الزائمر کی المناک بیماری: جب جسم موجود اور تعلق منقطع ہو جاتا ہے


اگر مجھ سے کوئی پوچھے کہ میری زندگی کا سب سے بڑا خوف کیا ہے؟

وہ کون سا لمحہ ہے جس کے سامنے اچانک اور فوری موت خوبصورت دکھائی دیتی ہے۔

تو میں کہوں گی میں خوفزدہ ہوں اس دن سے جب میں اپنے آپ کو بھول جاؤں۔ جب میری آنکھوں میں خالی پن ہو، شناسائی کی رمق نہ ہو۔

 میں اس دنیا میں تمام بیتے پل، تمام سنہری دن، تمام دل کے رشتے فراموش کر بیٹھوں۔ جب میرے بچے مجھ سے پوچھیں” امی ! میں کون ہوں”

اور اس وقت میں ایک ایسا پرندہ بن چکی ہوں جو آسمان کی وسعتوں میں گم ہونا چاہتا ہو، ان تمام محبتوں کو جھٹک کے جو کبھی مشام جاں تھیں۔

اس المیے اور اس دردناک انجام کا نام ہے

الزائمر!

ایک ایسی بیماری جو انسان سے اس کی شخصیت چھین لیتی ہے۔ وہ شخص، وہ نہیں رہتا جس کی تابانی دنیا نے دیکھی اور اسیر ہو گئی۔ وہ البیلی ذات جو دنیا کے میلے میں مرکز نگاہ بنی، اور محبتیں سمیٹیں۔ اب وہ الزائمر سے ٹوٹی تو کرچیاں تو کارزار حیات میں بکھریں ہی مگر پیچھے رہ جانے والوں کو بھی زخمی کر گئیں جنہوں نے حتی الامکان کوشش کی کہ کرچییاں جوڑ کے پہچان کو الوداع کہہ جانے والے کی شبیه بنائی جائے۔

بچپن میں ہم الف لیلہ کے جادوگروں کی کہانیاں پڑھتے تھے۔ وہ سب شکار ہو جانے والے جو چشم زدن میں انسان سے توتا چڑیا بن جاتے تھے،  کایا کلپ کی یہ داستان ہمارا سانس روک دیتی تھی اور ہم پہروں روتے تھے کہ ایک اچھا بھلا انسان اپنوں سے جدائی کیسے کاٹے گا عمر بھر!

شاید اس دور کے جادوگروں نے مستقبل میں جھانک رکھا تھا!

الزائمر ایک ایسا زہر ہے جو بیمار اور تیماردار دونوں پیتے ہیں۔ اکھٹے، قطرہ قطرہ اور دونوں کی تکلیف بھی یکساں ہوتی ہے۔ ایک اندھیروں میں ڈوب رہا ہوتا ہے اور دوسرا اسے ڈوبتے دیکھ رہا ہوتا ہے۔

پل پل، لحظه لحظه اور دونوں ہی مجبور۔

ایک رک نہیں سکتا، دوسرا روک نہیں سکتا کہ ابھی تک کوئی علاج دریافت نہیں ہوا۔

ہم نے الزائمر کو بہت قریب سے دیکھا۔ اس کی ہولناکی محسوس کی۔ اپنی ماں کو ریزہ ریزہ بکھرتے دیکھا۔ انہیں اپنے آپ کو بھولتے ہوئے دیکھا۔ یہ ایک ایسا دکھ تھا جو رگ جاں میں روز اترتا تھا اور بے بسی کی کیفیت روح میں پنجے گاڑتی تھی۔

موت اگر ایک دفعہ اور یک لخت ہو جائے تو اس سے بڑی آسانی کوئی ہو نہیں سکتی۔

اور وہ موت جو روز ایک قدم بڑھائے، سانس کی ڈوری قائم رکھے، پر آنکھوں کی روشنی مدھم کرے آہستہ آہستہ، وہ ساتھ میں پیاروں کو بھی مارتی ہے آہستہ آہستہ۔

آج الزائمر کی تکلیف کچھ زیادہ ہے، جب سے اپنی دوست کے والد کی انتہائی تکلیف دہ رخصتی کی خبر سنی ہے ۔ ان پہ بھی الزائمر حملہ آور ہو چکی تھی اور وہ اپنی پہچان گم کر نے کے بعد ایک ایسے خلا میں معلق تھے جہاں زمان و مکان کا تصور مٹ چکا تھا۔ جیسے ایک گمشدہ مسافر کسی اجنبی شہر میں ہر چیز حیرت اور لاتعلقی سے دیکھتا ہے۔ گلی کوچے نا آشنا ہوتے ہیں، سو کسی بھی طرف چل پڑیں، کچھ اندازہ نہیں ہوتا۔

 ایسے ہی کسی لمحے میں وہ گھر والوں کی نظر سے بچ کے نکل کھڑے ہوئے اور پھر واپسی کا رستہ کہیں نہ تھا کہ اب وہ اس دنیا کے مسافر ہی نہ تھے۔ بہت تلاش ہوئی لیکن وہ جا چکے تھے۔ ایک مہینے بعد ان کی جسم کی باقیات کسی سنسان جگہ سے دریافت ہوئیں۔

الزائمر دماغ کے ان حصوں کو سکیڑ کے تباہ کر دیتا ہے جو اپنے پیاروں کو پہچانتا ہے، جو زندگی کو جانتا ہے اور جب وہ حصے ختم ہو جاتے ہیں تو صرف دل دھڑکتا ہے اور سانس کی ڈوری قائم رہتی ہے۔ کھانا پینا حوائج ضروری کا احساس سب ختم، سو بدن تو وہی رہتا ہے جو عمر عزیز بسر کر آیا ہے پر دماغ نوزائیدہ۔

 اور اس داستان کا سب سے المناک باب یہ ہے کہ آج کی سائنس الزائمر کے متعلق کچھ نہیں جانتی۔ کیوں ہوتا ہے؟ کس کو ہوتا ہے؟ علاج کیا ہے؟ بچاؤ کیا ہے؟ ہزاروں تھیوریز ہیں لیکن جواب کس ایک سوال کا بھی نہیں۔

سو اپنی باتیں، اپنی ذات، اپنی شناخت کھونے کا دھڑکا ایسا ہے کہ دل چاہتا ہے، بس آج میں زندہ رہا جائے۔ ہر پل سے خوشی کشید کی جائے۔

جو کرنا ہے، کر ڈالیے۔ جو کہنا ہے، پلیز کہہ ڈالیے اپنے پیاروں سے، کون جانے کل ہو یا نہ ہو ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).