پاکستان میں پولیو کے خلاف جنگ میں فتح کتنی دور ہے؟
گھٹنوں میں چہرہ چھپا کر مسلسل رونے والی اس بچی کی عمر پانچ سال سے زیادہ نہیں تھی۔ وہ ہچکیاں لیتے ہوئے کہہ رہی تھی ’میں مرنا نہیں چاہتی۔‘
اس کے والدین بالآخر پولیو ویکسین کے محفوظ ہونے پر قائل ہوئے اور اس بچی کو باہر لایا گیا تاکہ وہ پولیو کے قطرے پینے کے لیے تیار اپنے بہن بھائیوں کو دیکھ سکے مگر اس کا رونا مسلسل جاری رہا۔
اس کے گھر میں موجود خوف کی فضا صاف محسوس کی جا سکتی تھی۔ اس سے پہلے اس بچی کے مسلح رشتے داروں نے انسدادِ پولیو مہم کے کارکنوں کو گھر میں داخلے سے روک دیا تھا۔
اس پر ٹیم نے صحتِ عامہ کی مشیر ڈاکٹر عظمیٰ حیات خان سے مدد طلب کی۔ عظمیٰ جو کہ انسدادِ پولیو کی ملکی مہمات کی مانیٹرنگ کرتی ہیں، والدین کی جانب سے قطرے پلائے جانے سے انکار سے نمٹنے کا خاصہ تجربہ رکھتی ہیں مگر اس گھر کے قریب جاتے ہوئے وہ بھی گھبرا رہی تھیں۔
یہ بھی پڑھیے
ویکسینیشن: سات غلط فہمیاں جنھیں دور کرنا ضروری ہے
پولیو سے متعلق جھوٹی خبریں پھیلانے پر دس سکول سیل
گھر کے دروازے پر ان کا سامنا مردوں کے ایسے گروہ سے ہوا جس کا انھیں اندر جانے دینے کا کوئی ارادہ نہیں تھا۔ تناؤ کی یہ صورتحال تب ختم ہوئی جب بچی کے ایک ڈاکٹر رشتے دار کی آمد ہوئی۔ پولیو ٹیم نے پھر گھر میں موجود تمام بچوں کو قطرے پلائے مگر روتی ہوئی بچی کو قطرے نہ پلائے جا سکے۔ انہوں نے اگلے دن دوبارہ کوشش کرنے کا فیصلہ کیا۔
زندگی بھر کی معذوری سے بچانے والی پولیو ویکسین کے بارے میں پاکستانی عوام میں قوی شکوک و شبہات پائے جاتے ہیں مگر اس دن تناؤ معمول سے کہیں زیادہ تھا۔ پولیو ٹیم کے دورے سے ایک دن قبل ہی پشاور کے نواح میں ایک دیہی سکول میں پولیو کے قطرے پلانے کی مہم کا اختتام تشدد اور آتش زنی کے واقعات پر ہوا تھا۔
ماشوخیل گاؤں کے مقامی سکول کے ہیڈ ماسٹر نے اس سے قبل سکول میں پولیو ویکسین پلائے جانے کی اجازت نہیں دی تھی۔ اس مرتبہ وہ حکومتی دباؤ کے آگے جھک گئے اور ویکسین پلائی جانے لگی مگر تھوڑی دیر بعد ہی انہوں نے والدین کو فون کر کے انھیں بتایا کہ ان کے بچے الٹیاں کر رہے ہیں اور بےہوش ہو رہے ہیں۔
ماشوخیل سکول کے درجنوں بچوں کو ہسپتال لے جایا گیا۔ کسی بھی بچے میں کوئی علامات نہیں پائی گئیں اور انھیں ڈسچارج کر دیا گیا مگر اس وقت تک بہت دیر ہو چکی تھی اور سوشل میڈیا کے ذریعے عوام میں اشتعال پھیل چکا تھا۔
مشتعل والدین ایک مقامی مرکزِ صحت کے باہر جمع ہوئے، اس کی بیرونی دیوار ہتھوڑوں اور ڈنڈوں سے توڑ کر گرا دی، مرکزی دروازہ گرا دیا اور مرکز کو جلا دینے کے لیے اندر داخل ہو گئے۔ یہ سب کچھ مقامی چینل پر براہِ راست دکھایا جا رہا تھا جس کی وجہ سے پشاور میں بھی تشویش پھیلنے لگی تھی۔
حکومت کے مطابق مجموعی طور پر شہر کے مختلف سکولوں سے تقریباً 30 ہزار بچوں کو ہسپتال لایا گیا۔ ایک پریس کانفرنس میں صوبائی وزیرِ صحت نے بتایا کہ عوام میں افرا تفری مقامی مسجدوں کے لاؤڈ اسپیکر اعلانات کی وجہ سے بھی پھیلی جن میں عوام سے کہا گیا کہ وہ قطرے پینے والے اپنے بچوں کو فوری طور پر ہسپتال لے کر جائیں۔ وزیر کے مطابق تمام بچے صحت مند پائے گئے تھے۔
مگر اس واقعے کے نتیجے میں پہلے سے ہی لڑکھڑاتی ہوئی پولیو مہم مزید مشکلات کا شکار ہوگئی۔ اس ماہ کا ویکسینیشن راؤنڈ جو کہ اپریل میں تین دن تک منعقد ہوا تھا، تین افراد کی اموات پر منتج ہوا جس میں ایک پولیو ورکر اور پولیو ٹیم کی حفاظت پر مامور دو پولیس اہلکار شامل تھے۔
ڈاکٹر عظمیٰ کی ٹیم میں شامل ایک خاتون کہتی ہیں کہ ’لوگ ہمیں سڑکوں پر ہراساں کر رہے تھے، گاؤں کے دکانداروں نے ہمیں وہاں سے چلے جانے کے لیے کہا۔ ایک نے تو یہاں تک کہا کہ ‘تم لوگ ہمارے بچوں کو زہر دینے کے لیے آئے ہو۔’
قطرے پلائے جانے سے انکار جتنا زیادہ ہوگا، پولیو ٹیموں کے لیے خطرہ بھی اتنا ہی زیادہ ہو گا۔ عظمیٰ کہتی ہیں کہ ’میں جب بھی دروازہ بجاتی ہوں تو مجھے کبھی بھی یقین نہیں ہوتا کہ مجھے کس طرح کا ردِ عمل ملے گا۔‘
ان واقعات کے بعد حکومت نے حالات بہتر ہونے تک انسدادِ پولیو کی قومی مہم حالات بہتر ہونے تک معطل کر دی۔
مگر ہیلتھ ورکر یہ واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ قطرے پلائے جانا بھی اہم ہے۔ پولیو بچوں کو متاثر کرنے والی ایسی خطرناک بیماری ہے جو 200 میں سے ایک کیس میں اعصابی نظام پر حملہ آور ہوتی ہے اور جسمانی طور پر مفلوج کر دیتی ہے۔
اگر یہ پھیپھڑوں کو مفلوج کر دے تو چند ہی گھنٹوں میں موت واقع ہو سکتی ہے۔ اس بیماری کا کوئی علاج نہیں ہے۔
ویکسین اس مرض کے دنیا سے خاتمے میں کافی حد تک کامیاب رہی ہے اور صرف تین ممالک یعنی پاکستان، افغانستان اور نائجیریا اب تک اس مرض سے متاثر ہیں۔ نائجیریا میں اگست سنہ 2016 سے اب تک کوئی نیا کیس سامنے نہیں آیا ہے اور توقع ہے کہ اسے اگلے چند ماہ میں پولیو سے پاک قرار دے دیا جائے گا۔
پاکستان بھی مستقبل قریب میں پولیو سے پاک قرار دیے جانے کی راہ پر گامزن تھا مگر انسدادِ پولیو مہم کے حوالے سے اس سال کو مایوس کن تصور کیا جا رہا ہے۔
پاکستان کی حکومت نے ماہِ جون کے ابتدائی دنوں تک وائلڈ پولیو وائرس یا ڈبلیو پی وی 1 کے 21 کیس رپورٹ کیے جو کہ سنہ 2017 میں آٹھ تھے۔
قطرے پلانے کی قیمت
18 دسمبر سنہ 2012 کی صبح پولیو ورکر گلناز اپنی والدہ کے ساتھ گھر پر تھیں جب انھیں فائرنگ کی آواز سنائی دی۔
ان کی والدہ پریشان ہوگئیں مگر گلناز نے انھیں یہ کہہ کر تسلی دی کہ فائرنگ ممکنہ طور پر کسی شادی کی خوشی میں تھی۔
پھر انھیں فون آیا کہ وہ جلد سے جلد اس محلے میں پہنچیں جہاں ان کی بھانجی مدیحہ اور بھابھی فہمیدہ پولیو کے قطرے پلا رہی تھیں۔ پھر بھی گلناز نے سوچا کہ یہ ایک معمول کا آمنا سامنا ہوگا۔
انھوں نے پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری رشتے داروں کو شائستگی سے قائل کرنے کا سوچ رکھا تھا مگر اس کے بجائے ان کا سامنا راہ گیروں کی ایک بڑی تعداد، ایمبولینسوں اور پولیس سے ہوا۔ سامنے ہی اسٹریچر پر ایک لاش پڑی ہوئی تھی۔
گلناز کہتی ہیں کہ ’لاش سفید چادر سے ڈھکی ہوئی تھی مگر مجھے اس سے مدیحہ کی کلائی باہر لٹکتی ہوئی نظر آ رہی تھی۔‘ وہ خوفزدہ ہو کر واپس مڑیں تو انھوں نے اپنی بھابھی کو سڑک کی دوسری جانب خون میں لت پت پڑے ہوئے دیکھا۔ انھیں بھی قتل کر دیا گیا تھا۔
گلناز بتاتی ہیں کہ ’میں بالکل ڈھے کر رہ گئی۔ میری دنیا تباہ ہو گئی تھی۔‘
گلناز ان دو لاکھ 62 ہزار پولیو ورکرز میں سے ہیں جو پاکستان میں پولیو کے خلاف جنگ میں ہراول دستے کا کردار ادا کرتے ہیں۔ انھوں نے کراچی میں سنہ 2011 میں مدیحہ اور فہمیدہ کے ساتھ پولیو ویکسینیشن ٹیم میں شمولیت اختیار کی تھی۔ وہ معمول کی انسدادِ پولیو مہمات کے دوران گھر گھر جا کر پانچ سال سے کم عمر تمام بچوں کو پولیو کے قطرے پلایا کرتیں۔
پاکستان کے پولیو ورکرز کی 70 فیصد تعداد خواتین کی ہے۔ خواتین کو لوگوں کے گھروں تک رسائی ملنے کا زیادہ امکان ہوتا ہے اور اس کام کے ذریعے کم پڑھی لکھی خواتین کو معقول اجرت مل جاتی ہے جو کہ انھیں دیگر صورتوں میں شاید نہ مل پائے۔
مگر گلناز کہتی ہیں کہ انھیں اندازہ نہیں تھا کہ یہ کام اس قدر خطرناک ہو گا۔ ’مجھے کبھی بھی احساس نہیں ہوا تھا کہ خطرہ اتنا حقیقی تھا۔‘
مدیحہ اور فہمیدہ سنہ 2012 کے اس روز 20 منٹ کے اندر قتل کی جانے والی پانچ ہیلتھ ورکرز میں سے تھیں۔ کراچی میں تین مختلف حملے کیے گئے تھے جبکہ ایک حملہ پشاور میں کیا گیا۔
اگلے ہی دن چار مزید پولیو ورکرز کو قتل کر دیا گیا۔ چنانچہ گلناز کے گھرانے نے ان پر اپنا کام تبدیل کرنے کے لیے دباؤ ڈالا مگر وہ کہتی ہیں کہ یہ سانحہ ان کے عزم میں مزید پختگی کا باعث بنا ہے۔
’آپ کو کبھی بھی خوف کو اپنے اوپر غلبہ حاصل نہیں کرنے دینا چاہیے، ورنہ آپ کچھ بھی نہیں کر پائیں گے۔‘
مگر انہیں یہ کام جاری رکھنے کی بھی قیمت ادا کرنی پڑی ہے۔ انھیں اپنے پڑوسیوں کی درخواست پر اپنا محلہ تبدیل کرنا پڑا اور وہ خود بھی ایک اور حملے کا سوچ کر خوفزدہ تھیں، چنانچہ وہ اکثر کام پر جانے کے لیے اپنا راستہ تبدیل کیا کرتیں۔
’شروع شروع میں تو میں اتنی خوف زدہ تھی کہ اگر کوئی موٹر سائیکل بھی میرے پاس سے گزر جاتی تو میں ڈر جاتی۔‘
حکام کے مطابق گلناز کے خاندان کے ساتھ ہونے والا سانحہ پولیو ورکرز کے خلاف ایک مربوط مہم کا آغاز تھا جس کے نتیجے میں سنہ 2012 سے اب تک 94 پولیو ورکرز اور سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو چکے ہیں۔
تشدد کی اس لہر نے پاکستان کو پولیو کے خلاف اس کی جنگ میں ڈرامائی انداز میں پسپا کر دیا۔ سنہ 2012 میں جب گلناز کی رشتے دار خواتین قتل کی گئیں تو اس سال پولیو کے 58 کیس سامنے آئے تھے۔ 2014 تک 307 کیسز رپورٹ کیے گئے۔
اسی سال جون میں ڈبلیو ایچ او نے سفارش کی کہ پاکستان کے تمام شہریوں کو ملکی ایئرپورٹس پر پولیو کے قطرے پلائے جائیں تاکہ اس مرض کو دنیا میں پھیلنے سے روکا جا سکے۔
پاکستان کے حکام نے اس مرض کے خلاف ’جنگ‘ کا اعلان کیا۔ ویکیسنیشن ٹیموں کو بہتر سکیورٹی فراہم کی گئی اور بالخصوص خطرناک علاقوں میں کام کرنے والے رصاکاروں کو پولیس اہلکار فراہم کیے گئے۔
اس کے علاوہ سینکڑوں والدین کو اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے نہ پلا کر صحتِ عامہ کو خطرے میں ڈالنے کی بنا پر گرفتار کیا گیا۔
قطرے پلانے سے انکاری والدین
خوف زدہ والدین کا ردِ عمل پولیو ویکسین کے خلاف دہائیوں پر پھیلے ہوئے شکوک و شبہات کی بنا پر ہے۔
جب پاکستان کی قومی انسدادِ پولیو مہم پہلی بار سنہ 2000 میں شروع ہوئی تو صرف ایک سال یا کچھ عرصے بعد ایک نئے پاکستانی طالبان کمانڈر کا نام سامنے آیا۔
نہایت سنگدل شدت پسند کمانڈر ملّا فضل اللہ نے جب سنہ 2007 میں وادیِ سوات کا کنٹرول سنبھالا تو انہوں نے علاقے میں پولیو مہم پر پابندی عائد کر دی۔
فضل اللہ، جو کہ اب پاکستانی طالبان کے سربراہ ہیں، وہی شخص ہیں جنھوں نے سنہ 2012 میں ملالہ یوسفزئی کے قتل کا حکم جاری کیا تھا۔
اس سے پہلے سنہ 2007 میں انہیں ملّا ریڈیو کے نام سے جانا جاتا تھا کیونکہ انھوں نے وادی بھر میں کئی درجن ایف ایم ٹرانسمیٹر نصب کیے جن کے ذریعے وہ اپنے خطبات نشر کیا کرتے۔ انہوں نے انسدادِ پولیو مہم کے خلاف یہ کہہ کر مہم چلائی کہ یہ مسلمانوں کو بانجھ کر دینے کی مغربی سازش ہے۔
اس بے بنیاد دعوے نے عوام میں وسیع پیمانے پر شکوک و شبہات پھیلائے جنھیں سنہ 2011 میں ایک اور واقعے سے تقویت ملی۔
القاعدہ کے سربراہ اور امریکا پر 11 ستمبر کے حملوں کا حکم دینے والے اسامہ بن لادن کے پاکستان میں امریکی فوج کے حملے میں ہلاک ہونے کے چند دن بعد ہی ایک پاکستانی ڈاکٹر کو گرفتار کر لیا گیا۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک بےضابطہ پولیو مہم کی آڑ میں در در جا کر سی آئی اے کو اسامہ بن لادن کی تلاش کرنے میں مدد دی۔ اس واقعے نے پولیو کے خاتمے کی پاکستانی مہم کو مزید نقصان پہنچایا۔
سی آئی اے اور مذکورہ ڈاکٹر نے اس الزام سے انکار کیا ہے کہ ایسی کوئی مہم چلائی گئی لیکن پاکستانی حکام مصر ہیں کہ ایسا ہوا تھا اور ڈاکٹر آفریدی بدستور جیل میں ہیں۔
اس کے ایک سال بعد سنہ 2012 میں امریکی ڈرونز نے افغانستان کی سرحد سے منسلک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنانا شروع کیا تو شمالی اور جنوبی وزیرستان کے طالبان کمانڈروں نے پولیو ورکرز پر امریکا کے لیے جاسوسی کرنے کا الزام عائد کرتے ہوئے پولیو ویکسین پلائے جانے پر پابندی عائد کر دی۔
جب پاکستان کی فوج نے طالبان کے زیرِ انتظام علاقوں کا کنٹرول واپس حاصل کیا تو یہ پابندی ختم ہو گئی مگر مقامی مولویوں کی جانب سے ویکسین کے خلاف منظم اور مسلسل مہم جاری رہی جو کہ عوام میں بداعتمادی پھیلانے کے لیے مذہب کا استعمال کرتے رہے۔
انھوں نے فتوے جاری کیے کہ پولیو ویکسین میں حرام اجزاء مثلاً سور کی چربی شامل ہیں اور یہ ویکسین بچوں کو تولیدی صلاحیت سے محروم کر سکتی ہے۔ ڈبلیو ایچ او کے مطابق ایسا بالکل بھی نہیں ہے۔ [فتووں میں] یہ بھی کہا گیا کہ خواتین پولیو ورکرز “ناشائستگی” پھیلا رہی تھیں اور یہ کہ ان سے زبردستی شادی کرنا مسلمان مردوں کی ذمہ داری تھی۔
حمیداللہ حمیدی ایسے ہی ایک مولوی ہیں جنھوں نے خود پولیو ویکسین کے خلاف فتویٰ جاری کیا تھا۔
حمیدی جو کہ اب 30 کے پیٹے کے اواخر میں ہیں، اپنے صحن کے ایک سایہ دار کونے میں براجمان تھے۔ یوں تو سورج پوری تمازت سے آگ برسا رہا تھا مگر ٹھنڈی ہوا جب سرخ پھولوں سے لدے ہوئے انار کے دو درختوں کو چھو کر گزرتی تو صحن میں ٹھنڈک کا احساس ہوتا۔
وہ اپنی کہانی شروع کرتے وقت گھبرائے ہوئے نظر آئے۔
’میں نے اپنے بڑوں سے یہی سنا تھا کہ ویکسین ٹھیک نہیں ہے۔ کہ یہ مسلمانوں سے چھٹکارہ پانے کی مغربی سازش ہے اور یہ کہ مسلمان اس سے بانجھ ہو جائیں گے۔‘
مگر پولیو ٹیموں کی ثابت قدمی نے انھیں دوبارہ سوچنے پر مجبور کر دیا۔ ان کا کہنا ہے کہ ’ایک دن ایک پولیو اہلکار نے مجھے ایک کتاب دکھائی جس میں ویکسین کی حمایت میں تمام مکاتبِ فکر کے مفتیوں کے فتوے موجود تھے۔‘
درحقیقت زیادہ تر فتوے پولیو ویکسین کے خلاف ہونے کے بجائے اس کے حق میں ہیں۔
حمیدی نے اپنے گاؤں کے تمام مردوں کو مقامی مسجد بلایا اور انھیں بتایا کہ انھوں نے ویکسین کے حق میں فتویٰ دینے والے تمام مفتیوں سے ذاتی طور پر ملنے کا فیصلہ کیا ہے۔
پھر انہوں نے کئی ماہ تک کراچی، پشاور، لاہور، کوئٹہ اور دیگر مقامات کا دورہ کیا جہاں انہوں نے مختلف مذہبی رہنماؤں سے گفتگو کی اور اس حوالے سے ان کے نظریات جانے۔
جب وہ واپس آئے تو انھوں نے ہمت کر کے ایک بڑا قدم اٹھایا۔ ’میں نے مسجد میں ظہر کی نماز پڑھائی اور پھر اعلان کیا کہ مجھے ویکسین کے متعلق اپنے سوالات کے جوابات مل چکے ہیں۔‘
’میں نے انہیں بتایا کہ تمام مسلمان مکاتبِ فکر کے علما کا ماننا ہے کہ یہ ویکسین نقصان دہ نہیں ہے اور ہمیں اپنے بچوں کو معذوری سے بچانے کے لیے یہ ویکسین ضرور دینی چاہیے۔‘
اس کے بعد حمیدی نے مجمعے کے سامنے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلوائے۔
انھوں نے بتایا کہ ان کے محلے کے 25 کے قریب مردوں نے یہ دیکھ کر وعدہ کیا کہ وہ دوبارہ کبھی بھی اپنے بچوں کو پولیو ویکسین پلانے سے انکار نہیں کریں گے۔
مگر اپنے گاؤں سے باہر کے لوگوں کو قائل کرنا ایک بالکل مختلف کام تھا۔ انھیں شدید مزاحمت، یہاں تک کہ قتل کی دھمکیوں تک کا سامنا پڑا۔
حمیدی بتاتے ہیں کہ ’ایک مرتبہ میری طالبان کے ایک مقامی حامی سے بحث ہوگئی۔ میں جیسے ہی گھر واپس پہنچا تو میرا فون بجنا شروع ہو گیا۔ دوسری جانب موجود شخص نے مجھ سے کہا کہ میں انسدادِ پولیو مہم سے دور رہوں اور یہ کہ اگر میں نے بات نہ مانی تو میری زندگی خطرے میں پڑ جائے گی۔‘
انھیں اگلے کئی ماہ تک ایسی ہی فون کالز آتی رہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ انھیں گھبراہٹ تو ہوتی تھی مگر انھوں نے ایک منٹ کے لیے بھی اپنا مشن ترک کرنے کا نہیں سوچا۔
وہ مسکراتے ہوئے بولے کہ ’ایک مسلمان کے طور پر میں موت سے خوف زدہ نہیں، مجھے معلوم ہے کہ یہ مقررہ وقت پر ہی آئے گی۔‘
ان کا مشن اہم ہے۔ حمیدی کا آبائی قصبہ قلعہ عبداللہ پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں ہے۔ افغان سرحد کے قریب ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ طالبان کے زیرِ اثر ہے اور یہاں تاریخی طور پر پولیو ویکسین کے خلاف مزاحمت رہی ہے۔
حمیدی کہتے ہیں کہ مقامی لوگوں کے ذہنوں میں یہ بات بٹھا دی گئی ہے کہ این جی اوز کے ساتھ کام کرنے والے افراد کا ایک خفیہ ایجنڈا ہے اور وہ لوگوں کو مذہب تبدیل کروا کر عیسائی بنانا چاہتے ہیں۔
مگر ان کے مطابق بچوں کو قطرے پلوانے سے انکاری والدین کی ایک بڑی تعداد مانتی ہے کہ قطرے پلوائے جانے کے بدلے میں انھیں کوئی فائدہ دیا جانا چاہیے۔
’لوگ چاہتے ہیں کہ حکومت انھیں کوئی فائدہ دے۔ وہ سڑکیں، سکول اور ہسپتال چاہتے ہیں۔ کچھ لوگ تو پیسے تک چاہتے ہیں۔‘
مزاحمت کے باوجود جب سے حمیدی نے سنہ 2014 میں پولیو ویکسین کی حمایت شروع کی، تب سے قلعہ عبداللہ میں پولیو کے مریضون کی تعداد میں آئی ہے اور سنہ 2017 سے اب تک علاقے سے کوئی کیس سامنے نہیں آیا۔
وہ قرآن اور دیگر اسلامی کتابوں میں موجود صفائی کے حوالوں کے ذریعے مرض کی روک تھام کی اہمیت پر زور دیتے ہیں۔ ’میرا کام مشکل ہے مگر مجھے لگتا ہے کہ اگر میری کوششوں سے ایک بھی بچہ بچ گیا تو ہر خطرہ اٹھائے جانے کے قابل ہے۔‘
پولیو مہم کے سفیر
ابرار محتاط انداز میں بیساکھیوں پر زور ڈال کر اپنی مصنوعی ٹانگوں پر چلتے ہوئے ایک تنگ اور ناہموار گلی سے گزر رہے ہیں۔ ان کے ہاتھ میں ایک نارنجی فائل ہے۔ کراچی کی تیز دھوپ کے باعث پسینے میں شرابور ہو چکے ابرار ایک گھر کے سامنے رکتے ہیں اور دروازہ بجاتے ہیں۔
دروازہ ایک بلند قامت باریش شخص کھولتے ہیں۔ وہ علاقے کے ان کئی لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکار کیا ہے۔
ابرار کو تین سال کی عمر میں پولیو کا مرض لاحق ہوا اور انھیں اپنی دونوں ٹانگیں کٹوانی پڑیں۔ ان کا کہنا ہے کہ غیر تعلیم یافتہ والدین ویکسین کی اہمیت سے واقف نہیں ہیں۔
وہ کراچی کے علاقے بلدیہ ٹاؤن میں رہتے ہیں۔ یہ وادی سوات سے انتہائی دور ہے مگر یہاں پر کوئی 300 گھرانے ہیں جو کہ لگ بھگ 50 سال قبل کام کی تلاش میں سوات سے یہاں آ بسے تھے۔ ویکسین سے انکار کی مقامی روایت بھی ان خاندانوں کے ساتھ سوات سے کراچی منتقل ہوئی۔
پولیو وائرس علاقے کے گٹروں میں موجود ہے اور بلوچستان سے افغانستان تک جانے والی ایک مرکزی شاہراہ پر واقع ہونے کی وجہ سے اس علاقے میں پولیو کا خطرہ بہت زیادہ ہے۔
دروازے پر موجود شخص ابرار کے ابتدائی دلائل سے متاثر نہیں ہوتے۔ ابرار اپنی فائل سے ویکسین کے متعلق ایک بروشر نکالتے ہیں۔ وہ شخص اس بروشر پر ایک نظر ڈالتے ہیں مگر پھر بھی قائل نظر نہیں آتے۔
’مجھے پولیو کے قطروں کے اجزا کے بارے میں علم نہیں مگر میں اتنا ضرور جانتا ہوں کہ اس سے میرے بچوں کا مدافعتی نظام برباد ہو جائے گا۔‘
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں، ’تم لوگ ہمیں اکیلا کیوں نہیں چھوڑ دیتے؛ تم لوگوں کو ہمارے بچوں کی صحت کی اتنی فکر کیوں ہے؟‘
پولیو کے قطروں کے کوئی عمومی سائیڈ افیکٹ نہیں ہوتے مگر ابرار اکثر و بیشتر اس شکّی رویے کا سامنا کرتے ہیں۔ ابرار مایوس نظر آ رہے ہیں۔ وہ اس شخص کو چند مزید دستاویزات دکھاتے ہیں، اس سے ہاتھ ملاتے ہیں اور آگے بڑھ جاتے ہیں۔
پاکستان اپنے بچوں کو پولیو کے قطرے پلانے سے انکاری والدین کو کیسے قائل کر سکتا ہے؟
مارگلہ کی سرسبز پہاڑیوں کے دامن میں رکاوٹوں، مسلح سکیورٹی اہلکاروں اور بو سونگھنے والے کتوں سے گھری ہوئی ایک تقریباً ناقابلِ تسخیر عمارت موجود ہے۔ یہاں آنے والوں کو اندر داخل ہونے کی اجازت دینے سے قبل سختی سے چیکنگ کی جاتی ہے۔
بظاہر یہ کوئی فوجی عمارت لگتی ہے مگر درحقیقت یہ پاکستان کا نیشنل ایمرجنسی آپریشن سینٹر اور انسدادِ پولیو پروگرام کا ہیڈ کوارٹر ہے۔
اس پروگرام کے انچارج پاکستان کی حکومت کے سینیئر اہلکار بابر عطا ہیں۔ ان کے چارٹس اور گرافس سے مزین دیواروں والے دفتر میں ایک دیوار پر ایک بڑا سا نقشہ آویزاں ہے جس پر رنگین سوئیوں کی مدد سے پولیو کے بلند خطرے کی زد میں موجود علاقوں کی نشاندہی کی گئی ہے۔
حالیہ مشکلات کے باوجود پاکستان کے پولیو پروگرام نے واضح کامیابیاں حاصل کی ہیں۔
1994 میں ملک نے جب پہلی مرتبہ ڈیٹا اکھٹا کرنا شروع کیا تو ایک سال میں 22 ہزار پولیو کیس رپورٹ ہوئے تھے۔ 2015 سے ہر سال پولیو کیسز کی تعداد 100 سے کم رہی ہے۔
اس پیمانے کے کسی بھی پروگرام کو مشکلات کا سامنا ہونا لازمی ہے۔
پاکستان میں 4 کروڑ بچے پانچ سال سے کم عمر ہیں۔ حکومت کہتی ہے کہ اوسطاً پانچ لاکھ بچے قومی مہمات سے باہر رہ جاتے ہیں، مگر عطا کا ماننا ہے کہ اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے۔
’اگر پولیو وائرس اب بھی ہمارے ماحول میں موجود ہے تو یہ صرف ایک جانب اشارہ کرتا ہے، کہ ہم ہر مہم میں بچوں کی ایک بڑی تعداد تک نہیں پہنچ پا رہے۔‘
جن بچوں کو قطرے پلا دیے جاتے ہیں ان کی انگلیوں پر سیاہی سے نشان لگا دیا جاتا ہے۔ مگر پولیو مہم کے سفیر ابرار نے مجھے بتایا کہ پولیو ورکرز اعداد و شمار بڑھانے کے لیے ان بچوں کی انگلیوں پر بھی نشانات لگا دیتے ہیں جنہیں قطرے نہیں پلائے گئے ہوتے۔
عطا تسلیم کرتے ہیں کہ ایسا ہو سکتا ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ ’میں نے پاکستان کے پولیو پروگرام میں آٹھ سال تک کام کیا ہے اور میں ہی وہ شخص تھا جس نے انگلیوں پر جعلی نشانات کی نشاندہی کی تھی۔‘
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کے عوام سی آئی اے کے جعلی ویکسین سکینڈل پر آنے والے ردِ عمل کی وجہ سے انسدادِ پولیو مہم کو اس قدر شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔
’اس سے عوام میں بدگمانی پھیلی۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ مغرب، بالخصوص امریکا، کیوں پاکستان میں پولیو کو لے کر اتنا فکرمند ہے؟ اگر ہمیں پولیو پروگرام کو کامیاب بنانا ہے تو ہمیں اسے مغرب سے الگ کر کے دیکھنا ہو گا۔‘
اور وہ اس حوالے سے پرعزم ہیں کہ حکومت ویکسین سے متعلق کوئی بھی جھوٹی خبر برداشت نہیں کرے گی۔ ان سے اس ملاقات کے چند ہفتے بعد انھوں نے اعلان کیا کہ حکومت نے پشاور کے ان سات سکولوں کو معطل کر دیا ہے جنھیں اپریل میں ویکسین کے خلاف ’عوامی افراتفری‘ پھیلانے میں ملوث پایا گیا تھا۔
عطا مانتے ہیں کہ کامیابی کی کنجی والدین کے دل و ذہن جیتنا ہے۔’ہمیں لوگوں کے دل جیتنے ہوں گے۔ سوال پوچھنا والدین کا حق اور انھیں جواب دینا حکومت کی ذمہ داری ہے۔‘
سڑکوں اور گلیوں پر یہ گلناز جیسے پولیو ورکرز کی ذمہ داری ہے کہ وہ ویکسین سے متعلق والدین کے خوف اور شبہات سے نمٹیں مگر پولیو کے خلاف پاکستان کی جنگ میں خوف کے ساتھ ساتھ اکثر و بیشتر تشدد کا عنصر بھی شامل ہو جاتا ہے۔
گلناز کہتی ہیں ’میں اب مزید خوف زدہ نہیں ہوتی کیوں کہ میں اکیلی نہیں ہوں۔ کئی لوگ ہیں جو زیادہ خطرناک علاقوں میں کام کر رہے ہیں اور اپنی ذمہ داری اچھی طرح نبھا رہے ہیں۔ مجھے میرے ساتھیوں سے بہت ہمت ملتی ہے اور اللہ بھی میرے ساتھ ہے۔ مجھے یہ کام پسند ہے؛ مجھے اس سے دلی سکون ملتا ہے۔‘
۔
- مریم نواز اور پنجاب پولیس کی وردی:’کیا وزیراعلیٰ بہاولنگر کے تھانے کا دورہ بھی کریں گی؟‘ - 25/04/2024
- غزہ کی اجتماعی قبروں میں لاپتہ اہلخانہ کی تلاش: ’ہم اس بات کی اجازت نہیں دے سکتے کہ یہ چھوٹا سا معاملہ بن کر دب جائے‘ - 25/04/2024
- رومانس سے بھرپور کامیڈی ڈراموں کا رواج پاکستان میں کہاں سے آیا؟ - 25/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).