اب قبر بھی عیاشی میں شمار ہوتی ہے


سید قطب شہید بیسویں صدی کے دو تین بڑے مسلم سکالروں میں سے ہیں۔ ان کی تفسیر اور تحریروں نے عرب دنیا میں ایک تہلکہ مچا رکھا تھا۔ مصر کے صدر جمال ناصر کے دور میں اخوان المسلمون کے اس رہنما کو پھانسی کا حکم سنایا گیا۔ پھر جس بے خوفی سے یہ سوٹڈبوٹڈ عالم دین اپنے قدموں پر چل کر فائرنگ اسکواڈ کے سامنے جا کھڑے ہوئے، وہ کچھ اللہ والوں سے ہی خاص ہے۔

                تیرے خوش پوش فقیروں سے وہ ملتے تو سہی                    جو یہ کہتے ہیں وفا پیرہن چاک میں ہے

ہمارے شاعر مشرق کی طرح ہی یورپی درسگاہوں سے فارغ التحصیل یہ سید قطب شہید نئے زمانے کے تقاضے خوب سمجھتے تھے۔ انہوں نے غیر منصفانہ شرح منافع کو سود کی طرح حرام قرار دیا کہ اس سے سوسائٹی اپنا توازن کھو بیٹھتی ہے۔ پچھلے دنوں ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ سید بلال حیدر نے بتایا کہ دو سو کنال اراضی پر بنائی کسی ہاﺅسنگ سوسائٹی سے اوسطاً چھ کروڑ روپے منافع حاصل ہوتا ہے۔ ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کی اس اطلاع کی یوں بھی تصدیق ہوتی ہے کہ چند برس پہلے ایک ہاﺅسنگ سوسائٹی کے مالکان جب پہلے روز لاہور سے گوجرانوالہ سائٹ پر پہنچے تو وہ کرائے کی گاڑیوں پر سوار تھے۔ پھر ان پر غیر معمولی منافع کی شکل میں اللہ کی اتنی برکات نازل ہوتی رہیں کہ آج وہ اندرون ملک ہیلی کاپٹر اور بیرون ملک جہاز پر سفر کرتے ہیں۔ یہ دونوں بیش قیمت سواریاں ان کی ذاتی ملکیت ہیں۔ کئی ممالک میں خریدے گئے محلات اس کے علاوہ ہیں۔

انہوں نے اپنے کاروباری ہنر اور لیاقت سے پانچ مرلہ پلاٹ کی قیمت کو بھی پچیس لاکھ روپوں تک پہنچا دیا ہے۔ اس طرح زمین کم آمدنی والے لوگوں کے نیچے سے ضرور کھسک گئی، لیکن ان کے وارے نیارے ہو گئے۔ غیر منصفانہ شرح منافع پر اٹکے ہوئے سید قطب شہید کے ذہن سے سوسائٹی کا یہ ادنیٰ آمدنی والا طبقہ اوجھل نہیں تھا۔ وہ انہیں بھی اللہ تعالیٰ کی برکات سے محروم رکھنا نہیں چاہتے تھے۔ روٹی، کپڑا اور مکان ایک شہری کا حق ہے۔ ریاست کا فرض ہے کہ وہ اپنے شہریوں کیلئے ان کا بندوبست کرے۔ پھر جیسے ریاست گندم کی قیمت کو کنٹرول میں رکھتی ہے اسی طرح اسے رہائشی پلاٹوں کی قیمت بھی کنٹرول رکھنی چاہئے تاکہ وہ غریب آدمیوں کی پہنچ سے باہر نہ ہو جائے۔ گندم کی قیمت کو اگر اوپن چھوڑ دیا جائے تو قحط بھاگا دوڑا چلا آتا ہے۔ اسی لئے ریاست کو اس پر نظر رکھنی پڑتی ہے۔ زیست بسر کرنے کیلئے ایک چھوٹا سا قطعہ اراضی بھی دانہ گندم کی طرح ضروری ہوتا ہے۔

سید قطب

سرکار اس کے بندوبست کیلئے سبسڈی سمیت کئی طریقے اختیار کر سکتی ہے۔ گوجرانوالہ کی موجودہ ڈپٹی کمشنر محترمہ نائلہ باقر، جو کہ ایک قانون دان ہی کی صاحبزادی ہیں، قانون کی گرد آلود کتابوں میں سے یہ بھولی بسری شق ڈھونڈ کر لائی تھیں کہ ہر ٹاﺅن ڈویلپر کا یہ قانونی فرض ہے کہ وہ اپنی سوسائٹی کے کل رقبے کا بیس فیصد پانچ مرلہ کے پلاٹوں کی شکل میںنفع نقصان کے بغیر سوسائٹی کے نادار، غریب طبقے کو مہیا کرے۔ چند روز اس بات کا خوب چرچا رہا۔ پھر محترمہ نائلہ باقر بھی اسے بھلا بیٹھی ہیں۔ رہے بیچارے عام لوگ، وہ پہلے ہی مرزا غالب کی طرح اس کیفیت میں مبتلا تھے کہ خوشی سے مر نہ جاتے اگر اعتبار ہوتا۔ اب محترمہ آخر کریں بھی توکیا کریں کہ ہمارے کم تنخواہ والے سرکاری افسروں کے ملک میں ایماندارافسروں کی ساری ایمانداری کا بھرم ان ٹاﺅن ڈویلپروں سے شناسائی میں پوشیدہ رہتا ہے۔

ہمارے با اختیار سرکاری افسروں کی سب سے زیادہ قربت انہی مقامی ٹاﺅن ڈویلپروں سے ہوتی ہے۔ ہمارے ہاں تجارت کا اصول یہ ہے۔ ”اللہ اور گاہک سے کم نہیں مانگنا چاہئے “۔ اسطرح غیر معمولی اور غیر منصفانہ شرح منافع کا جواز پیش کیا جاتا ہے۔ اللہ سے بیشک بے حد و حساب مانگ لیجئے کہ اس کے خزانے بھی بے حد و حساب ہیں۔ لیکن جہاں تک کسی عام گاہک کا معاملہ ہے، اس بیچارے کے پلے کیا ہوتا ہے ؟اس سے غیر منصفانہ منافع نہیں لینا چاہئے۔ ورنہ سوسائٹی عدم توازن کا شکاررہتی ہے۔ امن و امان کے معاملات بگڑ جاتے ہیں۔ پھر پوری سوسائٹی اس بد امنی سے متاثر ہوئے بغیر نہیں رہ سکتی۔

حسن البنا

ہماری سوسائٹی میں قانون شکنی اور ٹیکس نہ دینے کا رحجان ایک عام عادت ہے۔ ہمارے ٹاﺅن ڈویلپرز بھی کسی دوسرے سیارے سے آئی ہوئی مخلوق نہیں۔ وہ بھی قانون شکنی اور سرکاری واجبات ادا نہ کرنے کے ہماری سوسائٹی کے اسی عام رحجان کے عادی ہوتے ہیں۔ پچھلے دنوں سیالکوٹ میں غیر قانونی رہائشی سکیموں کے خلاف آپریشن کیا گیا۔ وہاں 144رہائشی سکیموں میں سے 53بالکل غیر قانونی پائی گئیں۔ ان رہائشی کالونیوں نے نہ ہی کوئی سرکاری فیس جمع کروائی تھی اور نہ ہی قانون کے مطابق قبرستان، مساجد اور پارکس کیلئے کوئی جگہ چھوڑی تھی۔ ان سوسائٹیوں کے دفاتر اور چار دیواریاں مسمار کر دی گئیں۔ اس آپریشن کے بعد ان کی جانب سے اخبارات میں ایک کوارٹر پیج کا معذرت خواہانہ سا اشتہار شائع ہوا۔ ان کا مطالبہ ہے کہ جو ہوا سو ہوا، اب ان غیر قانونی معاملات پر مٹی ڈال دی جائے۔

پارک، قبرستان اور مساجد کے بغیر بنائی گئی ان ہاﺅسنگ سوسائٹیوں کو تھوڑا بہت جرمانہ لے کر ریگولرائز کر دیا جائے۔ آصف زرداری کا موقف بھی ان سے بہت ملتا جلتا ہے۔ وہ کہہ رہے ہیں۔ ”صاحب بہت ہو گیا، اب حساب کتاب اور پکڑ دھکڑ بند ہونی چاہئے “۔ عوام بیچارے سوچ رہے ہیں کہ اگر مٹی پاﺅ سکیم کے تحت سیاستدانوں اور ٹاﺅن ڈویلپروں کو عام معافی ہی دی جانی ہے تو عوام بیچاروں کو بھی اسی مٹی پاﺅ سکیم کے تحت زندہ دفن کر دیا جائے تاکہ انہیں بھی سارے دکھ دردوں سے عام معافی مل جائے۔ ویسے بھی آجکل عام آدمی کیلئے قبر کی جگہ بھی عیاشی میں شمار ہونے لگی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).