مغربی افریقہ میں قزاقی: دنیا کے خطرناک ترین سمندر


مغربی افریقہ کے ساحلوں پر قزاقوں کے خلاف بنائی گئی ایک ٹیم ایک کارگو جہاز کی نگرانی کر رہی ہے

تیل اور گیس بردار جہاز قزاقوں کے آسان شکار ہوتے ہیں

ایک تازہ رپورٹ کے مطابق مغربی افریقہ کے تیل سے مالا مال ساحل جہاز رانی کی دنیا میں خطرناک ترین حصہ ہے۔

بحری قزاقی پر سالانہ رپورٹ مرتب کرنے والے بین الاقوامی ادارے ’ون ارتھ فیوچر‘ کے مطابق دنیا کے باقی تمام سمندری خطوں میں قزاقی کے واقعات میں کمی ہو رہی ہے لیکن مغربی افریقہ میں یہ واقعات بڑھ رہے ہیں اور باقی دنیا کے مقابلے میں زیادہ تواتر سے پیش آ رہے ہیں۔

سوال یہ ہے کہ مغربی افریقہ میں ایسے واقعات کیوں بڑھ رہے ہیں اور کس قسم کے جہازوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

یہ بھی پڑھیے

صومالی قزاق: ہسپانوی کشتی رہا کر دی

وائکنگز کے کفن پر ’اللہ‘ اور ’علی‘ کے الفاظ کیوں؟

جب پرتگالیوں نے ہندوستان کی تاریخ پلٹ کر رکھ دی

بحری قزاقی ہے کیا؟

گہرے سمندروں میں سفر کرنے والے جہازوں کو لوٹنے کی وارداتوں کو جو کہ عموماً کسی ملک کے ساحلوں سے بارہ ناٹیکل میل کی دوری اور کسی بھی ریاست کی عملداری سے باہر کی گئی ہوں انھیں تشریح کے لحاظ سے بحری قزاقی قرار دیا جا سکتا ہے۔

کسی بھی ملک کی سمندری حدود اور کسی بندرگاہ کے قریب اگر کوئی ایسی واردات ہو تو وہ سمندر میں ڈاکے یا چوری کے زمرے میں آتا ہے۔

گہرے سمندر میں ہونے والی سمندری قزاقی کی وارداتوں اور مختلف ملکوں کی سمندر حدود کے اندر سمندری جہازوں پر ہونے والی چوریوں، دونوں قسم کے واقعات کے اعداد و شمار کو ون ارتھ کی رپورٹ میں یکجا کیا گیا ہے۔

سنہ 2018 میں مغربی افریقہ کے سمندروں میں 112 وارداتیں ہوئیں۔

یہ صرف نائجیریا اور گھنا سے تیل برآمد کرنے والے جہاز ہی نہیں تھے جنہیں بحری قزاقی کا نشانہ بنایا گیا ہو۔

Worldwide piracy and armed robbery at sea incidences . .  *Data for 2015 only counted incidences in Southeast Asia .

چھوٹے ملکوں سے تعلق رکھنے والے چھوٹے تجارتی جہاز بھی بحری قزاقوں کی دسترس میں آئے۔

لندن میں ہونے والی ایک تقریب میں خطے کے دو بڑے ملکوں کے درمیان گھرے ہوئے ملک ٹوگو کے صدر نے سمندری قزاقی کے بڑھتے ہوئے واقعات پر اپنی تشویش کا اظہار کیا۔

ٹوگو کے صدر نے کہا کہ ان کا خطہ خلیجِ گنی کے گہرے سمندروں میں بین الملکی جرائم کی وجہ سے بدنام ہو رہا ہے۔

یہ حملے کیوں بڑھ رہے ہیں؟

زیادہ تر حملے گیس اور تیل لے جانے والے جہازوں، ٹینکروں اور ٹگز پر ہو رہے ہیں۔ ماہی گیروں کی کشتیاں بھی ایسی وارداتوں کا نشانہ بن جاتی ہیں۔

نائجیریا کے ساحلوں پر سنہ 2018 میں سب سے زیادہ حملے ہوئے۔ اس کی بڑی وجہ ’پیٹرو پائریسی‘ ہے جو نائجیریا سے تیل اور گیس لے جانے والے جہازوں پر ہوئیں۔

نائجیریا کی بندرگاہ لاگوس پر جہازوں کے لنگر انداز ہونے کی جگہ پر جہازوں پر مال لادے جانے کے دوران بھی ایسی وارداتیں ہوئی ہیں۔

نائجیریا، گھانا، بنین، کانگو برازاویل اور کیمرون میں تاوان حاصل کرنے کے لیے اغوا اور ہائی جینکنگ کی وارداتیں بھی کثرت سے پیش آتی ہیں۔

سمندر پر تگڑے اور آسان شکار، سیاسی عدم استحکام، قانون کا سختی سے نفاذ نہ ہونا اور غربت جیسے عناصر بحری قزاقی کی وارداتوں میں اضافے کا باعث بن رہے ہیں۔

ان وارداتوں کا شکار بننے والی زیادہ تر جہازراں کمپنیوں کا تعلق اس خطے سے تعلق نہیں ہے۔ ان میں سے آدھے سے زیادہ یا تو فلپائین کی ہیں یا پھر ان کا تعلق انڈیا، یوکرین اور نائجیریا سے ہوتا ہے۔

نقشہ

مغربی افریقہ میں بحری قزاقی کی بڑھتی ہوئی وارداتوں کی ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ باقی تمام دنیا میں ایسی وارداتوں میں کمی واقع ہو رہی ہے۔

مشرقی افریقہ سے گزرنے والے سمندری راستہ جو صومالیہ کے ساحل کے قریب سے ہو کر گزرتا ہے وہ ہائی جیکنگ اور بحری قزاقی کے لیے بدنام رہا ہے۔

سنہ 2011 میں اپنے عروج پر پہنچنے کے بعد حالیہ برسوں میں ان علاقوں میں بحری قزاقی کی وراداتوں میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔

اس کی بڑی وجہ کثیرالملکی کاوشیں اور ان سمندروں کی نگرانی ہے اور بحری قزاقی کو ختم کرنے کے لیے ٹھوس اور سخت اقدامات ہیں۔

صومالیہ میں قزاقی کو نظرانداز کرنے کے رجحان اور مجرموں کو سزائیں دلوانے کے لیے نظام عدل میں تبدیلی بھی صورت حال میں بہتری کا باعث بنی ہیں۔

صومالیہ میں ایک مسلح شخص

ایشیا میں سنہ 2015 میں سب سے زیادہ وارداتوں کا نشانہ بن والا خطہ انڈونیشیا اور ملائشیا کے درمیان آبنائے ملاکہ کا علاقہ ہے۔

اس علاقے میں خطے کے ملکوں کی بحری افواج کی طرف سے مسلسل کارروائیوں سے یہاں بحری قزاقی میں واضح کمی آئی ہے لیکن یہ مسئلہ اب بھی پوری طرح حل نہیں ہوا ہے۔

سمندری قزاقی کی واداتیں جزائر غرب الہند اور لاطینی امریکہ میں بھی بڑھے ہیں۔

خاص طور پر ویزویلا میں بحری قزاقی زیادہ ہونے لگی ہے۔

ون ارتھ کے ایک اہلکار لیڈل جوبرٹ کے مطابق وہاں پر بھی سیاسی اور معاشی عدم استحکام اس کے بڑے عوامل ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp