یمن میں جنگ: ’سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت غیرقانونی ہے‘


سعودی عرب برطانیہ یمن عدالت اسلحہ

کیمپین اگینسٹ آرمز ٹریڈ نامی غیر سرکاری گروپ نے مقدمہ لڑ کر سعودی عرب کو برطانوی اسلحے کی فروخت کو غیر قانونی قرار دلوایا ہے

برطانیہ کی ایک عدالت نے برطانوی حکومت کے سعودی عرب کو اسلحہ فروخت کرنے کے فیصلے کو غیر قانونی قرار دیا ہے۔

اسلحے کی تجارت کے خلاف مہم چلانے والے ایک گروپ ’کیمپین اگینسٹ آرمز ٹریڈ‘ نے اپنی درخواست میں کہا تھا کہ خلیجی ریاست کو برطانوی اسلحے کی سپلائی کا لائسنس غیر قانونی ہے۔

درخواست میں کہا گیا تھا کہ برطانوی اسلحہ انسانی حقوق کے تحفظ کے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے، کیونکہ سعودی عرب برطانوی اسلحہ یمن کی جنگ میں استعمال کر رہا ہے۔

جج کے مطابق لائسنس کو منسوخ نہیں کیا جائے گا بلکہ اس کا جائزہ لیا جائے گا۔

اس فیصلے کے بعد برطانوی حکومت فوری طور پر سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت بند نہیں کرے گی، البتہ اب اس کے لیے مسائل میں اضافہ ہوگا۔

برطانوی وزیرِ اعظم ٹریزا مے کے ایک ترجمان نے اپنے رد عمل میں کہا ہے کہ انھیں اس فیصلے سے ‘مایوسی’ ہوئی ہے اور حکومت اس فیصلے کے خلاف اپیل کرنے کی اجازت حاصل کرے گی۔

یہ بھی پڑھیے

’دنیا میں سات کروڑ سے زیادہ لوگ پناہ گزین ہیں‘

دنیا کا سب سے کم پُر امن ملک کون سا؟

’یمن جنگ میں امریکہ سعودی عرب کی مدد نہ کرے‘

یمن میں جنگ کے خلاف انسانی حقوق کے گروپ لندن میں سرگرم رہتے ہیں

یمن میں جنگ کے خلاف انسانی حقوق کے گروپ لندن میں سرگرم رہتے ہیں

برطانیہ کے بین الاقوامی تجارت کے وزیر لیئم فوکس کا کہنا ہے کہ سعودی عرب اور اس کے اتحادیوں کو درآمدات کے لیے حکومت اب کوئی نئے لائسنس جاری نہیں کرے گی اور اس دوران اس فیصلے کے اثرات کا جائزہ لیا جائے گا۔

ان کا کہنا ہے ’یہ اس بارے میں نہیں ہے کہ آیا اسلحہ فروخت کرنے کا فیصلہ غلط تھا یا درست، بلکہ اصل قضیہ یہ ہے کہ جن مراحل سے گزر کر یہ فیصلہ کیا گیا آیا وہ درست تھا یا نہیں۔‘

برطانیہ کی اسلحہ برآمد اور فروخت کرنے کی پالیسی کے تحت اگر اس بات کا واضح خدشہ نظر آئے کہ اسے انسانی حقوق کی پامالی کے لیے استعمال کیا جائے گا تو فوجی ساز و سامان فروخت کرنے کا لائسنس جاری نہیں کیا جا سکتا ہے۔

کورٹ آف اپیل کے جج سر ٹیرینس ایتھرٹن نے فیصلہ سانتے ہوئے کہا ہے کہ ‘حکومت نے واضح طور پر اس بات کی تسلی نہیں کی تھی کہ آیا سعودی عرب کی قیادت والے فوجی اتحاد نے یمن میں فوجی کارروائی کے دوران انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں کیں کہ نہیں، اور نہ اب تک کرنے کی کوئی کوشش کی ہی۔’

انھوں نے اپنے فیصلے میں کہا ‘حکومت ہر حال میں اس معاملے پر از سرِ نو غور کرے’ اور مستقبل کے خدشات کا اندازہ بھی لگائے۔

یمن پر سعودی عرب کے اتحاد کی بمباری سنہ 2015 سے شروع ہوئی تھی۔ اس کے بعد برطانیہ نے پونے پانچ عرب پاونڈ کے اسلحے کی فروخت کے لائسنس جاری کیے ہیں۔

برطانیہ نے خلیجی ممالک کو جو اسلحہ فروخت کرنے کے لائسنس جاری کیے ان میں ٹارپیڈو اور ٹورنیڈو لڑاکا جہاز اور گائیڈڈ میزائل شامل ہیں۔

اسلحے کی اس فروخت سے برطانیہ کے انجینئیرنگ کے شعبے میں کئی افراد کو ملازمتیں ملتی ہیں۔

کیمپین اگینسٹ آمرز ٹریڈ کے اینڈریو سمِتھ نے کورٹ آف اپیل کے فیصلے کا یہ کہتے ہوئے خیر مقدم کیا ہے کہ ’سعودی عرب میں اس وقت دنیا کی ظالم ترین حکومت موجود ہے، اور اس کے باوجود وہ برطانیہ کا سب سے زیادہ اسلحہ خریدنے والا ملک ہے۔‘

انھوں نے کہا کہ ‘کوئی فرق نہیں پڑتا کہ اس ملک نے کتنے مظالم ڈھائے، سعودی عرب برطانیہ کی سیاسی اور فوجی حمایت حاصل کرتا رہا ہے۔’

یمن میں ‘بمباری نے دنیا کے ایک بدترین انسانی المیے کو جنم دیا ہے۔’

سعودی عرب برطانیہ یمن عدالت اسلحہ

اقوام متحدہ کے مطابق یمن میں ساٹھ فیصد سے زیادہ ہلاکتیں سعودی عرب کے قیادت والے فوجی اتحاد کی بمباری سے ہوئی ہیں

انسانی حقوق کی تنظیم ایمنیسٹی انٹرنیشنل کے اسلحے کی فروخت کو روکنے کے محکمے کی ڈائریکٹر لُوسی کلیرِج نے کہا کہ اس فیصلے سے خطے میں مزید خون خرابہ روکنے میں مدد ملے گی۔

‘یہ پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ برطانیہ کی ایک عدالت نے اس خطرے کو تسلیم کیا ہے کہ سعودی عرب کو فوجی ساز و سامان سپلائی کرنے سے یمن کے لیے خطرات ہیں۔’

برطانیہ میں عوامی سطح پر بھی سعودی عرب کو اسلحہ دینے کے بارے میں کافی بحث ہوتی رہی ہے، خاص طور پر یمن میں سعودی عرب کی فوجی کارروائیوں کی وجہ سے۔

سویڈن کے دنیا میں اسلحے کی تجارت کے بارے میں تحقیقی ادارے سٹوک ہوم انٹرنیشنل پیس ریسرچ انسٹی ٹیوٹ نے اپنی ایک رپورٹ میں کہا ہے کہ امریکہ اور فرانس کے بعد، برطانیہ سعودی عرب کو اسلحہ سپلائی کرنے والا ایک بڑا ملک ہے۔

دفاعی تجزیہ نگار جوناتھان بیل کا تجزیہ:

کورٹ آف اپیل کا فیصلہ برطانوی حکومت کے لیے ایک بڑا دھچکا ہے۔

برطانیہ کی اسلحے کی 40 فیصد سے زیادہ برآمدات سعودی عرب کے لیے ہوتی ہیں۔

گزشتہ برس، برطانیہ کے اسلحہ سازی کے سب سے بڑے گروپ بی اے ای سسٹمز نے خلیجی ریاستوں کو ڈھائی ارب پاؤنڈ کا اسلحہ فروخت کیا تھا۔

کورٹ آف اپیل کے فیصلے کا اس وقت یہ نتیجہ نہیں نکلے گا کہ اب اسلحے کی فروخت ان ممالک کو بند ہوجائے گی، تاہم اب یہ فروخت خطرے میں پڑ جائے گی۔

برطانوی حکومت اب تک یہ دعویٰ کرتی رہی ہے کہ اسلحے کی فروخت کے بارے میں دنیا میں اس کے سخت ترین قواعد ہیں۔ لیکن کورٹ آف اپیل کے فیصلے نے یہ ثابت کیا ہے کہ یہ قواعد زیادہ مؤثر نہیں ہیں۔

کورٹ آف ایپل نے کہا کہ حکومت کا یہ قانونی فرض ہے کہ وہ کسی ملک کو اسلحہ فروخت کرنے سے پہلے اس ملک پر عائد انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کا صحیح اندزاہ لگائے۔

اس فیصلے کے مطابق برطانوی حکومت نے سعودی عرب کو اسلحے کی فروخت کے وقت انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات پر کوئی تحقیق ہی نہیں کی۔

حکومت نے کہا ہے کہ وہ اس فیصلے کے خلاف اپیل کرے گی۔

لیکن برطانوی حکومت کے لیے یہ ثابت کرنا مشکل ہوگا کہ سعودی عرب کو فروخت کیے گئے اسلحے کے استعمال سے یمن میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں نہیں ہوئی ہیں۔

یمن میں کیا ہورہا ہے؟

بظاہر لگتا ہے کہ یمن گزشتہ چار برس سے ایک ایسی بے قابو خانہ جنگی کا شکار ہے جس میں ہزاروں افراد ہلاک ہو چکے ہیں جبکہ لاکھوں افراد بھوک و افلاس کا شکار ہیں۔

اس ملک میں یہ جنگ سنہ 2015 میں شروع ہوئی تھی جب باغی ہوثیوں نے دارالحکومت صنعا اور کئی مغربی علاقوں پر قبضہ کر کے یمن کے صدر منصور ہادی کو ملک سے فرار ہونے پر مجبور کر دیا تھا۔

سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سمیت دیگر خلیجی ممالک نے اس پیش رفت کو خطے میں ایرانی اثر و نفوذ میں اضافہ قرار دیا اور منصور ہادی کی حکومت کو یمن میں بحال کرنے کے لیے فوجی مداخلت کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔

امریکہ، برطانیہ اور فرانس نے اس مقصد کے لیے انھیں اسلحہ، فوجی امداد اور انٹیلیجینس فراہم کرنے کا اعلان کیا۔

اقوامِ متحدہ کے مطابق، اب تک یمن میں اس تصادم کی وجہ سے سات ہزار سے زیادہ شہری ہلاک اور گیارہ ہزار سے زیادہ زخمی ہو چکے ہیں اور ان میں 65 فیصد اموات سعودی عرب کی قیادت میں ہونے والی فضائی بمباری سے واقع ہوئی ہیں۔

اس کے علاوہ ہزاروں ایسی اموات ہوئی ہیں جن کی وجہ بیماری اور بھوک و افلاس ہے، اور جنھیں مناسب سہولتیں مہیا ہونے کی صورت میں روکا جاسکتا تھا۔

اقوام متحدہ کے مطابق، اس وقت یمن کی 80 فیصد آبادی، جو کہ ڈھائی کروڑ بنتی ہے، کو فوری امداد کی ضرورت ہے، اور دس فیصد ایسے لوگ ہیں جو قحط کے دہانے پر ہیں۔

گزشتہ ماہ ہوثی باغیوں نے اقوام متحدہ کی جانب سے طے کیے گئے جنگ بندی کے ایک معاہدے کے تحت بحیرہ احمر کی تین اہم بندرگاہوں سے اپنی میلیشا کو باہر نکال لیا تھی تاکہ ملک کے اندرونی علاقوں میں امدادی سامان کی ترسیل ممکن ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp