یہ لڑائی تقریروں سے نہیں جیتی جا سکتی


قومی اسمبلی میں بجٹ تجاویز پر اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی باتیں نہ معیاری تھیں اور نہ ہی ان میں ضروری تنقید کے ذریعے بجٹ کی حقیقی خامیوں کو اجاگر کرنے کی کوشش کی گئی تھی۔ اس کی بجائے یہ طویل تقریر کرنے کا مقابلہ جیتنے کی ناکام سعی تھی۔  اسپیکر اسد قیصر نے شہباز شریف کی مفصل تقریر پر چوٹ کرتے ہوئے جملہ کسا تھا کہ ’میاں صاحب نے قومی اسمبلی میں طویل تقریر کرنے کا ریکارڈ قائم کر دیا ہے ‘ ۔  تاہم پیپلز پارٹی کے رہنما اور سابق دور میں اپوزیشن لیڈر رہنے والے خورشید شاہ نے تصحیح کرتے ہوئے کہا کہ ان کا ریکارڈ 4 گھنٹے 19 منٹ کا تھا جبکہ شہباز شریف نے صرف دو گھنٹے تقریر کی ہے۔

اس طرح بظاہر شہباز شریف طویل تقریر کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکے۔  البتہ سرکاری بنچوں پر بیٹھے ارکان کی ناراضگی میں اضافہ کا سبب ضرور بنے رہے۔  حکومت اور اس کے حامیوں نے مسلسل ہنگامہ آرائی کرتے ہوئے گزشتہ روز شہباز شریف کو تقریر نہیں کرنے دی تھی جس کے بعد اجلاس ملتوی کرنا پڑا تھا۔ تاہم آج کا اجلاس آصف زرداری اور سعد رفیق کے پروڈکشن آرڈر پر ہونے والے مطالبہ اور احتجاج کے علاوہ مناسب طریقے سے جاری رہالیکن اپوزیشن لیڈر جنہیں پنجاب میں حکومت کا طویل تجربہ ہے، اپنی گفتگو میں کوئی ٹھوس اور بامقصد بات کرنے میں ناکام رہے۔

ان کی تقریر کا لب لباب خود ستائی اور تحریک انصاف اور عمران خان پر تند و تیز تنقید تھی۔ حالانکہ ملک کی دوسری بڑی پارٹی کے صدر اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر سے یہ توقع کی جاتی تھی کہ وہ بجٹ کی خامیوں کو اجاگر کرتے ہوئے متبادل تجاویز سامنے لائیں گے اور حکومت کے علاوہ عوام تک یہ پیغام پہنچانے کی کوشش کریں گے کہ حکومت موجودہ سنگین معاشی حالات میں کون سے اقدامات کے ذریعے معاملات کو درست سمت میں ڈال سکتی ہے۔

پاکستان جیسے غریب اور کم وسائل کے حامل ملک کے ہر بجٹ پر کسی بھی اپوزیشن پارٹی کی طرف سے یہ الزام لگایا جاتا ہے کہ وہ عوام دشمن ہے اور بنیادی سہولتوں کو کم کیا گیا ہے۔  جبکہ حکومت اپنی مجبوریاں بیان کرنے کے علاوہ فلاحی مدات میں فراہم کی گئی رقوم کا حوالہ دیتے ہوئے اپوزیشن کے الزامات کو رد کرنے کی کوشش کرتی ہے۔  اگر شہباز شریف سابقہ دور میں مسلم لیگ (ن) کے پیشکیے  ہوئے بجٹوں پر پیپلز پارٹی اور تحریک انصاف کی تنقید اور اس سے پہلے پیپلز پارٹی کی حکومت کے پیشکیے  گئے بجٹوں پر مسلم لیگ (ن) کے نمائیندوں کی نکتہ چینی کو دیکھ سکیں تو انہیں اندازہ ہوگا کہ ان کی طویل تقریر اس چوخانہ سے باہر نہیں نکل سکی۔

حالانکہ اگر اپوزیشن کی اس بات کو تسلیم کرلیا جائے کہ ملک کو سنگین مالی و معاشی بحران کا سامنا ہے تو اس کے نمائیندوں کی گفتگو میں بھی اس کی عکاسی ہونی چاہیے تھی۔ ان کی باتوں کو نعرہ بازی سے زیادہ ٹھوس حقائق کی بنیاد پر دلائل سے معمور ہونا چاہیے اور اس کے لیڈر ایسی تجاویز سامنے لانے کی کوشش کریں جو عوام میں محض اپنی بہتر اور حکومت کی بدتر شبیہ بنانے کی کوشش نہ ہو۔

وزیر اعظم عمران خان کی حکمت عملی اگر دو بڑی اپوزیشن پارٹیوں اور ان کے لیڈروں کو بدعنوان قرار دینے پر استوار ہے تو شہباز شریف کی آج بجٹ تقریر میں اس کے برعکس عمرا ن خان اور تحریک انصاف کو ملک کے تمام مسائل کی جڑ قرار دینے پر اصرار کیا گیا ہے۔  اس طرح اپوزیشن لیڈر نے بھی عمران خان کی طرح ووٹروں کو متاثر کرنے ہی کی کوشش کی ہے۔  اور معاشرہ میں حجت، دلیل اور عقلی بنیاد پر مکالمہ کی روایت قائم کرنے کی بجائے جذباتی نعرے بازی کے مقابلہ میں حصہ لیاہے۔

اس قسم کی کوشش عمران خان کی طرف سے ہو یا اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی طرف سے، اس سے معاشرہ میں تفریق پیدا ہوگی اور ایک دوسرے کو برا بھلا کہنے کے چلن میں اضافہ ہوگا۔ لوگ بدستور پسند اور ناپسندیدگی کی بنیاد پر گروہوں میں تقسیم رہیں گے اور مسائل حل کرنے کے لئے کوئی متوازن اور مدلل راستہ اختیار نہیں کیا جاسکے گا۔

حکومت پر آئی ایم ایف سے مالی پیکیج لینے پر اپوزیشن کی الزام تراشی بھی بے معنی ہے کیوں کہ ماضی میں ہر حکومت نے اس قسم کی امداد حاصل کی ہے۔  اسی طرح بجٹ خسارہ پورا کرنے کے لئے غیر مقبول بالواسطہ محاصل عائدکیے  جاتے رہے ہیں۔  ہر حکومت ملک کے ٹیکس نیٹ ورک میں اضافہ کرنے میں ناکام رہی ہے۔  اسی لئے امور مملکت چلانے اور حکومت کا خزانہ بھرنے کے لئے بالواسطہ ٹیکسوں پر انحصار بڑھتا رہا ہے۔  حکومت سمیت ریاست کے اداروں پر اعتماد قائمکیے  بغیر ملک کے شہریوں کو ٹیکس ادا کرنے پر آمادہ نہیں کیا جاسکتا۔

 حکومت اگر ٹیکس سے بچنے کے دس راستے بند کرے گی تو لوگ اس سے گریز کے سو راستے نکالنے میں کامیاب ہو جائیں گے۔  اس وقت حکومت اور اپوزیشن دونوں، بجٹ کے سوال پر جس طرح ایک دوسرے پر الزام تراشی کر رہے ہیں، اس سے ریاستی اداروں پر عوام کا اعتبار و بھروسہ مزید کمزور ہو گا۔ اور ٹیکسوں کی وصولی مشکل ہوتی جائے گی۔

ملک کو گوناں گوں مسائل کا سامنا ہے۔  ان میں آبادی میں اضافہ، قومی پیداوار میں کمی، بڑھتی ہوئی دفاعی ضرورتیں، معاشرتی منافرت اور اس کے نتیجہ میں انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسے مسائل سر فہرست ہیں۔  کسی بھی پارٹی کی حکومت ہو، جب تک ان معاملات کا کوئی قابل قبول اور متفقہ حل تلاش کرنے کی اجتماعی کاوش دیکھنے میں نہیں آئے گی، اس وقت تک بجٹ خسارہ مجبوری اور بالواسطہ محاصل کا طریقہ ہر حکومت کا ہتھکنڈا ہوگا۔ مسلم لیگ (ن) بجا طور سے حکومت کو معاشی معاملات میں مفاہمت کی رائے دے چکی ہے جسے عمران خان کی حکومت اپنی تندی طبع اور غیر ضروری اعتماد کی وجہ سے مسلسل مسترد کیا ہے۔  شہباز شریف نے بجٹ تجاویز کو عوام دشمن قرار دیتے ہوئے مسترد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اس کے باوجود انہوں نے معاشی مسائل حل کرنے کے لئے اجتماعی کوشش کرنے پر زور دیا۔ یہ اپوزیشن لیڈر کی تقریر کا واحد مثبت نکتہ تھا جو ان کی گرمی گفتار کی وجہ سے مؤثر طریقے سے سامنے نہیں آسکا۔

مسلم لیگ (ن) کے صدر نے قومی اسمبلی میں بجٹ کے بخیے ادھیڑتے ہوئے ’اجتماعی کوشش‘ کا ذکر کیا۔ لیکن مسلم لیگ کی نائب صدر مریم نواز نے آج لاہور میں صحافیوں سے باتیں کرتے ہوئے بجٹ کو قومی المیہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ’اس بجٹ کے حق میں ووٹ دینے والے اراکین اسمبلی ملکی مفاد کو نقصان پہنچانے کا سبب بنیں گے‘ ۔  یہ بیان شہباز شریف کی طرف سے اجتماعی کاوش کے مشورہ سے برعکس ہے۔  مسلم لیگ (ن) کو یہ طے کرنے اور عوام کو بتانے کی ضرورت ہے کہ وہ بجٹ میں مناسب تبدیلیوں کے ساتھ اسے منظور کرنے میں حکومت کا ساتھ دے گی یا وہ بجٹ کو عمران خان کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک بنانے کی کوشش کرے گی۔ ایک اہم قومی معاملہ پر ملے جلے اشارے دے کر پارٹی قیادت قومی سیاست میں مثبت کردار ادا نہیں کرسکتی۔

وزیر اعظم نے گزشتہ روز قومی ترقیاتی کونسل قائم کرتے ہوئے اس میں آرمی چیف کو شامل کرکے یہ واضح کیا ہے کہ اہم قومی معاملات میں حکومت فوج کی رہنمائی اور مدد سے آگے بڑھنا چاہتی ہے۔  اپوزیشن نے حکومت کے ہر اقدام پر حرف زنی کے باوجود اس اہم پیش رفت پر کوئی تبصرہ کرنے یا قومی سیاست و جمہوریت پر اس کے اثرات سے قوم کو آگاہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کی ہے۔  اپوزیشن کی تمام پارٹیوں کے رویہ سے یہی ظاہر ہوتا ہے کہ وہ تحریک انصاف کو نشانہ بناتے ہوئے فوج پر کسی قسم کی تنقید سے گریز کی حکمت عملی پر گامزن ہیں۔  اس صورت میں اپوزیشن کسی ایسے بجٹ کو ناکام بنانے کی کامیاب کوشش کیسے کرسکتی ہے، جسے فوج کی اعانت سے برسر اقتدار حکومت نے پیش کیا ہو؟

اپوزیشن بجٹ پر رائے دہی سے پہلے اگر حکمران جماعت کو اپنی سیاسی قوت دکھانا چاہتی ہے تو اس کے پاس سینیٹ چئیرمین صادق سنجرانی کے خلاف عدم اعتماد لانے کا موقع موجود ہے۔  سینیٹ میں مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کو اکثریت بھی حاصل ہے۔  نیشنل عوامی پارٹی اس بارے میں تجویز بھی دے چکی ہے اور وزیراعظم عمران خان نے صادق سنجرانی کی غیر مشروط حمایت کا اعلان کرکے اپنی پوزیشن بھی واضح کردی ہے۔  لیکن اپوزیشن نے ابھی تک اس حوالے سے کوئی تحریک سامنے لانے کا اشارہ نہیں دیا۔

عمران خا ن اپوزیشن کو کبھی بھی این آر او نہ دینے اعلان کرتے رہتے ہیں اور اس بارے میں شہباز شریف نے آج استفسار کیا ہے کہ ’اس کے گواہ سامنے لائے جائیں کہ کس نے این آر او مانگا ہے‘ ۔  سوال ہے کہ کیا حکومت کے خلاف کسی ٹھوس پارلیمانی تحریک سے گریز ہی تو حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ’این آر او‘ کا دوسرا نام نہیں ہے؟

اپوزیشن اور بطور خاص مسلم لیگ (ن) موجودہ سیاسی منظر نامہ میں تحریک انصاف کو اقتدار سے ہٹا کر اگر خود اس کی جگہ لینے کا خواب دیکھ رہی ہے تو اس کی تعبیر سے پہلے وہ قوم کو اس سوال کا جواب دینے کی پابند ہے کہ پھر منتخب حکومت کی خود مختاری اور ووٹ کو عزت دو، والے دعوے کا کیا ہوگا؟ قومی ترقیاتی کونسل قائم کرکے سیاست میں عسکری اثر و رسوخ کو اب ادارہ جاتی شکل دی جاچکی ہے۔  اپوزیشن نے اس معاملہ پر خاموشی اختیار کرکے واضح کیا ہے کہ ملک میں دراصل طاقت کا ایک ہی مرکز ہے اور اپوزیشن ہو یا حکومت سب اسی سے قوت حاصل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔  ایسے میں تقریریں کرنے کا ریکارڈ قائم کرنے سے کیا فرق پڑے گا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali