مجاہد مرزا: پریشاں سا پریشاں


مجاہد مرزا سے میری گنی چنی ملاقاتیں ہیں، پہلی بار ہم لاہور میں ملے تھے، یہ 2015 کا سال تھا، اکادمی ادبیات پاکستان کے زیر اہتمام پاک چین کانفرنس میں شرکت کے لیے لاہور گیا ہوا تھا۔ شام ایک کلب میں آمنا سامنا ہوا اور یہ بھلا آدمی دِل میں سما گیا۔ یوں نہیں ہے کہ مجاہد مرزا کو میں سرے سے جانتا ہی نہیں تھا، جانتا تھا اور جس بے باکی اور معصومیت کو بہم کرکے وہ مختلف موضوعات پر لکھتے رہے ہیں، اخبارات میں اور سوشل میڈیا پر، وہ میری نظر میں تھا۔

وہ کئی برسوں سے ماسکو میں مقیم ہیں۔ وطن سے بہ ظاہر دور، مگرفی الاصل وطن کی سیاسی سماجی صورت حال اور اُردو سے بہت جڑے ہوئے۔ یہی سبب ہے کہ پہلی ہی ملاقات میں اجنبیت محسوس نہ ہوئی تھی۔ اگلی ملاقات بھی اکادمی ادبیات کی اسلام آباد کی کانفرنس میں ہوئی۔ کچھ دن پہلے جب اُن کی خود نوشت یادوں پر مشتمل کتاب ”پریشاں سا پریشاں“ آئی توان کی محبت کہ مجھے یاد رکھا۔ پہلے کتاب پڑھنے کو بھیج دی اور ایک شام کچھ اور دوستوں کے ساتھ کچھ وقت کے لیے میرے غریب خانے پر تشریف لاکر میری عزت افزائی کی۔

کل شام ہماری چوتھی ملاقات تھی ہری پور کے بینظیر ہال میں، جہاں اُن کی کتاب پر کھل کر مکالمہ ہوا اورانہوں نے ہری پور والوں سے جو محبتیں سمیٹی تھیں میں نے اُس کا وہاں عملی مظاہرہ دیکھا۔ یہ میری ایک مختلف شخص سے ملاقات تھی، ایک ایسے شخص سے جس کے وجود میں اس کی انتہائی مذہبی اور عبادت گزار ماں کی روح حلول کر گئی تھی۔ پروفیسر وحید قریشی بتارہے تھے کہ مجاہد مرزا کتاب کی اشاعت کے مراحل کی نگرانی کے لیے لگ بھگ پورا رمضان ہری پور میں رُکے رہے۔ اس عرصے میں انہوں نے سب روزے رکھے، نمازیں پڑھیں حتی کہ مسجد پہنچ کر نماز تراویح کا اہتمام کیا تھا۔

خیر، اب میں کتاب کی طرف آتے ہوئے یہ اعتراف کرنا چاہتا ہوں کہ مجاہد مرزا کے قلم میں کوئی جادو ہے کہ آپ اُن کی تحریر مکمل پڑھے بغیر چھوڑ نہیں سکتے۔ سات سو دو صفحات پر مشتمل کتاب ایک دفعہ میں نے اٹھالی تو رکھنے کو جی نہ چاہا، پڑھتا گیا حتی کہ ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہونے والے بچے کا قصہ، ایک اتھرے، ترقی پسند اور روشن خیال نوجوان کی من پسند مہمات کو سمیٹنے لگا جو جب چاہے سماجی بندھن یوں توڑ دیتا تھا جیسے کوئی بچہ کھیلتے کھلتے اوب کر اپنا کھلونا توڑ دیتا ہے۔ قصہ ماسکو پہنچ کر سمٹ گیا تو میرے ذہن میں کئی سوالات اچھال گیا تھا۔ یہی وہ سوالات ہیں جن کے سامنے ہمیں ہونا ہے اور ہونا بھی چاہیے۔

جس چیز نے اوّل اوّل مجھے کتاب پڑھنے کی طرف مائل کیا وہ اس کی زبان تھی۔ آغاز کے صفحات میں جہاں اُن کا دھیان زبان کو بنا سنوار کر لکھنے کی طرف رہا اور اُنہوں نے ایسے الفاظ بہت قرینے سے استعمال کیے جن کا چلن نہیں رہا ہے، تو اس قرینے نے ان کی تحریر میں لطف پیدا کیا۔ بعد میں اس طرف سے اُن کا دھیان ماجرا نگاری کی طرف منتقل ہو گیا۔ یہاں بھی میرے لیے حیرت کا ساماں موجود تھا کہ جتنا کچھ وہ لکھتے جا رہے تھے اتنا کچھ وہ کیسے یاد رکھ پائے ہوں گے۔

مجاہد مرزا ڈاکٹر ہیں اور اس باب میں اپنی تحریروں کے ذریعے ہماری معلومات میں بہت اضافے کرتے رہتے ہیں۔ کل ہری پور کی تقریب کے بعد جب ہم ان کے ساتھ کھانے کی میز پر بیٹھے تھے تو میں نے پوچھ ڈالا تھا کہ صاحب! آپ جیسا ہیپو کیمپس ہمیں کیسے مل سکتا ہے جو اتنی ڈھیر ساری باتیں، اپنی جزئیات کے ساتھ بہت سے واقعات اور مفصل معلومات اپنے اندر ذخیرہ کیے رکھے اور وہ بھی یوں جب ہم انہیں لکھنا چاہیں، عین مین حاضرہو جائیں۔

نیورو سائنٹسٹس کہتے ہیں کہ دماغ کا وہ حصہ جسے ہیپو کیمپس کہا جاتا ہے، ہماری یادوں کو مستقل طور پر ذخیرہ کر لیا کرتا ہے۔ تاہم یادوں کی یہ منتقلی کھلی آنکھوں سے دیکھتے لمحات میں نہیں ہوتی، تب ہوتی ہے جب ہم آنکھیں جھپکتے ہیں اور ہماری پلکیں باہم جڑ کر ایک نیند کا بوسہ لے رہی ہوتی ہیں ؛جی نیند کا بوسہ، جسے نیورو والے ”ریپڈ آئی مومنٹ سلیپ“ یا ”آر اِی ایم“ کہتے ہیں۔ نیند کے اس مختصر ترین وقفے میں عارضی یادیں دور دراز کے نیورانز تک جاتی ہیں اور اس ہیپو کیمپس میں مقیم ہو جاتی ہیں جس سے ڈاکٹر مجاہد مرزا نے خوب خوب کام لیا ہے۔

آپ سب جانتے ہیں کہ خود نوشت یادداشت ادب کی وہ صنف ہے جو عین آغاز ہی سے کنفیشنز اوراعترافات سے جڑی ہوئی ہے۔ 399 عیسوی میں سینٹ آگسٹن کے تیرہ کتابوں پر مشتمل ”کنفشنز“ کویادداشتوں کی صنف کا پہلا نمونہ کہا جاتا ہے۔ اس میں پوری جزئیات کے ساتھ اپنی زندگی کے نہاں گوشوں کو بے نقاب کرنے کا جو چلن وضع ہواتھا، وہی تب سے آج تک چلا آتا ہے۔ مجاہد مرزا کی کتاب ”پریشاں سا پریشاں“ بھی یادداشتوں کے اسی سلسلے سے جڑ جاتی ہے۔

یادداشتوں کا ایسا سلسلہ جس میں سماجی اور ریاستی نقطہ نظر سے غیر اخلاقی اور غیر قانونی کہلائے جانے والے کاموں کے سرزد ہونے کے رازوں سے پردہ اُٹھایا جاتا ہے۔ ہماری زندگی کے کئی چہرے ہیں۔ ایک چہرہ اس ننگے وجود کا ہے جوماں کی کوکھ سے نکلتے سمے دیکھا گیا اور پہلی چیخ کے ساتھ ہی جس نے بدلنا شروع کر دیا تھا۔ اس پر وہ چہرہ غالب آنے لگتا جسے ہمارے ماں باپ ڈھالنا چاہتے ہیں مگر ہماری مزاحمت اسے کچھ اور بنا دیتی ہے۔

گلی محلے میں نکلتے ہی ہم دوچہروں کے عادی ہو چکے ہوتے ہیں، ایک وہ جو ہم ہیں اور ایک وہ جو ہم دِکھنا چاہتے ہیں تاہم ہماری شناخت یہ دو نہیں ایک تیسرا چہرہ بنتا ہے جو ان دونوں سے مختلف ہوتا ہے اور جسے دیکھنے والے دیکھتے رہنے کے عادی ہوجاتے ہیں۔ اس سب کے بیچ یہ سوال کہ سچا چہرہ کون سا ہے ایک اضافی سوال ہو کر رہ جاتا ہے کہ وقت گزرنے کے ساتھ ہمارا چہرہ، ٹوٹ کر بکھرنے والے آئینے کی ان گنت کرچیوں سے چھلک پڑنے والے عکسوں میں تقسیم ہوتارہتاہے۔

ایسے میں سچ لکھ لینے کا دعویٰ ہر بارمشکوک ٹھہرتا ہے۔ یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ایک آپ بیتی کا غالب حصہ جگ بیتی بھی ہوتا ہے جس میں ہمارا ایک نقطہ نظر قائم ہو رہا ہوتا ہے۔ اس نقطہ نظر کے باب میں ہم دعوے کی زمین پر کھڑے ہو جاتے ہیں، جو ہم ہیں وہ حق ہے اور جو دوسری طرف ہے وہ سب باطل؛ یہیں سچ کے وجود پر ایک اور ضرب پڑتی ہے شاید یہی سبب ہے، مشفق خواجہ کو کہنا پڑا تھا کہ میں یہ ماننے کو تیار ہی نہیں ہوں کہ آپ بیتی میں سچ لکھا جاسکتا ہے۔

خیر، یہ جو میں نے اوپرسچ جھوٹ کو ’اضافی‘ کہا تو یہ فالتو والا اضافی نہیں ہے، یہ تو اضافت والا اضافی ہے۔ اور اس مسئلے کو یہاں بھی اسی طور نمٹایا جاسکتا ہے۔ ہمیں زندگی کا ایک قرینہ مرغوب ہوتا ہے مگر ہماری جبلت میں پڑی ہوئے اشتہا کے شاخسانے سے کچھ اور سرزد ہوتا رہتا ہے جسے ہم کئی اندیشوں کے سبب قالین تلے دھکیلتے رہتے ہیں۔ یادنگاری میں ہونے والے اعترافات ایک لحاظ سے، زندگی کے اس موڑ کا اعلان بھی ہوتے ہیں کہ ناحق اور غلط کو حق اور سچ سمجھ کر جو کچھ کیا جاتا رہا ہے نوٹ فرمالیں کہ اس کا احساس اب کہیں جاکر ہوا ہے۔

لیکن مجاہد مرزا کے باب میں ”پریشاں سا پریشاں“ کی صورت مدون ہو جانے والے اعترافات کے بعد بھی یہ کہنا مشکل ہوگا کہ جن کاموں یا ’کارروائیوں‘ کا وہ انکشاف فرما رہے ہیں، انہیں اب غلط سمجھے کے معترف بھی ہونے لگے ہیں کہ اُن کے لیے یہ انسانی وجود پر ’ہونی شدنی‘ تھی یا کہہ لیجیے انسان ہونے کا شاخسانہ۔ اس مرحلے پر مجاہد مرزا کے نقطہ نظر کو ڈھنگ سے آنکنے کے لیے کچھ وقت کے لیے میں نے اپنے دوست منشایاد والاچلن اپنالیا۔

منشایاد نے بتا رکھا تھا کہ جب انہیں کوئی کردار لکھنا ہوتاتھا تو وہ اس کی کھال میں گھس جاتے تھے۔ میں مجاہد مرزا کی یادداشتیں پڑھتے پڑھتے چپکے سے میمونہ کی کھال میں گھس بیٹھا۔ جی وہی میمونہ جس کا اس کتاب میں سب سے زیادہ ذکر ہوا ہے۔ وہ جو ہمارے دوست سے ٹوٹ کر محبت کرتی تھی، اتنی کہ وہ اپنے محبوب کے لیے کچھ بھی کر سکتی تھی۔ اور اس نے کیا بھی۔ کتاب کی قراٗت کے عرصے میں، میں نجمہ کی کھال میں بھی بیٹھا ہوں جو مصنف کا اثاثہ تھی اور اس نرس گلشن کی کھال میں بھی جسے وہ مٹھائی کے ڈبے میں، مولانا مودودی کی کتاب ”پردہ“ تھماتے رہے تھے۔

اُن کی اُس بیٹی کی کھال میں بیٹھنا تو بہت اذیت ناک رہا جس کا رونا برداشت نہ ہوتا تھا اورجسے دروازے کے باہر ڈال کر پٹ بھیڑ لیے گئے تھے اور اس کی ماں کو کہا گیا تھا کہ وہ باہر نکل کر اُسے چپ کرائے۔ مان لینا چاہیے کہ اس سماج کے بندھن بہت فرسودہ ہیں، لیکن اِن بندھنوں میں اب بھی اتنی قوت اور کشش ہے کہ افرادجذبے کی سطح پران سے وابستہ ہوجاتے ہیں۔ یوں کہ اسی راہ سے ان کے لیے اخلاقیات مرتب ہوتی رہتی ہیں۔

جب اس رُخ سے میں نے دیکھا تو پوری کتاب کا متن اُدھڑ کر از سر نو متشکل ہوا اور ناگفتہ سچ کی کئی جہتیں مرتب ہوتی چلی گئیں۔ بے شک سچ کی یہ جہتیں مجاہد مرزا کو مرغوب نہ رہیں ہوں گی مگر واقعہ یہ ہے کہ وہ کتاب میں سطروں کی خالی جگہوں سے جھلک دینے لگی ہیں۔ خیر سچ کی وہ جہت جو مصنف کے اپنے تجربے میں آئی وہ بھی کم لائق اعتنا نہیں ہے۔

یہ ماننا ہوگا یہ جو کچھ ”پریشاں سا پریشاں“ میں لکھا گیا ہے، یہ سب معمولی آدمی کی یادداشتیں نہیں ہیں۔ ایک عام اور معمولی آدمی زندگی کے ایسے تجربات کا حوصلہ تو کجا تصور تک نہیں کر سکتا جو ان کی دسترس میں رہے۔ اگرچہ انہوں نے اپنی کتاب کے سرورق پریہ اعلان کر رکھا ہے کہ یہ ”کم معروف شخص کا آٹو پورٹریٹ“ ہے مگر اس کم معروف شخص کی نفسیات کے تانے بانے میں اس حیثیت میں پڑے رہنے کی خواہش کہیں نہیں ہے۔ کون ہے جو گمنامی کی خاک تلے دبا رہنا چاہتا ہے، سو اس باب میں کسی گرفت کا کوئی جواز نہیں ہے۔

اب اگر اس کتاب میں بہت ہمت اور جرات سے بیان ہونے والی جنسی بے اعتدالیاں در آئی ہیں تو انہیں بھی اس باب کا ایک حربہ کہا جا سکتا ہے۔ میں قطعاً یہ نہیں کہہ رہا کہ وہ سراسر جھوٹ اور محض ایک حربہ ہے، جو بیان ہوا۔ سب عین مین ویسا ہی مجاہد مرزا کی زندگی میں پیش آیا ہوگا جیسا انہوں نے بیان کر دیا ہے۔ میرا کہنا یہ ہے کہ ہم جس سماجی ڈھانچے میں ہیں وہاں اگر ایک بیٹا مسودہ دیکھ کر یہ کہتا ہے کہ ابا جی آپ کی تحریر خاصی کمزور ہے، تو یقین جانیے وہ آپ تحریر کو کمزور نہیں کہہ رہا اس پردے میں کچھ اور کہنا چاہتا ہے۔

بڑے بھائی شعیب نے یہ جو نام اور مقام بدلنے کا مشورہ دیا تھا، یوں ہی تو نہیں دے دیا تھا، اس میں بھی کچھ حکمت تھی۔ بہنوں کا شدیدردعمل اور چھوٹے بھائی کی کہانی میں کہی ہوئی پتے کی بات، سب بلاسبب نہیں تھے۔ مگر اب کیا ہو سکتا ہے؟ ایک تحریر آپ کے سامنے ہے اور کون ہے کہ جو جھٹلا پائے کہ اس میں جو کچھ کہا گیا ہے ویسا ہماری زندگیوں میں کہیں نہ کہیں ہوتا نہیں رہا ہے۔ یہیں مجھے کامیو کا ناول ”زوال“ یاد آتا ہے۔

پہلے دو ناول ”طاعون“ اور ”اجنبی“ نہیں، تیسرا ناول ”زوال“۔ اس کے پہلے دو ناولوں میں آدمی بالعموم معصوم ہے اور یہ شر کی قوتیں ہوتی ہیں جو اس پر اثر ڈال کر اسے برا بنا دیتی ہیں مگر اس تیسرے ناول میں وہ معاملہ اوندھا دیتا ہے۔ کلامینس جو اس ناول کا راوی بھی ہے اور مرکزی کردار بھی ایک مقام پر ایک سفاک جملہ بولتا ہے۔ وہ کہتا ہے : ”جدید انسان کے لیے ایک ہی جملہ کافی ہے“ اُس نے زناہ کاری کی اور اخبار پڑھے ”۔

کامیو نے اس ناول میں اس جدید انسان کو خود غرض، بے ایمان، منافق اور بزدل کہتے ہوئے اس کے وجود کے سامنے مساوی کا نشان بنایا اور سامنے لکھ دیا، گناہ۔ گویا اس کے نزدیک انسانی وجود گناہ کے سوا اور کچھ نہیں تھا۔ میں نے جب کتاب ختم کرکے میمونہ کی کھال میں بیٹھ کر پوری کتاب کے متن کو ازسر نو مرتب کیا تو کامیو کا کلامینس میرے سامنے کھڑا قہقہے لگا رہا تھا۔ ایسے میں، میں نے صدق دِل سے خواہش کی تھی کہ کاش ہمارا دوست مجاہد مرزا اس رُخ سے بھی ایک تحریر لکھ ڈالے۔ یادداشتیں نہیں ایک ناول۔ مجھے یقین ہے کہ ایسا ناول ان کی یادداشتوں کی طرح نہ صرف مقبول ہوگا وہ نئی اور خود مختیار زندگی کی ان دیکھی جہتوں کو بھی کھول دے گا جن کی طرف کامیو کا زوال پڑھتے ہوئے قاری کا دھیان رہ رہ کر جاتا رہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).