چیف جسٹس کی مایوسی اور اسمبلی میں ادھم


چیف جسٹس آف پاکستان آصف سعید خان کھوسہ اپنے پیشرو میاں ثاقب نثار کے برعکس قانونی اورآئینی معاملات کے سوا لب کشائی نہیں کرتے۔ لہٰذا ان کا یہ کہنا کہ عدلیہ کے سوا اچھی خبر نہیں، بہت معنی خیز ہے۔ فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں ماڈل کورٹس کے ججوں سے خطاب میں انہوں نے واضح کیا کہ پارلیمنٹ دیکھیں تو ڈپریشن، چینل بدل کر کرکٹ لگائیں تو مایوسی، معیشت کی خبریں بھی مایوس کن اورعالمی سطح پر بھی بری خبریں مل رہی ہیں۔

پاکستان کے منصف اعلیٰ کے اس تجزیے سے اختلاف نہیں کیا جا سکتا۔ جمہوریت کی گاڑی جس انداز سے اب چل رہی ہے، 2008 ء کے بعد سے اب تک 11 برسوں میں منتخب حکومتوں کے ادوار میں اس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔ لیکن حکمران جماعت تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) ، پیپلزپارٹی اورمتحارب فریقین کو غالبا ً یہ احساس ہو گیا ہے کہ اب بہت ہو گئی ہمیں تھوڑا سا پیچھے ہٹنا چاہیے۔ وزیراعظم عمران خان جو بجا طور پر ناراض تھے کہ بجٹ تقریر جو نوجوان وزیر مملکت برائے ریونیو حماد اظہر نے پڑھی تھی کے دوران اپوزیشن نے شدید ہنگامہ آرائی کی لیکن اس کا یہ علاج نہیں تھا جو انھوں نے کیا یعنی اسی شب قوم سے خطاب کرتے ہوئے اپوزیشن کی ایسی تیسی کر دی۔

بدقسمتی سے گالی گلوچ، فقرے بازی، تمسخر اڑانا ہمارے جسد سیاست کا ہنر بن گیا ہے۔ اپوزیشن کے اس مطالبے پر کہ سابق صدر اور رکن قومی اسمبلی آصف زرداری کے پروڈکشن آرڈر جاری کیے جائیں پر بے جا لیت ولعل کرنے کی بنا پر ہنگامہ آرائی اور محاذ آرائی میں اضافہ ہی ہوتا چلا گیا۔ خان صاحب جو برملا طور پر کہہ چکے تھے کہ حکومت چوروں ڈاکوؤں کو اسمبلی میں آنے کی اجازت نہیں دے گی نے یک دم اپنا فیصلہ تبدیل کر لیا جو کہ خوش آئند ہے کہ جب تک جرم ثابت نہ ہو جائے کسی کو مجرم قرار نہیں دیا جا سکتا اور یہی جمہوریت کا خاصا ہے۔

یہ بھی خوش آئند بات تھی کہ مسلسل تین روز تک اپوزیشن لیڈر شہباز شریف جو شور شرابے کی وجہ سے بجٹ پر خطاب نہیں کر پا رہے تھے بالآخر چوتھے روز معاہدہ طے پایا گیا کہ ایک دوسرے کی تقاریر صبر سے سنی جائیں اور ایسا ہی ہوا۔ میاں شہبازشریف کی طویل تقریر صبر وتحمل سے سنی گئی اور ان کے بعد وزیر توانائی عمر ایوب کی تقریر میں بھی اپوزیشن نے کوئی ہنگامہ آرائی نہیں کی۔ یہ بظاہر اچھا شگون ہے لیکن دوسری طرف بدھ کے روز ہی سینیٹ میں اس قدر ہنگامہ آرائی ہوئی کہ نوبت ہاتھا پائی تک پہنچ گئی اور چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو سارجنٹ ایٹ آرمز کو طلب کرنا پڑا۔

تحریک انصاف کے سینیٹر نعمان وزیر اور جمعیت علمائے اسلام کے سینیٹر مولانا عطاء الرحمن کے درمیان تلخ جملوں کا تبادلہ ہوا اور جب سابق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی مصالحت کے لئے آگے بڑھے تو نعمان وزیر نے ان کا ہاتھ جھٹک دیا، اس دوران ان کے درمیان بھی سخت جملوں کا تبادلہ ہوا۔ مولانا عطاء الرحمن نے یہ کہہ کر کہ وزیراعظم نے قوم سے خطاب میں صحابہ کرام کی توہین کی عمران خان پر حملہ کیا اور نمبر بنانے کے لیے حکومتی جماعت کے سینیٹرز پیپلزپارٹی کے سینیٹرز کو پھینٹا لگانے کو تیار ہو گئے۔

اگرچہ مذہب کی اپنے ڈھب کی تاویل کر کے سیاسی مخالفین کو مطعون کرنا انتہائی غلط ہے لیکن افسوسناک بات یہ ہے کہ سینیٹ جو ایوان بالا کہلاتا ہے اس کے ارکان سے ویسے بھی بہتر رویئے کی توقع کی جاتی ہے، تاہم اس نفسا نفسی کے ماحول میں سب کچھ جائز قرار دیا جاتا ہے۔ جب سے تحریک انصاف ایک فعال اپوزیشن جماعت اور گزشتہ دس ماہ سے اقتدار میں آئی ہے۔ اس رجحان میں اضافہ ہی ہوا ہے۔ یہ کہنا بھی درست نہ ہو گا کہ اس ضمن میں صرف حکمران جماعت ہی ذمہ دار ہے، اپوزیشن بھی کم نہیں۔

عجیب طرفہ تماشا ہے کہ اکا دکا واقعات چھوڑ کر قریبا ً ہر شام جب تینوں فریق مختلف ٹیلی ویژن چینلز کے پروگرامز میں بیٹھتے ہیں تونسبتاً شائستہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے لیکن اسمبلیوں میں تو اودھم مچا رکھا ہے۔ مثال کے طور پر شہبازشریف وزیراعظم عمران خان کو سلیکٹڈ وزیراعظم کہتے نہیں تھکتے اور ان کا نام بھی عمران خان نیازی کے طور پر لیتے ہیں۔ یہ رویہ کہاں تک جائز ہے؟ ۔ اگر خان صاحب اپنے ساتھ نیازی کا لاحقہ نہیں لگاتے تو محض چھیڑ خانی کے لیے ایسا نہیں کرنا چاہیے، نیز اگر وہ سلیکٹڈ وزیراعظم ہیں تو پھر انھیں سلیکٹ کرنے والوں سے گلہ ہونا چاہیے لیکن شہبازشریف یا بلاول بھٹو بھی جائز طور پر کہہ سکتے ہیں کہ حکمران جماعت کی طرف سے ہمیں دن رات چور اچکا اور ڈاکو کہا جاتا ہے حالانکہ ان کے مطابق یہ سب کچھ حکمرانوں کے انتقامی ایجنڈے کا حصہ ہے۔

ایوان اور ٹاک شوز میں تحریک انصاف کے نسبتاً نوآموز وزیر اور ترجمان انتہائی سخت زبان استعمال کرتے ہیں۔ شاید اسی رویئے کی بنا پر یہ ثابت کرنے کے لیے کہ احتساب کا عمل یک طرفہ ہے خان صاحب کی ہمشیرہ کو بھی رگڑا لگایا جاتا ہے۔ اسی طرح مریم نواز کو بھی معاف نہیں کیا جاتا۔ اگلے روز میں یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ مریم نوازکے دائیں بائیں کھڑی خواتین جن میں محترمہ مریم اورنگزیب بھی شامل تھیں کو معاون خصوصی برائے اطلا عات محترمہ فردوس عاشق اعوان نے مسلم لیگ کی حال ہی میں نامزد نائب صدر کی کنیزیں قرار دے دیا۔

وزیر آبی وسائل فیصل واوڈا برملا طور پر یہ دھمکی دے چکے ہیں کہ پانچ ہزار افراد کو پھانسی لگائے بغیر ملک ٹھیک نہیں ہو سکتا۔ مقام شکر ہے کہ اب سیز فائر کے آثار نظر آ رہے ہیں۔ سیاست میں ذاتیات کو لانے کا آغاز پیپلزپارٹی اور مسلم لیگ (ن) کے درمیان 80 اور 90 کی دہائی میں ہوا تھا۔ بعدازاں 2006 ء میں دونوں جماعتوں کے درمیان میثاق جمہوریت پر دستخط کے بعد عمومی طور پر اس قسم کے رویوں کو ترک کر دیا گیا لیکن برادر خورد شہبازشریف بطور وزیراعلیٰ پنجاب مسلسل آصف زرداری کو علی بابا چالیس چوروں کا ٹولہ قرار اور گلیوں میں گھسیٹنے کی دھمکیاں دے کر رگیدتے رہے۔

سیاست میں انتہائی سخت باتیں بھی کہی جاتی ہیں لیکن ذاتیات کو نہیں گھسیٹنا چاہیے اور شائستگی کا دامن نہیں چھوڑنا چاہیے۔ حکمران جماعت کے سینئر اور میچور سیاستدان شاہ محمود قریشی، شفقت محمود، بریگیڈئیر (ر) اعجاز شاہ جو دیگر جماعتوں سے پی ٹی آئی میں آئے ہیں شائستگی کا دامن نہیں چھوڑتے، یہی رویہ وزیراعظم اور ان کے کھلاڑیوں کو بھی اپنانا چاہیے۔ دوسری طرف میاں نواز شریف کو بھی اپنے برادر خورد ’صاحبزادی اور دیگر پارٹی رہنماؤں کو ہدایت کرنی چاہیے کہ وہ ذاتیات پر نہ اتریں۔

ان رویوں کی وجہ سے نہ صرف جمہوریت کمزور ہو رہی ہے بلکہ پورے ملک میں ایک ہذیانی سی کیفیت طاری ہے۔ آنے والے دنوں میں اپوزیشن حکومت کے خلاف اسمبلی کے اندر اور باہر تحریک چلانے کا ارادہ رکھتی ہے۔ جمعرات کو قومی اسمبلی میں جیسا کہ سبکدوش کیے گئے وزیر خزانہ اسد عمر نے کہا کہ محنت کشوں کے لیے مزید اقدامات کی ضرورت ہے، بجٹ میں پنشن 10 سے 15 فیصد اور بڑھائی جائے، محنت کشوں کی ای او بی آئی میں رجسٹریشن کرائی جائے جب کہ گھریلو ملازمین اور بھٹہ مزدوروں کی بھی رجسٹریشن کرائی جانی چاہیے۔

انہوں نے کہا فوری طور پر جی آئی ڈی سی ختم کر کے یوریا کی بوری 400 روپے سستی کرائیں، چینی پر ٹیکس مناسب نہیں اسے واپس لینا چاہیے، خوردنی تیل اور گھی پر عائد ٹیکس بھی واپس لینا چاہیے۔ اس کو بنیاد بنا کر حکومت اور اپوزیشن کو مل بیٹھ کر بجٹ میں ترامیم لانی چاہئیں۔ اسی طرح اگر حکومت کہتی ہے کہ اس کا نیب کی کارروائیوں سے کوئی تعلق نہیں ہے تو کیا وجہ ہے کہ چوبیس گھنٹے اپوزیشن کو مطعون کرنے اور دیوار سے لگانے کی باتیں کی جاتی ہیں۔ اس ضمن میں بھی سیز فائر ہونا چاہیے کیونکہ موجودہ صورتحال میں وطن عزیز مزید نفسا نفسی کا متحمل نہیں ہو سکتا لیکن کون سنتا ہے فغانِ درویش۔
بشکریہ روزنامہ 92۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).