائی امور پر غور کے دوران صوبائی وزرائے اعلیٰ کو بھی اس کونسل کے اجلاسوں میں شرکت کی دعوت دی جائے گی۔ تاہم سرکاری اعلامیہ میں یہ بتانے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی کہ وفاقی حکومت نے ملک کی ترقی و بہبود پر غور کرنے اور کام کے لئے متعدد دیگر اداروں کے ہوتے ہوئے یہ نئی کونسل بنانے کی ضرورت کیوں محسوس کی ہے ۔ اس سے بھی بڑھ یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ترقیاتی منصوبوں اور صوبائی تعاون کے مقصد سے بنائی گئی کونسل میں پاک فوج کے سربراہ کو کیوں شامل کیا گیا ہے؟

حکومت اس وقت ملک کو درپیش سیاسی و سماجی انتشار اور معاشی بحران پر بات کرنے اور اس کا حل تجویز کرنے سے تو گریز کررہی ہے لیکن کمیٹیاں اور کونسلیں بنا کر یہ ثابت کرنے کی کوشش ضرور کی جارہی ہے کہ وزیر اعظم اور پوری حکومت بہت سرگرم ہے۔ اسی قسم کی ایک کمیٹی بنانے کا اعلان وزیر اعظم نے بجٹ پیش کرنے کے بعد قوم سے اپنے دھؤاں دارخطاب میں بھی کیا تھا۔ عمران خان کا کہنا تھا کہ سابقہ دو ادوار میں حکومت کرنے والے نواز شریف اور آصف زرادری نے بے شمار غیر ملکی قرضے لئے تھے۔ لیکن ملک کی مالی مشکلات اور ان دو خاندانوں کی دولت میں بے پناہ اضافہ ہؤا تھا۔ اس طرح وزیر اعظم نے قوم سے خطاب میں یہ دعویٰ کرنے کی کوشش کی تھی کہ نواز شریف اور آصف زرداری اپنے ا دوار میں لئے گئے قرضوں کو ہڑپ کرگئے اور یہ سارے وسائل منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک ان سیاست دانوں کے اکاؤنٹس میں منتقل ہوگئے۔

یہ اس قدر سطحی اورسیاسی انتقام و مقبولیت پسندی سے بھرپور طرز تکلم تھا کہ معمولی شدھ بدھ رکھنے والا شخص بھی اس جھوٹ کی حقیقت سمجھنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس پر طرہ یہ کہ وزیر اعظم نے نہایت تمکنت سے اعلان کیا تھا کہ وہ یہ کمیٹی ’ اپنے نیچے‘ قائم کریں گے اور ملک کو گزشتہ دس سال کے دوران بھاری بھر کم قرضوں کے بوجھ تلے دبادینے والے سیاست دانوں کا کچا چٹھا سامنے لائیں گے۔ تاہم آج نئی ترقیاتی کونسل بنانے کا اعلان کرنے کے ساتھ ہی قرضوں کی تحقیقات کرنے والی کمیٹی کے سربراہ کا اعلان بھی کیا گیا ہے۔ نیب کے نائب چئیرمین حسین اصغر کو اس کمیٹی کا سربراہ بنایا گیا ہے جسے وزیراعظم کے نیچے کام کرنا تھا۔ حسین اصغر کو نیب کے ڈپٹی چئیر مین کے عہدے پر عمران خان نے خود ہی فائز کیا تھا۔ اب انہیں اپنے سیاسی دشمنوں کے خلاف تحقیقات پر مامور کرکے وہ خود ان کی کارکردگی کی نگرانی کرسکیں گے اور دیکھ سکیں گے کہ عمران خان کی خوہش اور سیاسی ضرورت کے مطابق نتائج دے کر حسین اصغر کس حد تک وفاداری اور احسان مندی کا بھرم رکھتے ہیں۔

کونسلیں اور کمیٹیاں بنانے کی یہ سرگرمی بجٹ کے معاملہ پر حکومتی پریشانی کا واضح اشارہ ہے۔ لیکن سیاسی ضد اور ہٹ دھرمی کی وجہ سے عمران خان اپوزیشن کے ساتھ مسلسل تناؤ اور تصادم کو ہی ملکی بہبود کا بہترین راستہ سمجھتے ہیں۔ بجٹ پر بحث کے لئے قومی اسمبلی کا چوتھا اجلاس بھی آج ہنگامہ آرائی اور شور شرابہ کی نذر ہو گیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ آج کا اجلاس سرکاری بنچوں سے کی جانے والی ہنگامہ آرائی کی وجہ سے ملتوی کرنا پڑا جنہوں نے اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو اپنی بات مکمل کرنے اور بجٹ پر اپنی پارٹی کی رائے پیش کرنے کا موقع دینے سے انکار کیا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی کے احتجاج اور بار بار مطالبہ کے باوجود اسپیکر اسد قیصرنے آج بھی نیب کی حراست میں آصف علی زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے سے انکار کردیا۔ حالانکہ کسی بھی مقید رکن اسمبلی کو اسمبلی اجلاس میں شرکت کے لئے بلانا اسپیکر اسمبلی کی قانونی او اخلاقی ذمہ داری ہے لیکن موجودہ اسپیکر بار بار احتجاج اور ہنگامہ آرائی کے باوجود اپوزیشن لیڈروں کے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے میں تاخیری حربے استعمال کررہے ہیں۔ اس سے پہلے پشتون تحفظ موومنٹ کے اراکین قومی اسمبلی علی وزریر اور محسن داوڑ کو بھی قومی اسمبلی میں بلانے کا حکم نہیں دیا گیا۔

آج قومی اسمبلی میں حکمران جماعت کے اراکین نے اس حقیقت کے باوجود ہنگامہ آرائی کی کہ ایک روز پہلے اخبارات میں اس منصوبہ بندی کے بارے میں خبریں شائع ہوچکی تھیں۔ ان خبروں کے مطابق عمران خان نے اپنی پارٹی اور اتحادی جماعتوں کے اراکین کو خاص طور سے ہدایت کی تھی کہ انہوں نے کسی قیمت پر شہباز شریف کو تقریر نہیں کرنے دینی۔ ظاہر ہے وزیر اعظم سے وفاداری ثابت کرنے کے لئے ان کے حامی چلانے اور کارروائی کو معطل کرنے کا سبب بننے کے پابند تھے۔ اس سے عمران خان اور ان کی جماعت تحریک انصاف کے جمہوری مزاج اور سیاسی کوتاہ نظری کا اندازہ کیا جاسکتا ہے۔ اگر حکومت عوام تک پہنچنے والی خبر سے پریشان ہوتی تو بند کمرے میں ہونے والے اجلاس کی خبر باہر آنے کے بعد حکمت عملی تبدیل کی جاتی۔ لیکن عمران خان اپوزیشن کے علاوہ پاکستانی عوام پر یہ واضح کردینا چاہتے ہیں کہ وہ تصادم ہی کا راستہ اختیار کریں گے ۔ کیوں کہ انہوں نے یہ باور کرلیا ہے کہ وہ دیانت دار اور سچے ہیں اور ان کے مؤقف کو تسلیم نہ کرنے والا ہر شخص اور جماعت بدعنوان اور ملک دشمن ہے۔ تاہم اس سخت گیر مزاج سے ملک و قوم کے مفادات کے ساتھ جو کھلواڑ کیا جارہا ہے اس کا خمیازہ عام لوگوں کو بھگتنا پڑرہا ہے۔ ابھی بجٹ منظور نہیں ہؤا اور اس کے اثرات بھی معیشت اور عام گھریلو بجٹ پر مرتب نہیں ہوئے لیکن ڈالر 160 روپے کی حد چھونے والا ہے اور اس کے نتیجے میں مہنگائی اور معاشی افراتفری کا ایک طوفان منڈیوں میں برپا ہورہا ہے۔

بہت لوگ بہت بار کہہ چکے ہیں کہ ملک میں سرمایہ کاری کے حالات تقریریں اور دعوے کرنے سے درست نہیں ہوں گے۔ اس کے لئے حکومت کو تحمل اور سوجھ بوجھ سے کام لینا ہوگا۔ عمران خان البتہ اس راستہ کو اختیار کرنا اپنی ’بہادری‘ کے لئے چیلنج سمجھتے ہیں۔ ان کے خیال میں ڈرا دھمکا کر اور انتقامی کارروائیوں کے نتیجہ میں ہی وہ برسراقتدار رہ سکتے ہیں۔ وہ اپنے ہر اقدام سے اپوزیشن کے اس الزام کی تائید کرتے ہیں کہ وہ گزشتہ سال ہونے والے انتخابات میں منتخب تو نہیں ہوسکے تھے لیکن درپردہ قوتوں کی اشیرواد نے انہیں ’نامزد‘ ضرور کروادیا ، جسے قومی اسمبلی کے فلور پر اعتماد کے ووٹ کے ذریعے انتخاب کا جامہ پہنا دیا گیا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ ہر کام فوج کی اطاعت اور خوشنودی کے لئے کرنا ہی سیاسی کامیابی کا بہترین اور مقبول ترین راستہ سمجھتے ہیں۔ آج قائم کی گئی قومی ترقیاتی کونسل میں جنرل قمر جاوید باجوہ کی شمولیت وزیر اعظم کی اسی حکمت عملی کا اظہار ہے۔

اس اعلان سے اس تاثر کو دورکرنے کی بھی کوشش کی گئی ہے کہ فوج عمران خان کے طریقہ حکمرانی اور معیشت میں ناکام پالیسیوں سے مایوس ہو کر متبادل قیادت تلاش کررہی ہے۔ عوامی مباحث میں اس امکان کا اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت نے اگر موجودہ معاشی بحران سے نکلنے کا کوئی راستہ تلاش نہ کیا تو سول ملٹری تعقات میں خلیج گہری ہوجائے گی۔ البتہ معروضی حالات اس تاثر یا قیاس آرائیوں کی تائید نہیں کرتے۔ پی ٹی ایم کے خلاف سیکورٹی فورسز کی حکمت عملی پر حکومت کی خاموشی اور آئی ایس آئی کے نئے سربراہ کی اچانک تعیناتی کے بعد اب قومی ترقیاتی کونسل کے قیام اور اس میں آرمی چیف کی شمولیت سے’ ایک پیج ‘ کا تاثر قوی ہونا چاہئے۔ اس طرح ’نامزد وزیر اعظم ‘ کے خلاف اشتعال انگیز بیان جاری کرنے اور درپردہ سیاسی آپشنز کے امکانات کا جائزہ لینے والی اپوزیشن کو یہ پیغام پہنچانا بھی مقصود ہو سکتا ہے کہ وہ تقریریں کرنے اور ہنگامہ آرائی کے بعد بجٹ کی منظوری میں رکاوٹ بننے کی کوشش نہ کرے۔

آئی ایس پی آر کے ایک بیان کے مطابق پاک فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے ایک بار پھر واضح کیا ہے کہ فوج قوم کے تعاون سے ملک کی حفاظت کے لئے مستعد ہے۔ اسلام آباد کے نیشنل ڈیفنس کالج کی ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ’ ہمیں ملک کو اندرونی اور بیرونی طور سے درپیش خطرات کا اندازہ ہے ۔ ان خطرات سے نمٹنے کے لئے جامع قومی ردعمل کی ضرورت ہے۔ پاک فوج ریاست کے دیگر اداروں کے ساتھ مل کر ان چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے پوری طرح تیار ہے‘۔

جنرل قمر جاوید باجوہ نے قومی سلامتی کو لاحق جن خطرات کا ذکر کیا ہے وہ کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔ اس حالات میں فوج کو سول معاملات سے علیحدہ کرکے پوری طرح قومی سلامتی اور دفاع کے مقصد کی طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ تاہم اس وقت یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ آرمی چیف کو سول حکومت نے غیر فوجی مقاصد کے لئے قائم کی گئی ایک قومی کونسل کے رکن کے طور پر شامل کرنے کا اعلان کیاہے ۔ انہوں نے خود بھی یہ اضافی ذمہ داری قبول کرنے سے معذرت نہیں کی ۔ اس طرح سیاسی امور میں فوج کی مسلسل دلچسپی اور مداخلت کو اہم قومی مقصد کے طور پر پیش کیا جارہا ہے۔

یہ طریقہ اور طرز عمل ملک میں پارلیمنٹ کے اختیار اور شہری آزادیوں کے سوال پر پیدا ہونے والے اختلاف رائے میں شدت پیدا کرے گا۔ معاشرہ میں ایسا انتشار فوج کے لئے قومی یگانگت کا وہ ماحول پیدا کرنے میں ناکام رہے گا جسے جنرل قمر جاوید باجوہ نے نیشنل ڈیفنس کالج کی تقریر میں ملکی دفاع کی بنیاد قرار دیا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali