ہم ایک بد تہذیب قوم ہیں


ہم ایک بد تہذیب قوم ہیں۔ ہمیں یہ بات مان لینی چاہیے۔ ماننا اس لئے ضروری ہے کہ خامی دور کرنے سے پہلے خامی کو تسلیم کرنا پڑتا ہے۔

رقم نکلوانے کے لیے نصب کسی بھی آٹو میٹڈ ٹیلر مشین (اے ٹی ایم) کے کیبن میں جائیں آپ کو اس معاشرے میں بنیادی آداب کا معیار زمین پر پڑا مل جائے گا۔ بستر میں لیٹے ہوئے پورے اطمینان سے موبائل فون پر ”راستے میں ہوں، بس پانچ منٹ میں پہنچ جاوں گا“ کہہ دینا ہمارے لیے معمولی بات ہے۔ حکومت کو گالی دے کر گھر کا کچرا گلی میں پھینکتے وقت، ٹریفک نظام کی بے ترتیبی کا رونا روتے ہوئے خود اشارہ دیے بغیر گاڑی موڑتے وقت، تمام سیاستدانوں کو چور کہتے ہوئے سرکاری املاک کا بے دردی سے استعمال کرتے وقت، معاشرتی بد اخلاقیوں پر افسوس کرتے ہوئے سَرِراہ بے ہودگی سے خارش کرتے وقت، مدارس میں دینی تعلیم دیتے دیتے معصوم بچوں سے بد فعلی کرتے وقت، خود کو عورت کا نگہبان قرار دیتے ہوئے اس پر بے رحمانہ تشدد کرتے وقت، اس کے چہرے پر تیزاب پھینکتے، اس کی کردار کشی کرتے اور اپنی ملکیت سمجھتے ہوئے غیرت کے نام پر اس کے ٹکڑے ٹکڑے کرتے وقت نہ تو ہمارے ہاتھ کانپتے ہیں اور نہ ہی دل۔

ہم ایک آزاد قوم ہیں۔ ہر اس احساس سے آزاد جو انسانوں کو مہذب، افرد کو ذمہ دار اور شہریوں کو معاشرے کے لیے مفید بنائے رکھنے کے لیے ضروری ہوتا ہے۔

قومی سطح پر اس اخلاقی بانجھ پن کی دو بنیادی وجوہات ہو سکتی ہیں۔ ایک تو یہ کہ ہمارے تعلیمی اداروں میں بچوں کو بنیادی اخلاقیات اور سماجی آداب سکھانے پر کوئی توجہ ہی نہیں دی جاتی اور دوسرے یہ کہ ہم بحیثیت قوم جھوٹی عظمت کے بلند میناروں سے کبھی نیچے ہی نہیں اترتے۔ یہ دوسری وجہ زیادہ گھمبیر اور اس کا حل زیادہ دقت طلب ہے۔

اگر بنیادی معاشرتی آداب اور رکھ رکھاؤ کی تدریس کو تعلیمی نصاب کا حصہ بنا دیا جائے اور ابتدائی درجوں سے لے کر بڑی جماعتوں تک تمام طلبا کو مسلسل ان آداب کی یاددہانی کرائی جاتی رہے تو چند دہائیوں میں، پڑھے لکھے افراد کی حد تک ہی سہی ہمارے سماجی رویوں میں خوشگوار تبدیلیاں لائی جاسکتی ہے۔

تاہم خود کو دنیا بھر سے بہتر تصور کرنے کی عادت اور اپنے تمام مسائل یا ان کی نشاندہی کو اغیار کی سازشوں کا نتیجہ سمجھنے کا مرض ایک ایسی بیماری ہے جو بہتری کی ہر تدبیر کو غیر موثر بنا دیتی ہے۔ اس مرض کا علاج آگاہی کے فروغ میں پنہاں ہے۔

قومی سطح پر اس حقیقت کو عیاں کرنے کی ضرورت ہے کہ اقوام عالم میں ہماری حیثیت دو ٹکے کی بھی نہیں رہی۔ کسی بھی عالمی درجہ بندی کو چھوڑئیے ہم خود اپنے مقام سے گر چکے ہیں۔ معاشرے میں پائی جانے والی تمام خامیوں کو تسلیم کرتے ہوئے ان پر کھلی بحث کرنے اور اپنی ناکامیوں کو اپنی ہی کوتاہیوں کا نتیجہ مانتے ہوئے انہیں کامیابیوں میں بدلنے کے لیے عملی جدوجہد شروع کرنے کی ضرورت ہے۔

وطنِ عزیز میں بیداریِ شعور کی اس جدوجہد میں سب سے بھاری پتھر فکری بدعنوانی کا شکار وہ ”دانشور“ ہیں جو اپنے کالمز اور دوسری تحریروں کے ذریعے مسلسل گمراہی پھیلانے کا کام کرتے ہیں۔ ہر معاملے پر ان کا تجزیہ ”یہود و ہنود کے گٹھ جوڑ“ کی رٹ سے شروع اور ”اغیار کی سازش“ کے شور پہ ختم ہوتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں عام بدتہذیبی پر مبنی رویے تو درسگاہوں میں سماجی اور اخلاقی تعلیم کی مسلسل فراہمی سے درست ہو سکتے ہیں تاہم انتہا پسندی، ظلم اور خود پسندی جیسے مہلک سماجی رویوں کی مرمت کے لیے ان ”دانشوروں“ کے استدلال کا کھوکھلا پن واضح کرنے کی ضرورت ہے۔

غیرت کے نام پر قتل کی ظالمانہ روش کے خلاف کوئی دستاویزی فلم بن جائے تو یہ طبقہ اسے ملک کو بدنام کرنے کی سازش قرار دیتا ہے۔ مرض کی تشخیص مریض کی صحت کے اہم ترین مرحلہ ہوتی ہے، تاہم شرم وحیا سے عاری ان ”دانشوروں“ کی دلیل کی روشنی میں اسے مریض کو بدنام کرنے کی ایک کوشش سمجھنا چاہیے۔

آپ ملک میں خواتین پر گھریلو تشدد اور ان کے چہروں پر تیزاب پھینکنے کے افسوسناک واقعات کے خلاف آواز اٹھائیں۔ یہ امریکہ اور یورپ میں خواتین پر تشدد اور تیزاب پھینکنے کے واقعات لے کر بیٹھ جائیں گے۔ قوم کی ایک بیٹی طالبان جیسے غنڈوں کے سامنے ڈٹ جائے تو بنجر سوچ کا حامل یہ طبقہ اس بچی کے وجود کو ہی ملکی بدنامی کا باعث قرار دے دیتا ہے۔

ان کی سوچ کا بیہودہ پن ملاحظہ ہو کہ دہشت گردوں کو تو یہ لوگ اپنا ناراض بھائی قرار دیتے نہ تھکتے تھے لیکن لیکن جیسے ہی کسی نے سچ کو سچ، جھوٹ کو جھوٹ اور دہشت گردوں کو دہشت گرد کہہ کر پکارنا شروع کیا ان کے تئیں ملک کی بدنامی کا سلسلہ شروع ہو گیا۔

ذہنی طور پر کنگال ”دانشوروں“ کے خیال میں ایسے واقعات کے خلاف آواز اٹھانے سے ان کی تشہیر اور ملک کی بدنامی ہوتی ہے اور چونکہ اس سارے عمل کے پیچھے اصلاحِ احوال کی نیت کی بجائے مغربی سازشیں کارفرما ہوتی ہیں لہذا خود مغربی ممالک میں ہونے والی قانون شکنیوں کی تشہیر کرکے اس ”سازش“ کا توڑ کیا جا سکتا ہے۔

یعنی گندگی کو زمین پر بچھی دری کے نیچے اکٹھا کرتے جاؤ۔ گھر محلے میں سب سے صاف دِکھے گا۔

اس سوچ کے بودے پن کو سمجھنے کے لیے کسی بیدار مغز انسان کو شاید کسی دلیل کی بھی ضرورت نہ ہو۔ لیکن چونکہ وطن عزیز میں جس کا مغز بیدار ہوجائے اس کے ”غدار“ ہو جانے کے امکانات بہت بڑھ جاتے ہیں لہذا باقی رہ جانے والے محب وطن انہی ”سازشی تھیوریوں“ کو قبولیت بخشتے آئے ہیں۔ یہی ہمارا المیہ ہے اور اب اسی المیے کو ہم نے شکست دینی ہے، اپنے اندر کے کھوکھلے پن کو دور کرنا ہے اور حقائق کی دنیا میں سر اٹھا کی جینے کی کوششیں کرنی ہیں۔

شاہد وفا

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

شاہد وفا

شاہد وفا ایک براڈکاسٹ جرنلسٹ اور لکھاری ہیں۔ معاشرے میں تنقیدی سوچ اور شعور اجاگر کرنا چاہتے ہیں اس لیے معاشرتی ممنوعات کو چیلنج کرنے، جمود توڑنے اور سماجی منافقت کو بے نقاب کرنے کے لیے باقاعدگی سے لکھتے ہیں۔

shahid-wafa has 31 posts and counting.See all posts by shahid-wafa