ریحان رند تم بلوچستان سے ہو


(وقاص عالم)

\"waqasسوئی کے علاقے میں ایک بڑهیا تپتے ہوئے ریت کے فرش پر چلتے اپنے گهر کا چولہا جلانے کے لئے نکلی، جب لکڑیاں اکهٹا کر کے واپسی پکڑی تو رستے میں ایک بہت ہی دیوہیکل قسم کی لوہے کی نالیاں دیکھ کر دنگ رہ گئی اپنے اوپر لکڑیوں کا ڈهیر سجائے وہ اس بات کا مشاہدہ کرنے لگی کہ اے خدا یہ ہے کیا؟ اتنے میں ایک سوٹ بوٹ میں پیلی لیبر گارڈ پہنے انجینئر آدھمکا پوچها اماں ! کیا دیکهتی ہے؟ اماں اس سکتے سے ذرا سنبهلی اور کہا بیٹا، یہ بلائیں کیا ہے؟ انجینئر حیرت زدہ انداز میں کهڑا اماں کو تکتا رہا پهر وقفہ کے بعد گویا ہوا اماں! آپ کو نہیں پتہ، یہ \”گیس پائپ\” لائن ہے اس کے ذریعے پورے پاکستان کو گیس ملتی ہے، پورا پاکستان اس کو اپنی گاڑیوں میں فیول کے لئے استعمال کرتا ہیں، پورے پاکستان میں اس سے کهانا پکایا جاتا ہے، اس سے بجلی چلتی ہے (جنریٹر کی صورت میں)، فیکٹریاں اسی خزانے سے رواں دواں ہیں اور ایک اور بات بتاؤں؟ اماں نے گهورتے ہوئے کہا کیا بات؟ انجینئر شرٹ کے کالر صحیح کرتے ہوئے فخریہ انداز میں بولا یہ نعمت اماں اللہ نے بہت کم ممالک کو عطا کی ہے۔ اماں نے تمام باتوں کو غور سے سنا، تهوڑا سوچا پهر کہا اچها یہ بتاؤ کہ اس سے مجهے لکڑیاں مل سکتی ہیں مجهے گهر میں آگ جلانی ہے۔۔
یہ کہانی بلوچستان کے علاقے سوئی کی ہے جس کی سوئی گیس سندھ میں مٹیاری، پنجاب میں چولستان اور خبر پختونخوا میں ہزارہ تک پہنچ گئی ہے مگر اس سوئی گیس کی بڑهیا کے گهر تک رسائی نہ ہوسکی۔ بلوچستان میں یہ مثالیں اب اثر نہیں رکهتیں، گیس سمیت کوئی بهی \”نعمت\” سوائے بلوچستان کے پورے پاکستان کو نصیب ہے۔ ایسا ہونے کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ استحصال بلوچستان کا مقدر ٹھہر گیا ہے۔

ایک اور کہانی سنیں! خضدار کے علاقے زہری (جو نواب ثناءاللہ زہری کا حلقہ اور آبائی ٹهکانہ ہے) کا ایک 21 سالہ نوجوان تعلیم کے شوق میں کراچی آیا، جوشیلا تها بائیولوجی اور کیمسٹری اس کی فیلڈ تهی۔ اپنی لگن اور محنت سے اس نے خود کو اس قابل کردیا کہ پاکستان کے انگریزی اخباروں میں تحریریں شائع ہونے لگیں۔ سائنس کے ساتھ ساتھ سیاست اور ادب سے بهی خاصہ لگاؤ تها۔ اسی دوران کراچی کے ایک نامی گرامی تعلیمی ادارے میں وہ بطور استاد منتخب ہوگیا اور اپنی زندگی کے سنہرے ایام سے محظوظ ہونے لگا۔ اپنی قابلیت اور ذہانت کی وجہ سے وہ باقی لڑکوں سے بالکل منفرد تها۔ بایو کیمسٹری کے طالب علم کی حیثیت سے تجربات کرتا رہتا تها اور اس بات کا قوی امکان تها کہ یہ لڑکا بلوچستان کا وہ ستارہ بنے گا جس سے یہ زمین روشن ہوگی، ابهی وہ زندگی کے ایام سے لطف ہی لے رہا تها کہ کہانی کا موڑ آیا، ایک روز وہ دوران ورزش بے ہوش ہوگیا۔ اس کو اٹها بٹها کر سنبهالا اور معمولی توجہ کے بعد اس کو گهر بهجوا دیا مگر اس بات نے اس لڑکے کو تشویش میں ڈال دیا۔ اس نے اپنے ٹیسٹ کروائے تو اس کی رپورٹ نے اس کے پیروں سے زمین اور سر سے آسمان چهین لی۔ سارے خواب جیسے روئی بن کر دامن میں آگرے ہوں، بلڈ کینسر ہے بهی تو نام ایسا اور خود کما کر کهانے والوں کے لئے اس کا علاج موت کو مات دے دیتا ہے۔

خیر! وزیراعلیٰ بلوچستان کے حلقے کے اس ستارے کو مدہم پڑنے کے بعد ہسپتال کی نذر کر دیا گیا، \”ریحان رند \” آج آغا خان ہسپتال میں زندگی اور موت کے درمیان پل رہا ہے۔ زندگی اس کے لئے موت سے زیادہ تکلیف دہ بن چکی ہے۔ اخراجات کا معاملہ کون دیکهتا ہے وہ کہانی الگ ہے۔ اس کی کربناک صورت حال کا اندازہ صرف اس کے قریبی ساتھیوں کو ہے مگر ! میری اس کہانی کا مقصد آپ کو یہ بتانا ہے بلوچستان میں اور باقی پاکستان میں کیا فرق ہے؟ یہاں ایک ستارہ ابهرنے لگتا ہے تو اس کو یا تو سول ہسپتال میں بم دھماکوں میں ضائع کر دیا جاتا ہے یہ پهر ریحان رند کی طرح تڑپنے دیا جاتا ہے۔ وزیراعلیٰ بلوچستان کے گهر کے پڑوسی زندگی کی بهیک مانگتے پهر رہیں ہیں اور وہ ترقی کے خواب کو سی- پیک کی تعبیر بنانے میں مصروف ہیں جب کہ پورے بلوچستان میں اگر ایک کینسر ہسپتال بنا دیں تو شاید ایسے کئی ریحان رند جیسے ستارے مدہم نہ پڑیں۔

سوئی کی بڑهیا کی کہانی اور ریحان رند کی کہانی دراصل بلوچستان میں استحصال اور ترجیحات کے نام پر ترقی کا جو ڈهونگ ہے اس کی کهلم کهلا تعبیر ہے۔ سوئی کی بڑهیا بلوچستان سے ہے یہ اس کا قصور ہے اور ریحان رند کا تو گناہ ہی یہی ہے کہ وہ وزیراعلیٰ کے علاقے کا بلوچ ہے تو گویا سب سے عظیم گناہ بلوچستان سے تعلق ہونا ہے۔ میں جاکر یہ بات اس بڑهیا اور ریحان کو بتادیتا ہوں کہ تم لوگوں کا تڑپنا مقدر ہے۔ کوئی بهی اس خطہ کا خیر خواہ نہیں، ہاں! تم سونے کی کان ہو، گیس سے مالا مال ہو، اور سی-پیک جیسی سونے کی چڑیا کے صیاد ہو مگر پهر بهی تم تڑپو ! کیونکہ تم \”بلوچستان\” سے ہو


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments