مریخ کے سفر کی آرزو


نوعمری کا زمانہ یاد آتا ہے تو آج بھی یقین نہیں آتا کہ انسان 50ء، 60ء اور 70ء کی دہائیوں میں کیسی چھلانگیں لگا رہا تھا۔ انیسویں صدی میں غالبؔ نے کہا تھا۔

میری رفتار سے بھاگے ہے بیاباں مجھ سے

بیسویں صدی میں انسان اپنی زندگی میں اس مصرعے کی توسیع دیکھ رہا تھا اور وجد کے عالم میں تھا۔ حقیقت یہی ہے کہ بیسویں صدی تحیرات اور طلسمات کی صدی تھی۔ انسان نے اس ایک صدی کے اندر فکری، تخلیقی، تہذیبی اور سائنسی ایجادات کے حوالے سے زقندیں لگائیں اور سیکڑوں برس کا سفر چند دہائیوں میں کر لیا۔ اسی طرح تخریب میں بھی اس نے کوئی کسر نہیں اٹھا رکھی۔

60ء کی دہائی توکچھ زیادہ ہی ہنگامہ خیز تھی۔ ماسکو کی گلیوں میں پھرنے والی ایک عام سی کتیاکوڑے کرکٹ کے ڈھیر سے اپنا رزق ڈھونڈتی ہوئی تلاش کی گئی، اس کا نام ’’لائیکا‘‘ رکھا گیا اور وہ جو کتوں کی اشرافیہ سے کوئی تعلق نہیں رکھتی تھی، اسے زمین کے مدار سے باہر بھیج کر اولین خلائی مسافر بنا دیا گیا۔ کتوں کی بین الاقوامی اشرافیہ نے کفِ افسوس ملتے ہوئے دیکھا کہ کس طرح گلیوں میں پھرنے والی ایک کتیا شہرت و عظمت کی بلندیوں پر فائز ہوئی۔ یہ ایک الگ بات ہے کہ لائیکا اس سفر کے دوران ہلاک ہو گئی تھی اور اس کی ہلاکت یوری گگارین، ویلنتینا ترشکووا اور ان کے بعد سفر پر جانے والے خلانوردوں کی زندگی آسان کر گئی تھی۔

یہ باتیں اس لیے یاد آ رہی ہیں کہ یہ 16 جون 1963ء کی تاریخ تھی جب سوویت یونین نے دنیا کو یہ تہلکہ خیز خبر سنائی کہ اس نے تین دن پہلے جس خاتون کو خلا کے سفر پر روانہ کیا تھا وہ خیر سے اپنے گھر، یعنی زمین پر واپس آ گئی ہے۔56 برس پہلے کا یہ واقعہ دنیا کے انسانوں اور بہ طور خاص کرۂ ارض پر سانس لینے والی تمام عورتوں کے لیے ایک عظیم واقعہ تھا۔ سڑکوں پر جھاڑو لگانے والی، گھروں میں مشقت کرنے والی اور حریر و دیبا میں لپٹی ہوئی نازنینوں کے لیے یہ ایک طلسماتی کہانی تھی ایک ناقابل یقین قصہ۔

آج ویلنتینا ترشکووا اس لیے یاد آئی کہ 16 جون 1963ء کو وہ  وسٹک 6 کی مسافر بنی اور یوں عورت بھی مرد خلانوردوں کی ہمرکاب ہوئی۔ ویلنتینا ساری دنیا بہ طور خاص مغرب کی ہیروئن بن گئی۔ وہ مغربی دنیا جس کے خیال میں سوویت عورت بھدے اور بد رنگ لباس پہتی تھی۔ جس کا چہرہ آرائش سے ناآشنا تھا اور جسے زیبائش کا ہنر نہیں آتا تھا۔ وہ مغربی دنیا ویلنتینا کی تصویریں دیکھ کر حیرت زدہ رہ گئی۔ اس کے بال ترشے ہوئے تھے۔ لبوں پر لالی تھی، رخسار پر غازے کا غبار اور آنکھوں میں کامیابی کا خمار۔

ویلنتینا دنیا کے شاندار اور چھلکتے ہوئے دریا وولگا کے کنارے ایک دیہات میں پیدا ہوئی۔ 2 برس کی تھی کہ باپ دوسری جنگ عظیم میں مادر وطن پر نثار ہوا۔ غریب اور مشقت کر کے اپنے تین بچوں کو پالنے والی ماں کی بیٹی کی اپنی زندگی کا آغاز بھی محنت و مشقت سے ہوا۔ وہ شاید عمر بھر ایک ٹیکسٹائل مل میں کام کرنے والی مزدور رہتی لیکن  اسے فضا میں چھلانگ لگانے کا جنون تھا۔ 22 برس کی عمر میں اس نے اسکائی ڈائیونگ اختیارکی اور اسی شوق نے اسے خلانوردی کے میدان میں دھکیل دیا۔

سوویت سائنسدان، ان لڑکیوں کی تلاش میں تھے جو خلانوردی میں اپنی صلاحیت کے جوہر دکھا سکیں اور یہ ثابت کر سکیں کہ سوویت سماج میں عورت اور مرد کی کوئی تخصیص نہیں۔ 400 لڑکیوں میں سے 4 اور پھر ایک ویلنتینا منتخب ہوئی جو ایک بہت بڑا اعزاز تھا۔ 26 برس کی عمر میں اس نے تین دنوں کے دوران خلا میں اتنا سفر کیا جتنا اس وقت تک کوئی امریکی خلانورد نہیں کر سکا تھا۔ اس کا مقابلہ انگرڈ برگمین سے کیا گیا جو اس وقت کی مغربی فلموں میں ایک ہوشربا حسینہ کی حیثیت رکھتی تھی۔ امریکی اخباروں نے یہ بھی لکھا کہ ’’ریڈ ماسکو‘‘ اس کی پسندیدہ خوشبو ہے۔

ویلنتینا نے تین دن کے اپنے اس خلائی سفرکی یاد داشتیں لکھی ہیں۔ وہ لکھتی ہے کہ دنیا ناقابل یقین حد تک حسین تھی۔ یوں جیسے پرستان کی کہانیوں سے نکل کرکوئی شہر ہماری نگاہوںکے سامنے بچھ گیا ہو۔ مجھے افق نظر آیا، ایک دل ربا حلقہ، یہ زمین ہے، کس قدر پرُکشش اور پرُ ماجرا۔

دباؤ نے مجھے کرسی میں دھکیل دیا اور میری آنکھیں آپ سے آپ بند ہو گئیں۔ پھر جب وہ کھلیں اور میں نے کھڑکیوں سے باہر دیکھا تو مجھے شعلوںکی سرخ زبانیں لپکتی نظر آئیں۔ میں نے انھیں اپنے ذہن میں نقش کر لینا چاہا، زمین کا رخ کرتے ہوئے اپنے احساسات کو محفوظ کر لینا چاہا، انھیں کچھ تو بتا سکوں جو میرے بعد خلائے بسیط کو فتح کرنے کے سفر پر روانہ ہوں گے۔

ویلنتینا سے جب پوچھا گیا کہ ایک روسی عورت کو خلا میں کیسے بھیج دیا گیا تو اس نے کہا تھا اگر روس میں عورتیں ریل روڈ ورکر ہو سکتی ہیں تو وہ خلا میں کیوں نہیں پرواز کر سکتیں۔ اس نے لکھا کہ آپ ایک مرتبہ خلا کا سفر کریں تب ہی اس کا اندازہ ہو گا کہ ہماری دنیا کتنی نازک اورکتنی چھوٹی ہے۔ ہمیں یہ بھی سوچنا چاہیے کہ جس طرح چڑیا ایک پنکھ سے اڑان نہیں بھر سکتی ، اسی طرح انسان کا خلائی سفر اس وقت تک آگے نہیں بڑھ سکتا جبتک اس میں عورتوں کی حصہ داری نہیں ہو گی۔ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کا تعلق کس ملک یا کس سیاسی نظریے سے  ہے۔ خلائے بسیط آپ کو یکجا کر دیتی ہے۔

روس ہو، امریکا یا کوئی دوسرا ملک ہو اس نوعیت کی کامیابیاں قوموں اور ملکوں کے حصے میں اسی وقت آتی ہیں جب حکمران ، سیاستدان، سائنسدان اور ادیب و شاعر یک دل ہو کر خواب دیکھیں اور پھر ان خوابوں کو حقیقت بنا دیں۔ یہ بات نہیں بھلائی جا سکتی کہ یہ روس کا پیٹر اعظم تھا جس نے اپنے ملک میں جدید علوم کو فروغ دینے کے لیے یورپ کا سفر کیا اور وہاں جہاز سازی کے کارخانے میں خود کام سیکھا۔ پیٹر دی گریٹ اور کتھرین دی گریٹ روس کے وہ دو بنیادی حکمران ہیں جنھوں نے روس کو دنیا کی عظیم اور سائنسی سوچ رکھنے والی قوم بنانے کے عمل کا آغازکیا۔

ایک طرف روس کے حکمران، سائنسدان‘ انجینئر اور تکنیک کار تھے جو روس میں نپولین کے حملے، اس کے بعد پڑنے والے قحط، پہلی اور دوسری جنگ عظیم کے خوفناک محاصروں کو جھیلتے ہوئے بھی  اپنے کام میں مصروف رہے۔ اسی طرح یہ بھی ایک اہم نکتہ ہے کہ روسی ادیبوں نے فینٹسی اور سائنس فکشن میں اپنے تخیل کو اوجِ کمال تک پہنچا دیا اور اپنے سائنسدانوں کو تسخیر کائنات کی نت نئی راہیں دکھائیں۔

انیسویں صدی سے ہی ایسی کہانیاں اور ناول تخلیق ہو رہے تھے۔ انقلابِ اکتوبر کے بعد اعلیٰ تخلیقی سائنس فکشن لکھنے کا سلسلہ تیز ہوا۔ ان میں سے بہت سی کہانیوں کا اردو ترجمہ ہوا اور برصغیر کے اردو پڑھنے والے ایک نئی صنفِ ادب کی لذتوں سے ہم کنار ہوئے۔ امریکی اور برطانوی یا فرانسیسی سائنس فکشن بہت بعد میں ڈائجسٹوں کے ذریعے عوام تک پہنچا لیکن اس سے بہت پہلے روسی سائنس فکشن اردو کے اعلیٰ ادبی پرچوں میں شایع ہوکر مقبول ہو چکا تھا۔

جون 2007ء میں دنیا کی پہلی خلانورد خاتون ویلنتینا ترشکووا کو اس کی 70 ویں سالگرہ پر روسی صدر ولادی میر پیوٹن نے اپنی رہائش گاہ پر بلایا اور اس کے اعزاز میں ایک شاندار ضیافت کا اہتمام کیا جس میں اسے مبارکباد دینے کے لیے منتخب روسی سائنسدان‘ سیاستدان اور ادیب موجود تھے۔ ان لوگوں کے سامنے ویلنتینا نے اپنی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’ میں مریخ کے سفر پر جانا چاہتی ہوں اور جانتی ہوں کہ اس سفر سے واپس نہ آ سکوں گی۔‘‘

ویلنتینا ترشکووا کی یہ خواہش ان سائنسی کہانیاں لکھنے والے ادیبوں کے تخیئل کی باز گشت ہے جو اپنے کرداروں کو صدیوں کے سفر پر بھیج دیتے تھے۔ اس سفر جس پر جانے والے مسافروں کا بدن زمین پر رہتا تھا اور ان کا ذہن کروڑوں میل دور نئے سیاروں کی سیر کرتا تھا اور جب وہ ذہن لوٹ کر آتا تھا تو اس بدن کو زمین پر دفن ہوئے مدتیں گزر جاتی تھیں۔

وہ اپنے اس ہولناک تجربے کو بھی بیان کرتی ہے جب اس نے زمین کی طرف واپسی کا سفر اختیار کرنا چاہا تو اسے معلوم ہوا کہ اس کے خلائی سیارچے میں آگے کی طرف سفر کرنے والے تمام آلات درست کام کر رہے ہیں لیکن زمین کا رخ کرنے والے تمام آلات خاموش ہیں۔

اس نازک مرحلے پر ویلنتینا نے اپنی ذہانت سے کام لیا اور واپسی کا سفر مینوئل طریقے پر اختیار کیا جس میں اسے بے حد مشکل ہوئی۔ اس نے لکھا ہے کہ میں جاننا چاہتی تھی کہ یہ ’’غلطی‘‘ نادانستہ ہوئی ہے یا یہ دانستہ ہے۔ وہ واپس زمین پر آئی اور صرف سوویت یونین نہیں، تمام دنیا کی آنکھوں کا تارہ بن گئی۔ آج بھی وہ مریخ کے سفرکی آرزو رکھتی ہے۔ وہ خود اور ہم سب جانتے ہیں کہ اس کی یہ خواہش نا آسودہ رہے گی لیکن یہ کیا کم ہے کہ ایسی آرزو رکھی جائے جس کی خواہش کرنا بھی بڑائی کا نشان ہو۔

بشکریہ روزنامہ ایکسپریس


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).