عوامی مقامات پر جنسی اعضا کی نمائش: ’مردوں کی فرسٹریشن کے لیے تربیت اور علاج کی ضرورت ہے‘


یہ غالباً اسّی کی دہائی کا واقعہ ہے، لاہور کی رہائشی کلثوم اختر کو سال یاد نہیں۔ وہ اپنے بیٹے کے علاج کے لیے اسلام آباد آ رہی تھیں۔ وہ برقعے میں ملبوس تھیں اور ان کے سسر ان کے ہمراہ تھے۔

بس میں ان کے پیچھے بیٹھے شخص نے انھیں نامناسب انداز میں چُھونے کی کوشش کی۔ اس کی دوسری کوشش پر وہ نشست سے اٹھیں اور جوتا اتار کر اس شخص کی پٹائی شروع کر دی۔

اب سنہ 2019 ہے۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ گذشتہ 30 برسوں میں کچھ نہیں بدلا۔ بظاہر خواتین نہ کل محفوظ تھیں، نہ آج محفوظ ہیں۔
اسلام آباد کے پولی کلینک ہسپتال کی راہداریاں عام طور پر مریضوں اور ان کے رشتہ داروں، نرسوں اور ڈاکٹروں کی آمدورفت کے باعث کھچا کھچ بھری ہوتی ہیں۔

کچھ ہی دن پہلے ایک راہداری میں اچانک ایک زوردار تھپڑ کی آواز گونجی اور ہر کوئی جہاں ہے وہیں رُک گیا۔ پھر دوسرے تھپڑ کی آواز آئی اور پھر تیسرے کی۔

معلوم ہوا کہ ایک نوجوان لڑکے نے ایک ادھیڑ عمر سالہ خاتون کو اپنا جنسی عضو دِکھانے کی کوشش کی ہے۔ شاید اس لڑکے کو یہ گمان تھا کہ وہ کچھ بھی کر سکتا ہے اور کوئی عورت اسے کچھ نہیں کہے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔

حال ہی میں اسلام آباد کے ایف نائن پارک میں بھی ایسا ہی واقعہ پیش آیا جہاں اس ہراس کا شکار ہونے والی خواتین نے ایسا کرنے والے شخص کو پولیس کے حوالے کر دیا۔

ایسے واقعات کے تناظر میں بی بی سی نے یہ جاننے کی کوشش کی کہ آیا آج کی تعلیم یافتہ، مضبوط اور بااختیار خواتین کو اب بھی راہ چلتے کوئی پریشان کر سکتا ہے۔

طوبہ سید
طوبیٰ سید

’وہ ڈر اور خوف اب بھی میرے ساتھ ہے‘

طوبیٰ سید اسلام آباد کی قائد اعظم یونیورسٹی میں پڑھاتی ہیں۔ اس کے علاوہ وہ ایک سماجی و سیاسی جماعت کی سرگرم رکن ہیں اور رواں برس منعقد ہونے والے عورت مارچ سے بھی منسلک رہیں۔

ان کا کہنا ہے کہ معاشرے میں جہاں ان کے دائرہ احباب میں اچھے کردار والے مرد ہیں، وہیں انھیں بعض بدترین رویوں کا بھی سامنا کرنا پڑا ہے اور ’فلیشنگ‘ ان میں سے ایک ہے۔

پہلی بار جب ان کا کسی ایسے مرد سے سامنا ہوا جو اپنے جنسی اعضا کی نمائش کر رہا تھا، ان کی عمر محض 11 یا 12 برس تھی اور انھیں یہ پتا ہی نہیں تھا کہ وہ شخص یہ حرکت کیوں کر رہا ہے۔

لیکن جب وہ دوسری بار راہ چلتے نامناسب رویے کا شکار ہوئیں تو ان کی عمر 16 برس تھی اور وہ میٹرک میں تھیں۔

’وہ چند لڑکے تھے، 19-20 سال کے ہوں گے۔ ان کے درمیان شرط لگی تھی کہ وہ مجھے نامناسب انداز میں چھوئیں گے۔ مجھے اب بھی یاد ہے کہ جب انھوں نے یہ کیا تو ان کے دوستوں کے قہقہے مجھے سڑک کے اس پار سے سنائی دے رہے تھے۔ اس واقعے کے ایک ہفتے بعد تک میں دن میں تین سے چار بار نہاتی تھی کیونکہ مجھے لگتا تھا کہ مجھے اس لڑکے کا لمس اپنے جسم سے ہٹانا ہے۔‘

وہ اُس وقت تو شاید غصے اور بےبسی کے ان احساسات کو صرف اپنے تک ہی رکھ پائیں، لیکن کچھ ہی دن پہلے جب انھیں ایک بار پھر اسی قابلِ نفرت حرکت کا سامنا کرنا پڑا کہ تو انھوں نے اُس شخص کو گرفتار کروا کر ہی دم لیا۔

’اسلام آباد کے F-9 پارک میں ایک شخص نے مجھے فلیش کیا۔ پہلے تو ہم نے شور مچایا اور اس کو کہا یہ تم کیا کر رہے ہو لیکن وہ بالکل بھی نہیں ڈرا اور اپنی حرکت جاری رکھی۔ تھوڑی دیر بعد وہ ہمیں پھر نظر آیا، اس وقت وہ کسی اور کے ساتھ یہی حرکت کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ پھر ہم نے اسے پکڑ لیا۔’

اس شخص کے خلاف پولیس نے ایف آئی آر درج کر لی اور اب وہ ضمانت پر رہا ہے۔

اسریٰ غزل
اسریٰ غزل

کالج کی لیب میں پروفیسر کی نامناسب حرکت

بلاگر اور سوشل میڈیا پر سرگرم کارکن اسریٰ غزل نے اپنی ایک دوست کا قصہ سناتے ہوئے بتایا کہ تعلیمی ادارے بھی اس قسم کے لوگوں سے محفوظ نہیں ہیں۔

‘میری دوست کے کالج کے پروفیسر نے اسے سائنس لیب میں پڑھانے کے لیے بلایا اور اس کے سامنے بھی نامناسب طور پر اپنے اعضا کی نمائش کی۔ جب وہ ان کے سامنے گئی تو وہ اسی حالت میں اُس کو ملے۔‘

انھیں خود بھی ایک بار ایسے ہی ایک شحص نے ہراساں کیا جب وہ کالج سے واپس گھر جا رہی تھیں۔ اسریٰ کے مطابق وہ چنگچی رکشے پر سوار تھیں جبکہ وہ شخص موٹر سائیکل پر ان کا پیچھا کر رہا تھا۔

اسی دوران اس نے ان کے سامنے اپنے جنسی عضو کی نمائش کی۔ اسریٰ نے بتایا کہ یہ دیکھ کر وہ چیخنے لگیں اور انھوں نے اُس شخص پر اپنا چابیوں کا گچھا دے مارا۔

’لیکن سب سے حیران کن لوگوں کا رویہ تھا۔ اس وقت دیگر گاڑیوں اور موٹرسائیکلوں پر سوار کئی لوگ اس شخص کو ایسا کرتے دیکھ رہے تھے مگر کسی نے اسے روکا تک نہیں۔‘

ثنا آصف
ثنا آصف

’ڈر کے مارے کئی دن پارک نہیں گئی‘

بی بی سی کے وابستہ صحافی ثنا آصف خود کو ایک مضبوط اور بہادر خاتون سمجھتی ہیں لیکن ایسے ایک واقعے نے انھیں بھی متاثر کیا۔ ’دو سال پہلے مجھے ایک پارک میں چہل قدمی کے دوران ایسا شخص ملا جس نے مجھے دیکھ کر فلیش کیا۔ اس شخص کے ساتھ اس کی دو یا ڈھائی سال کی بیٹی اور چار سال کا بیٹا بھی تھا، پھر بھی وہ یہ حرکت کر رہا تھا۔‘

ثنا نے بتایا کہ وہ روز باقاعدگی سے پارک میں چہل قدمی کرنے جاتی تھیں، لیکن اس واقعے کے بعد انھوں نے کئی دن پارک کا رخ نہیں کیا۔ ’اب میں جاتی ہوں، لیکن صرف اس وقت تک جب تک وہاں مزید خواتین اور بچے ہوں۔ جیسے ہی ان کی تعداد کم ہونا شروع ہو جائے میں واپس آ جاتی ہوں۔ خواتین کہیں بھی محفوظ نہیں ہیں۔’

اس مسئلے کا حل کیا ہے؟

یہ واقعات عام طور پر بچیوں اور خواتین کے ذہنوں میں طویل مدت تک نقش رہتے ہیں اور سب سے پہلے ان خواتین کو حوصلہ دینے کی ضرورت ہے۔ طوبیٰ سید کے مطابق ’کہیں غصہ ہوتا ہے، کہیں تکلیف ہوتی ہے، کہیں دکھ ہوتا ہے اور کہیں خود ترسی بھی ہوتی ہے۔‘

ان کے خیال میں بہتر قانون سازی، مقامی انتظامیہ میں خواتین کی نمائندگی بڑھانے اور ایسے موضوعات پر کھل کر بحث کرنے کی ضرورت ہے، ‘تاکہ لوگ اپنے ذہن میں اس شہر کا تصور کرنا سیکھیں کہ ایک محفوظ شہر کیسا ہوتا ہے’۔ اسریٰ کہتی ہیں کہ پہلے شرم آتی ہے کہ ’شاید ہم کچھ غلط کر رہے ہیں یا ہماری وجہ سے ایسا ہوا۔ اس لیے ضروری ہے کہ آپ ایسے رویے کا سامنا کرنے والی خواتین اور بچیوں کو بتائیں کہ ان کی کوئی غلطی نہیں ہے۔‘

ثنا آصف سمجھتی ہیں کہ تمام عوامی مقامات پر سی سی ٹی وی کیمرے ہونے چاہییں تاکہ کسی شکایت کی صورت میں خواتین کو الزام ثابت کرنے میں دشواری نہ ہو۔ ’ایسے مرد ہر جگہ ہیں: پارکس میں، ہسپتالوں میں۔۔۔ ایک ایسی جگہ جہاں ہر طرف مریض ہیں اور ماحول پہلے ہی خاصا پریشان کن ہے، اُدھر بھی یہ لوگ یہی کرتے ہیں۔ وہ گلیوں میں ہوتے ہیں، سکولوں میں اور خواتین کے کالجز کے باہر بھی۔ ان کی فرسٹریشن یا ختم کرنے کے لیے ان کی گھروں میں تربیت اور ڈاکٹر سے علاج کی ضرورت ہے۔‘

اسریٰ کا خواتین کے لیے پیغام ہے کہ انھیں خاموش نہیں رہنا چاہیے۔ ‘ویڈیو بنائیں، تصویر بنائیں اور بِنا کسی خوف کے آن لائن شیئر کریں، انھیں شرمندگی کا احساس دلائیں۔‘


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32502 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp