خلیل جبران کا خط: نئے پاکستانیوں کے نام


اے رفیقانِ من! نئے پاکستان کی صبحِ نو تمہارے لیے باعثِ انبساط ہے اور پرانا پاکستان وجہ حزن و ملال۔ تم ایک ایسے نشاط پرور سنہرے دور سے گزر رہے ہو جس میں تم غمِ امروز اور فکر فردا سے بے نیاز ہو۔ مجھے معلوم ہے کہ ظہورِ کپتان سے پہلے تمہارے حواسِ خمسہ بلکہ پوری ہستی پر حزن و ملال کا ایک اٹوٹ سناٹا طاری تھا۔ شعور و دانش کے دروازے تم پر بند تھے پھر تم نے کپتان کو چن لیا یا کپتان نے تمہیں چن لیا اور تم عیش و نشاط کی اس جنت میں پہنچ گئے جہاں دن سپنوں کی مانند گزرتے ہیں اور راتیں سہاگ رات کی طرح۔

ہر شخص کی زندگی میں کوئی نہ کوئی کپتان ضرور آتا ہے۔ خواہ وہ عہدِ شباب ہو یا زمانہ پیری، وہ اچانک کسی موڑ پر نمودار ہوتا ہے اور اس کی خاموش اور بے کیف زندگی کو شعور و دانش کے موتیوں سے بھر دیتا ہے۔

میں عالمِ بالا میں کتابوں اور صحیفوں میں محو تھا کہ الہام و انکشاف اور رموزِ فطرت کو جان سکوں کہ اچانک میری محویت ایک چھناکے سے ریزہ ریزہ ہوگئی۔ ایک نورانی فرشتے نے مجھے یہ مژدہ جاںفزا سنایا کہ عرضِ پاک کے طول و عرض میں میرا ذکر بڑی شدت سے کیا جا رہا ہے۔ میرے استفسار پر یہ بھید کھلا کہ اس پزیرائی کے پیچھے ایک مردِ رعنا ہے۔ یقین جانیے میرے قلب وروح کی دنیا جگمگا اٹھی، گوشہ گوشہ منور ہو گیا، کائنات نکھر نکھر گئی۔

وہ گریٹ کپتان جسے دنیا عمران خان کے نام سے جانتی ہے وہ میرا مداح نکلا، ایسا تو میں نے مر کر بھی نہ سوچا تھا۔ یہ کپتان کی بے حساب محبت ہے کہ انہیں ہر عقل و دانش کی بات پر یہ گماں ہوتا ہے کہ وہ بات میں نے ہی کہی ہو گی۔ خواہ وہ بات رابندر ناتھ ٹیگور سے وابستہ ہو یا کوئی کہاوت ہو۔ آپ لوگوں کو چاہیے کہ ان کی باتوں کو زیادہ سیرئیس نہ لیں۔ اگر ایسا کیا تو پھر پچاس لاکھ گھروں، کروڑوں نوکریوں، ڈیم بنانے، قرض کی رقم آئی ایم ایف کے منہ پر مارنے اور غریب پرور بجٹ کی باتیں سوچ سوچ کرہلکان ہوتے رہیں گے۔

میں بتاتا چلوں کہ 6 جنوری 1883 کو میں نے اس جہانِ آب و گلِ میں آنکھ کھولی تھی۔ اگرچہ میں لبنان میں پیدا ہوا لیکن میں نے زندگی کا بیشتر حصہ امریکہ میں گزارا۔ 10 اپریل 1931 کو میں نے 48 سال عمر میں جب یہ جہانِ فانی چھوڑا، میں اس وقت نیویارک میں مقیم تھا۔ میرے نانا ایک پادری تھے اور ان کے ساتھ بچپن میں کی گئی عبادتوں کا اثر میری زندگی پر بہت گہرا تھا۔۔ بہرحال میری چھوڑئیے میں تو اپنے قلبِ حزیں کی پر سوز آہوں کے ذریعے اپنے اس قلق کا اظہار کرنا چاہتا تھا کہ کاش میں عہدِ عمران میں پیدا ہوتا۔ یوں تو اس زمانے میں بھی میرے مداح موجود تھے لیکن گریٹ کپتان جیسا ایک بھی نہیں تھا۔

اے میرے قلب کے رفیقو! تم بہت خوش نصیب ہو۔ تم ایک ایسے اعجاز آفریں عہد میں زندہ ہو جس میں ہر روز تمہاری تقدیر بدلتی ہے۔ منزل کا ملنا یا نہ ملنا کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ منزل کی تلاش میں گرمِ سفر رہنا ہی اصل کامیابی ہے اور اب تو میرِ کارواں بھی بہت ہینڈسم ہے۔ جس نے تمہیں شعور دیا ہے۔

یہ شعور کہ ملک کا سب سے بڑا مسئلہ کرپشن ہے۔ کرپشن بھی وہ جو سابقہ حکمرانوں نے کی۔ اب دونوں سابقہ حکمران جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہیں۔ مسئلہ حل ہو چکا ہے۔ لہٰذا غم و اندوہ کو الوداع کہہ کر شادمانی کے گیت گاؤ۔

مجھے شدید حیرت ہے کہ لطف و انبساط کے ایام میں چند ناہنجار مہنگائی، اقربا پروری اور ناانصافی کا رونا روتے ہوئے حکومتِ وقت کو نا اہل قرار دیتے ہیں۔ اب چونکہ کپتان میری محبت میں اچھے اچھے اقوال مجھ سے منسوب کرتے ہیں تو ستائشِ باہمی کے جذبے سے مغلوب ہو کر میں بھی ان کی حمایت میں کچھ کہنا چاہتا ہوں۔

پہلی بات تو یہ کہ حالات چاہے کتنے بھی بگڑ جائیں، گھبرانا نہیں ہے۔ 92 کے ورلڈ کپ میں بھی ٹیم کی حالات ایسے تھے کہ لوگ اسے آخری نمبر پر دیکھ رہے تھے لیکن کپتان نے ورلڈ کپ جیت کر دکھا دیا اسی طرح کپتان میں یہ صلاحیت ہے کہ اچانک پانسہ پلٹ دے خواہ ٹیم کتنی ہی ناکارہ اور نا اہل ہو۔ ہو سکتا ہے کپتان ملک کے وسیع تر مفاد میں اچانک استعفیٰ دے کر اپنے مخالفین کو اتنا حیران کر دے کہ وہ حیرت سے ہی مر جائیں۔ اس طرح ملک سے کرپٹ لوگوں کا خاتمہ ہو جائے گا۔

دوسری بات یہ کہ آپ لوگ یہ پہلو نظر انداز کیوں کرتے ہیں کہ کپتان روحونیات، رعونت، سوری روحانیات کے بھی ماہر ہیں۔ جہاں کوئی مسئلہ حد سے بڑھا وہ روحانیات سے اسے حل کر لیں گے خواہ سمندر سے تیل نکالنے کا کام ہو یا چاند پر پہلے پاکستانی کو بھیجنا ہو۔ یہ معمولی کام تو وہ روحانیات سے ہی کر لیں گے۔

میں تو انہیں اپنا رفیقِ گم گشتہ ہی سمجھتا ہوں۔ اے کاش میں ان کی رفاقت سے فیض یاب ہو سکتا مگر کیا کروں کہ اس جہاں اور اُس جہاں کے درمیان یک طرفہ ٹریفک ہے۔ میں یو ٹرن لے کر واپس اس دنیا میں نہیں آ سکتا۔ چناں چہ یہ نامہ تحریر کیا ہے۔

فقط جبران بر وزن عمران۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).