ہر جانب بڑھتا غصہ، خدا خیر کرے۔‎


وہ شور مچا ہے کہ کچھ سمجھ میں نہ آئے، اگر ایسا ہی ہے کہ عقل بے بس ہو چکی، سچ اور جھوٹ برابر لگتا ہے تو جان لیں کہ شور مچانے والے کامیاب ہو چکے۔ وزیر اعظم عمران خان اور روس کے صدر پیوٹن کی کھانے کی میز پر ہلکی پھلکی بات چیت کا شور مچا کر روسی صدر کو تھاں مار ڈالنے کے دعوے عروج پر ہیں۔ بھائی جوش اپنی جگہ، شور مچانے سے پہلے خدا کے لئے اتنا تو سوچ لو کہ کہنے والے خود کہہ رہے ہیں کہ یہ غیر رسمی ملاقات تھی۔ غیر رسمی کا مطلب ہے، رسمی ملاقات نہیں تھی۔ رسمی ملاقات کا مطلب، وقت نکال کر کسی سے ملنا ہوتا ہے، وفد کے ساتھ پھر اکیلے یا صرف وفد کے ساتھ یا صرف اکیلے، نوٹنگ لینے کے لئے سٹاف ہوتا ہے، مترجم ہوتے ہیں۔

یہ ویڈیو جو دکھائی جا رہی ہے اس میں مترجم کہاں ہے؟ کیا عمران خان کو روسی زبان آ چکی ہے یا صدر پیوٹن اردو کے ماہر بن چکے ہیں۔ ظاہر ہے ان کے درمیان بات جتنی بھی ہوئی انگریزی میں ہوئی یعنی قطعی غیر رسمی ملاقات جس کے نوٹس تک لینے کی کوئی خبر کہیں نہیں، حتیٰ کہ جھوٹی بھی نہیں۔

اس ایک تازہ مثال کا مقصد صرف آپ کی توجہ دلانا تھا کہ کس حد بے شرمی سے جھوٹ بولا نہیں، مسلط کیا جا رہا ہے۔ ایسے میڈیا مینیجرز کے ہوتے دشمن کسے چاہئیے۔ آپ نے کبھی شادی پر کھانا کھلنے کے بعد شرفاء کو ایک سالن کی پلیٹ پر گتھم گتھا ہوتے دیکھا ہے نا؟ بس ایسا ہی سمجھیں کہ اس ملک کی اشرافیہ کے لئے ہر الیکشن کے بعد یا ہر فوجی انقلاب کے بعد کھانا کھلنے کی آواز پڑتی ہے۔ وسائل، پیسہ اور افراد زمین پر موجود کھانا یا سالن کی حیثیت رکھتے ہیں اور اس مرتبہ بھی دھما چوکڑی ویسے ہی جاری ہے جیسے کسی تقریب پر کھانا کھلنے پر شرفاء میں ہوتی ہے، سوال تو اٹھے گا کہ تبدیلی کیا ہوئی؟

غضب یہ کہ کس حوصلے سے ایک جھوٹ پھر دوسرا جھوٹ جس کے بعد گالیاں بھی، اور اب تو تھپڑ بھی۔ او بھائی یہ کونسا کمشن بنایا ہے جو دس سال کے حکومتی قرضوں کی تحقیق کرے گا؟ اور اس تحقیق کے بعد کیا روٹی سستی ہو گی؟ یا نواز شریف کو مزید چور ثابت کر کے اور زیادہ جیل میں بھیجنا ہے، جو پہلے ہی جیل میں ہے۔ کیا اس کا مقصد آصف زرداری کو مزید چور ثابت کرنا ہے؟ اور کتنا چور ثابت کرنا ہے بھائی، وہ چور تھا اور اس وقت نیب کی تحویل میں بھی ہے، اب کیا کرنا ہے، زیادہ سے زیادہ آپ ان کو پھانسی چڑھا دیں گے، چڑھا دیں، کیا اس سے کاروبار کو ترقی ملے گی؟ کیا اس سے مہنگائی میں کمی آ جائے گی؟ کیا ملک ترقی کی راستے پر آ جائے گا؟ اگر نہیں تو سارا وقت ایک دلدل کی کھدائی کر کے کیا حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ ایف بی آر، سٹیٹ بنک اور خزانہ کی وزارت آئی ایم ایف کے پاس گروی رکھ کر کس کمیشن کی بات کرتے ہیں۔ ویسے خیال آیا، کیا آپ کے نئے اور پیپلز پارٹی کے سابق وزیر خزانہ محترم حفیظ شیخ نے پی ٹی آئی کا ممبر شپ فارم بھر کے دے دیا۔ خبریں تو اس کے الٹ ہیں۔

مان لی آپ کی بات کہ جو آپ کے ساتھ نہیں وہ سب چور ہیں، ایک جے آئی ٹی بنی، اس کی تحقیق سے ایک وزیر اعظم اپنی پارٹی کی حکومت ہوتے ہوئے فارغ ہو گیا۔ ملک سے باہر گیا اور خود واپس آیا، اب جیل میں بیٹھا ہے، آصف علی زرداری بھی جیل میں ہے، سارا ملک جانتا ہے کہ آنے والے دنوں میں اور گرفتاریاں ہونے جا رہی ہیں۔ پھر اتنا شور کیوں مچا رکھا ہے، غصہ دراصل کس پر ہے؟

کیا اس بات پر تو غصہ نہیں کہ آپ کی دیانتداری پر پاکستانی قوم نے ویسا جواب نہیں دیا جس کی آپ کو توقع تھی؟ بیرون ملک پاکستانیوں نے ڈالروں کی برسات نچھاور نہیں کی، قوم نے رضاکارانہ طور پر ٹیکس جمع کروانے شروع نہیں کئے۔ کاروباری طبقہ آپ کی امیدوں پر پورا نہیں اترا۔ آپ سنجیدگی سے سمجھتے تھے کہ ہماری غربت کی سب سے وجہ یہ ہی ہے کہ لوگ ڈاکو حکمرانوں کو ٹیکس نہیں دیتے، جیسے ہی ایمان دار حاکم آیا، لوگ بھاگے بھاگے آ کر ٹیکس دیں گے، رشوت کا تمام ڈھانچہ ماضی کا قصہ بن جائے گا۔ ایسا ہوا نہیں، اور آپ کو غصہ ہے۔ اس حالت میں آدمی کہتا ہے کہ یہ قوم ہی ٹھیک نہیں۔ شاید اس لئے اب آپ کسی کو قابل رحم نہیں سمجھتے۔ معاف کیجئے گا امیدیں کبھی بھی پالیسی یا ہوم ورک کا متبادل نہیں ہوا کرتیں، یہ تو سکول کی تعلیم میں ہی جان لینا چائیے۔

ایک ہزار کمیشن بنا لیں، میرے جیسے عام آدمی کو نتیجہ چاہئیے ناراض ہیرو کی بڑھی شیو یا انتقامی نغموں سے بھوک نہیں مٹا کرتی۔ سیدھی بات کا سیدھا جواب ہاں یا ناں میں دیں۔ آپ کے آنے کے بعد منہگائی کم ہوئی یا بڑھی؟ روپیہ مضبوط ہوا یا کمزور؟ روزگار بڑھا یا کم ہوا؟ پرانی حکومتوں میں کرپٹ لوگ وزیر تھے اور بنکوں کے قرضے معاف کروانے والے قومی مجرم بھی، کیا آپ کی کابینہ میں فہمیدہ مرزا شامل نہیں؟ آپ کا کہنا تھا کہ غیر ملکی شہریت رکھنے والے حکومتی اہلکاروں کی وفا داری پاکستان سے نہیں ہو سکتی، زلفی بخاری کون ہے؟ کیا آپ نے غیر ملکی شہریت رکھنے والے سرکاری افسروں کے خلاف کوئی کارروائی شروع کی؟ اگر نہیں تو کیا کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں؟ چوہدری خاندان آپ کے مطابق چوروں کا سرغنہ ہی نہیں ڈاکو تھے، جن کی وجہ سے آپ نے مشرف کا ساتھ چھوڑ دیا۔ کیا وہی چوہدری پرویز آج آپ کا ساتھی نہیں؟ کیا فردوس عاشق اعوان آپ کی ورکر رہی ہیں؟ کیا ندیم افضل چن کو ترجمان مقرر کرنا اس امر کا اعتراف نہیں کہ آپ کی پارٹی میں کوئی ایک انسان بھی، پھر لکھتا ہوں ایک انسان بھی اس قابل نہیں کہ آپ کا ترجمان بن سکے؟ برگیڈیئر اعجاز شاہ جو آپ کے وزیر داخلہ ہیں کیا آسٹریلیا نے مشرف دور میں انہیں بطور ہائی کمشنر قبول کرنے سے انکار نہیں کیا؟ اور ان کا اعتراض کیا تھا؟ شاہ محمود قریشی اس ملک ہی نہیں، دنیا کی متروک کردہ تاریک ترین طاقتوں کا حصہ ہیں یعنی وہ اپنے غریب ترین مریدوں سے کیش پیسہ پکڑتے ہیں اور آپ کے وزیر خارجہ ہیں، عثمان بزدار آخر کہاں سے وارد ہوا؟ آپ کو ساری پارٹی میں کوئی ایک آدمی اس سے بہتر نہیں ملا؟ نو ماہ ہو چلے پنجاب میں کون سی برکتیں بزدار صاحب لے آئے ہیں۔ یا ہم سب اندھے ہیں کہ ہمیں نظر نہیں آتا، آپ کی دور رس نگاہوں کو عثمان بزدار میں آخر کیا نظر آ گیا جو ہم دیکھنے سے قاصر ہیں۔

اسد عمر کے بارے اب دنیا جان چکی ہے کہ آئی ایم ایف کے پاس نہ جانے کا فیصلہ اس کا نہیں تھا۔ اس کو کنٹرول کب دیا گیا اور کس نے دیا تھا کہ وہ اپنی مرضی کی کوئی ایک پالیسی بھی بنا سکتا، اس کا امتحان ہی اب یہ ہے کہ دوسرے کے بلنڈرز اپنے سر پر ڈالے، پھر زمانے کی گالیاں بھی کھائے اور چپ بھی رہے۔ وہ یہ تک نہیں کہہ سکتا کہ وہ مہمان وزیر خزانہ کی حیثیت بھی نہیں رکھتا تھا۔

افواہ ہے، پھر لکھتا ہوں افواہ ہے کہ اسد قیصر کو طلب کیا گیا کہ آپ استعفیٰ دے دیں، ہم اسد عمر کو سپیکر بنانا چاہتے ہیں۔ اگر یہ درست ہے تو ایک نقصان کی تلافی ہو نہ ہو، دوسرا بھی کر بیٹھیں گے۔

آپ ماضی کے دشمنوں سے ہاتھ ملائیں، ڈاکوؤں کو عہدے دیں، وہ لوگ جو زمانے کے سامنے آپ کو گالیاں دیتے تھے انہی کو اپنا ترجمان بنا لیں، بنکوں کے نادہندہ کو وزیر بنائیں، یو ٹرن کو لیڈر کی عظمت قرار دیں تو ٹھیک بھی اور سیاست بھی۔ دوسرا کوئی ایسا کرے تو غدار بھی لٹیرا بھی۔ لوگ یہ سب بھی مان لیں، اگر زندگی آسان ہو، وہ تو دن بدن مشکل ہو رہی ہے اور آگے بھی تاریکی دکھائی دے رہی ہے۔ سامنے دیوار صاف دکھائی دے رہی ہے کہ کوئی ایک اینٹ بھی درست نہیں رکھی۔ نتیجہ ایک ہی ہو گا، یعنی یہ دیوار گرے گی، اپنے ساتھ یہ کس کس کو لے کر گرے گی کوئی نہیں جانتا مگر اس دیوار کے ملبے تلے آ کر میں اور آپ دبنے ضرور والے ہیں۔

آخر میں طلعت حسین کا ٹوئیٹ آپ سے شئیر کرتا چلوں “‏مبارک ہو۔ مصر کی طرح کا نیم صدارتی، نیم پارلیمانی نظام معرضِ وجود میں آ رہا ہے۔ مشترکہ مفادات کونسل، قومی سلامتی کمیٹی، کابینہ اور بین الصوبائی رابطہ وزارت کی موجودگی میں اس کونسل کے بنانے سے پتا چلتا ہے کہ اب پاکستان میں فیصلے صرف یہاں پر ہوں گے”. پاکستان آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اس کونسل کے ممبر ہیں۔ آگے اللہ مالک ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).