ایک منتخب جمہوری معزول دہشت گرد کی موت


اگر جدید مصر کی تاریخ کے پہلے منتخب معزول صدر محمد مرسی کی موت طبعی ہے تو جنرل ریٹائرڈ و حاضر سروس ریفرینڈمی صدر عبدالفتح السسی کی حکومت کو اقوامِ متحدہ سمیت عالمی تنظیموں اور ترک صدر رجب طیب اردوان کے اس تحقیقاتی مطالبے سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے کہ جیل میں سابق صدر کو کس معیار کی طبی سہولتیں میسر تھیں اور انھیں کون کون سے امراض لاحق تھے کہ وہ اچانک عدالت کے پنجرہ نما کٹہرے میں پٹ سے گر پڑے اور جھٹ سے مر گئے اور گرنے کے بیس منٹ بعد بھی انھیں جیل کے اسپتال روانہ نہیں کیا گیا البتہ جیل کے مردہ خانے میں انھیں نہلایا ضرور گیا۔

اگر کسی سیاسی مجرم کو پھانسی ہو جائے یا گولی مار دی جائے تو سمجھ میں آتا ہے کہ فسادِ خلق کے خوف سے اس کی لاش کو چار ورثا کی موجودگی اور سیکڑوں پولیس والوں کے پہرے میں جلد از جلد سپردِ خاک کر دیا جائے (جیسا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ ہوا ) لیکن اگر سیاسی مجرم کی موت طبعی ہے تو پھر اتنا خوف کیوں کہ لاش کو آبائی قصبے لے جانے اور ورثا کو کفن دفن کی بھی آزادی نہیں دی گئی اور میڈیا کے لیے مرسی کی موت کی خبر صرف چوبیس الفاظ کے سرکاری ٹویٹ پر جاری کی گئی۔

حکم ہوا کہ اس خبر کی ٹویٹ کو اندرونی صفحات پر سنگل کالم میں چھاپا جائے اور نیوز چینلز پر بغیر کسی اضافی تبصرے کے صرف یہی ٹویٹ پڑھا جائے۔ اس کا اثر یہ ہوا کہ ایک نیوز کاسٹر نے پورا ٹویٹ پڑھا اور احتیاطاً یہ تک پڑھ دیا کہ یہ ٹویٹ سام سنگ پر اتنے بج کے اتنے سیکنڈ پر موصول ہوا۔ سوائے رجب طیب اردوان کسی بھی مسلمان رہنما یا حکومت کی جانب سے سوال اٹھانا تو درکنار ایک سابق منتخب صدر کی ”طبعی موت“ پر حرفِ تعزیت تک جاری نہ ہو سکا۔ گویا کوئی سیاسی شخص نہیں قاتل مرا ہو۔

ایک دلیل یہ دی جاتی ہے کہ جتنی بھی انتہا پسند مذہبی، کیمونسٹ یا فاشسٹ تنظیمیں ہیں وہ جمہوری انتخابی سیڑھی استعمال کر کے اندر تو آ جاتی ہیں مگر پھر وہی سیڑھی اوپر کھینچ لیتی ہیں اور فاشسٹ ہتھکنڈے استعمال کر کے مخالفین کو بے دست و پا کر کے یک جماعتی و یک نظریاتی آمریت قائم کر دیتی ہیں۔ لہذا ان پر کڑی نگاہ رکھنے اور سختی سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔ یہ دلیل بظاہر دل کو لگتی بھی ہے مگر دلیل دینے والا بھول جاتا ہے کہ خود اس دلیل کے پیچھے جو سوچ ہے وہ کس قدر فاشسٹ ہے۔

ایک اور بات بھی آج تک پلے نہیں پڑی۔ اگر الجزائر کا اسلامک سالویشن فرنٹ انتہا پسند اور جمہوریت کش تھا تو اسے انیس سو نواسی میں بطور سیاسی جماعت رجسٹر ہونے کی اجازت کیسے ملی، انیس سو نوے کے بلدیاتی انتخابات میں اس کی کامیابی کیسے برداشت ہو گئی اور جب انیس سو بانوے میں وہ پارلیمانی انتخابات کا پہلا مرحلہ جیت گیا تو دوسرا مرحلہ کیوں منسوخ کر کے فرنٹ کو کالعدم قرار دے کر فوج نے ایک بار پھر اپنی گرفت مضبوط کر لی۔ اور پھر کیا ہوا؟ خانہ جنگی، ڈیڑھ لاکھ ہلاکتیں اور آمریت کی ایک اور طویل رات جو اب تک سحر کا پتہ نہیں دے پا رہی۔

مصر میں عرب اسپرنگ کے نتیجے میں دو ہزار گیارہ میں حسنی مبارک کی تیس سالہ آمریت کے خاتمے کے بعد فوج نے ہی عام انتخابات کا راستہ ہموار کیا، کالعدم اخوان المسلمین کو فریڈم اینڈ جسٹس پارٹی کے نام سے انتخابات میں حصہ لینے کی اجازت دی۔ ووٹوں کے ذریعے جون دو ہزار بارہ میں برسرِ اقتدار آنے کا موقع دیا اور ایک برس بعد ہی حکومت مخالف مظاہرے منظم کروا کے تختہ بھی الٹ دیا، منتخب معزول صدر پر قتل، بغاوت اور جاسوسی کی فردِ جرم عائد کی گئی۔ آج اخوان تو کالعدم ہے ہی، وہ جماعتیں بھی کالعدم ہیں جنہوں نے محمد مرسی کی حکومت کے خاتمے کے لیے فوج کی حمایت میں مظاہرے منظم کیے تھے۔ ایسی گھٹن ہے کہ لوگ حسنی مبارک کو اچھے الفاظ میں یاد کرنے لگے ہیں۔

اگر یہ جماعتیں فاشسٹ ہیں تو تیس تیس برس ڈنڈے سے قائم یک جماعتی و یک ادارتی آمریت کیا ہے؟ اگر ان جماعتوں کا جمہوریت پر ایمان نہیں تو آپ خود بیلٹ بکس کے فیصلے کی کتنی عزت کرتے ہیں؟ اور پھر ریاستی نظام میں ہر سطح پر پنجے گاڑنے والی یہی آمریت فتویٰ دیتی ہے کہ کون جمہوریت پسند ہے اور کون فاشسٹ؟ اور پھر یہی آمریت طے کرتی ہے کہ کس کو اقتدار حوالے نہیں کرنا ہے اور کس منتخب حکومت کو فاشسٹ، غدار، جاسوس یا قومی سلامتی کے لیے خطرہ بتا کر برطرف کرنا ہے۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ دراصل ایک فاشسٹ نہیں چاہتا کہ اس کی جگہ کوئی اور فاشسٹ برسرِاقتدار آ جائے۔

مغرب پہلے پہل اس پر ہی خوش ہو جاتا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کم ازکم مغربی جمہوری نظام تو اپنا رہے ہیں۔ لیکن جب ایران میں ڈاکٹر محمد مصدق اسی مغربی پارلیمانی جمہوریت کے اصول کے تحت سن پچاس کی دہائی میں ایران کے وزیرِ اعظم بنے اور انھوں نے عوامی مینڈیٹ کے بل پر تیل کی صنعت کو قومی ملکیت میں لیا اور بادشاہ کے اختیارات پر قدغن لگانے کی کوشش کی تب سے مغرب نے اپنے جمہوری اصول میں ذرا سی تبدیلی کر لی۔ یعنی تیسری دنیا کے لیے صرف مغربی طرزِ جمہوریت اپنانا ہی قابلِ تحسین نہیں۔ اس جمہوریت کا مغرب نواز ہونا بھی ضروری ہے۔ اگر ایسا نہ ہوا تو ہم ایسی بدتمیز جمہوریت پر فوجی، خاندانی آمریت و بادشاہت کو ترجیح دیں گے۔

اس کے بعد سے آپ دیکھیں کہ گھانا کے نکرومہ کے ساتھ کیا ہوا؟ جنوبی افریقہ میں کالی اکثریت کی جمہوری قوت کو جوتوں تلے رکھنے کے لیے گوری اقلیتی حکومت کی کیسے کیسے حمایت کی گئی۔ انڈونیشیا میں کیمونسٹوں کے خوف سے کس طرح سوہارتو کی خونی کرپٹ آمریت کو تیس برس تک گلے لگایا گیا اور سوہارتو کی معزولی کے بعد ہی انڈونیشیا کو جمہوری سورج دیکھنا نصیب ہوا۔ چلی میں مارکسسٹ سلواڈور آیندے بیلٹ بکس کے زور پر ہی تو برسرِ اقتدار آیا تھا۔ تین برس بھی آیندے حکومت امریکا سے برداشت نہیں ہو پائی۔

وینزویلا میں تو اب جا کے حالات قابو سے باہر ہوئے ہیں مگر سب جانتے ہیں کہ ہیوگو شاویز کی منتخب حکومت امریکا کو پیٹ میں رسولی کی طرح محسوس ہوتی رہی۔ جب حماس غزہ میں مغربی جمہوری اصول کے مطابق انتخابات جیت گئی تو ہر کسی نے اسے اسرائیل دشمن قرار دے کر تسلیم کرنے سے انکار کر دیا۔ مگر حماس کو ان انتخابات میں حصہ ہی کیوں لینے دیا گیا؟ کیونکہ کسی پنڈت کو یقین نہیں تھا کہ وہ ایسے جیت جائے گی۔

ترکی میں بھی یہی سب کچھ کئی عشروں تک ہوتا رہا۔ وہ تو اردوان ذرا سخت جان نکلا کہ سروائیو کر گیا۔ ورنہ تو کب کا محمد مرسی بن چکا ہوتا۔

اور پھر جب انھی سیاسی جماعتوں کے بہت سے جذباتی نوجوان جمہوریت کو ایک فراڈ اور ڈھکوسلا سمجھ کے بندوق اٹھا لیتے ہیں تو پھر دہشت گردی کو کچلنے کے نام پر رہی سہی جمہوریت بھی بوٹوں اور بندوق کے دستے تلے کچل دی جاتی ہے۔

مگر ہمیں ان خرافات پر زیادہ دھیان نہیں دینا چاہیے۔ تمام مسلمان ممالک بھائی بھائی ہیں۔ جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ان سب کا اندرونی معاملہ ہے۔ انگشت نمائی سے اتحاد بین المسلمین پر ضرب پڑتی ہے۔ لہذا صرف ان مظالم کی مذمت ہونی چاہیے جو اسرائیلی فلسطینیوں پر کر رہے ہیں یا برمی روہنگیا مسلمانوں پر یا بھارت کشمیریوں پر۔ ہم ایسے تمام ممالک کے مظلوم مسلمانوں کے ساتھ ہیں جن سے ہمارا کوئی اقتصادی و سیاسی و سفارتی مفاد وابستہ نہیں۔
بشکریہ ایکسپریس۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).