اس لڑکی کو اپنے جسم سے نفرت تھی


وہ میرے سامنے تھی۔ دبلی پتلی سی، لمبے قد کی لڑکی، اس کے چہرے کے نقوش بہت دلکش تھے لیکن اس کی آنکھوں میں ایک بے نام سی اداسی تھی۔ وہ کاٹن کے سادہ سے شلوار قمیص میں ملبوس تھی، دُپٹا سینے پر پھیلا ہوا تھا اور لمبے براؤن بال اس کے کندھوں پر لہرا رہے تھے۔

” بہت خوب، آپ نے عورت کے جسم کو انتہائی منفرد زاویوں سے جس انداز میں پینٹ کیا ہے وہ آپ کے تخلیقی ذہن کا آئینہ دار ہے۔” میں نے ستائش کے لہجے میں کہا۔ اس نے چونک کر مجھے گہری نظروں سے دیکھا۔

“مجھے اتنی مشکل باتیں سمجھ میں نہیں آتیں بہرحال تعریف کے لیے شکریہ۔” اس نے بے تاثر لہجے میں کہا۔

میرے دل میں ایک لہر سی اٹھی۔ یہ کوئی عام لڑکی نہیں ہے۔ یقیناً اس میں کوئی خاص بات ہے۔ میں اس کے بارے میں کچھ نہیں جانتا تھا لیکن میں اسے جاننا چاہتا تھا۔ اجنبیت کی دیواریں میرے راستے میں حائل تھیں۔ میں نے اپنا تعارف کرایا، میں اس سے زیادہ دیر گفتگو نہ کر سکا کیوں کہ بہت سے لوگ اس سے بات کرنا چاہتے تھے۔ دراصل اس شام اس لڑکی کی تصویروں کی اولین نمائش تھی۔ اس نے اس نمائش کا عنوان ‘جسم’ رکھا تھا۔ تصویریں دیکھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ جسم سے مراد نسوانی جسم تھا کیوں کہ سب تصویریں خواتین کی تھیں۔

میں دوبارہ ہال میں لگائی گئی تصویروں کی طرف متوجہ ہوا۔ میں چاہتا تھا کہ رش کم ہو تو میں اس سے دوبارہ بات کروں۔ میں جس تصویر کو دیکھ رہا تھا وہ ایک فربہ لڑکی کی تصویر تھی جس کے سفید کپڑوں پر خون کے دھبے تھے۔ یہ دھبے اس کے جسم کے زیریں حصے میں تھے۔ اس سے آگے ایک سمندرمیں پتھر پھینکتے ہوئے لڑکی کی تصویر تھی جو سلیولیس ٹی شرٹ پہنے ہوئے تھی، زاویہ ایسا تھا کہ اس کی بغل کے بال دکھائی دے رہے تھے۔ اس کے بعد جو تصویر میری توجہ کا مرکز بنی اس میں ایک لڑکی اپنی پسلیوں پر ٹیٹو بنوا رہی تھی۔ ٹیٹو تقریباً مکمل ہو چکا تھا۔ یہ ٹیٹو جنسی حملے کےخلاف چند الفاظ پر مشتمل تھا جو انگریزی زبان میں تحریر کیے گئے تھے۔

نہ جانے کتنا وقت گزرا تھا، میری محویت ٹوٹی تو ہال میں ایک دو افراد ہی رہ گئے تھے۔ میں اس مصورہ کو ڈھونڈنے لگا وہ جلد ہی مل گئی لیکن وہ جا رہی تھی۔ میری درخوست پر اس نے کچھ دیر رکنے پر آمادگی ظاہر کر دی پھر کافی پیتے ہوئے اس سے دیر تک بات چیت جاری رہی۔ اس کا نام انیتا تھا۔ رخصت ہوتے وقت میں نے اس سے دوبارہ ملاقات کا وعدہ لے لیا تھا۔

اس کے بعد ہماری دو تین ملاقاتیں ہوئیں جو خاصی مختصر تھیں۔ اگرچہ میں اس کے بارے میں زیادہ نہ جان سکا تھا لیکن مجھے وہ دوسری لڑکیوں سے بہت مختلف لگتی تھی۔

ایک شام میں نے اسے فون کیا۔ “ہیلو انیتا! کہاں ہو؟”

“میں اپنے فلیٹ میں ہوں۔” اس نے کہا۔

“اگر تم نے ابھی تک کھانا نہیں کھایا تو میں تمہیں لینے آ رہا ہوں۔”

“ٹھیک ہے، آ جاؤ۔” اس نے بلا توقف کہا۔

بیس منٹ بعد میں اس کے فلیٹ کے دروازے کی گھنٹی بجا رہا تھا۔ دروازہ کھلا تو وہ نظر آئی۔ اس نے جینز اور ٹی شرٹ پہنی ہوئی تھی۔

” چلیں ” اس نے میری تنقیدی نگاہوں کو نظرانداز کرتے ہوئے کہا۔

“اگر تم مناسب سمجھتی ہو تو چلتے ہیں۔”

“میرے خیال میں اب خواتین کو اجازت دے دینی چاہیے کہ وہ جو چاہے پہنیں۔ اس بات کی کوئی اہمیت نہیں کہ اس لباس میں ان کا جسم کس حد تک دکھائی دیتا ہے۔” اس نے مجھے دیکھتے ہوئے کہا۔

“شاید وہ وقت جلد آئے گا، جب یہ سب کچھ درست سمجھا جائے گا۔” میں نے سر ہلایا۔

“لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ لوگوں کو چھونے یا جنسی خواہش کے زیراثر دیکھنے کی اجازت دینے کی بات کر رہے ہیں۔” اس کا لہجہ مضبوط تھا۔

میں نے گاڑی کی طرف اشارہ کیا وہ مسکراتے ہوئے آگے بڑھ گئی۔ تھوڑی دیر بعد ہم ایک عمدہ ریسٹورانٹ میں بیٹھے تھے۔ ہم نے کونے والی میز پسند کی تھی تاکہ سکون سے کھانا کھا سکیں۔

” میں نے برسوں اپنے جسم سے نفرت کی ہے۔” انیتا نے چند لمحوں کی خاموشی کے بعد کہا۔

“کیا مطلب؟ کیا کوئی اپنے جسم سے نفرت کر سکتا ہے؟”

“میں نے کی ہے اور بڑی شدت سے کی ہے۔ تم اندازہ نہیں لگا سکتے یہ بہت خوفناک احساس ہے۔ آپ کو ایسا لگتا ہے جیسے آپ کو ہر چیز سے نفرت ہو۔” اس نے عجیب انداز میں کہا۔

میں خاموشی سے اسے دیکھ رہا تھا۔ میرے لیے یہ حیرت انگیز بات تھی۔

“میں آج دبلی پتلی ہوں لیکن لڑکپن میں کافی فربہ ہوتی تھی۔ پھر جب مجھے اپنے جسم سے نفرت ہوئی تو میں ہر وقت بے چین رہتی تھی، مجھے مہینوں تک بھوک نہیں لگی جس سے میرے وزن میں تیزی سے کمی ہوئی، میں چند مہینوں میں ہی ہڈیوں کا ڈھانچہ بن کر رہ گئی تھی۔”

“لیکن تم اپنے جسم سے نفرت کیوں کرتی تھیں؟”

“کیوں کہ مجھے اپنا جسم بہت استعمال شدہ اور قابلِ نفرت لگتا تھا۔” اس نے بڑے اطمینان سے جواب دیا۔

“کیا تم کھل کر بتانا پسند کرو گی؟” میں نے کہا۔

“کیوں نہیں، میں اب مزید چھپانا نہیں چاہتی، میں اس سوچ کے تحت خاموش نہیں رہنا چاہتی کہ ایسے حساس موضوعات پر بات کرنا درست نہیں ہے۔ کسی بھی جذباتی صدمے کے بعد جب آپ اپنے احساسات کو باہر لاتے ہیں تو خود کو ہلکا پھلکا اور مضبوط محسوس کرتے ہیں۔ زندگی میں آگے بڑھنے کے لیے تیار ہوتے ہیں۔”

” کیا ہوا تھا؟” میں اس کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھ رہا تھا۔

“میں اس وقت محض بارہ سال کی تھی جب میرا ریپ کیا گیا۔ ایک انسان نما درندے نے مجھے جنسی تسکین کا کھلونا سمجھ کر میرے ساتھ جو سلوک کیا اس کے بعد میری اپنے جسم کے بارے میں سوچ متاثر ہوئی اور میں اپنے جسم سے نفرت کرنے لگی۔

“کیا تم اب بھی اپنے جسم سے نفرت کرتی ہو؟”

“نہیں اب میں پھر سے اپنے جسم سے پیار کرنے لگی ہوں لیکن مجھے اس کے لیے ماہرِ نفسیات سے ملنا پڑا۔ کئی سیشن ہوئے۔ مجھے توجہ کی کمی اور دماغ کے زیادہ فعال ہونے کا عارضہ لاحق تھا۔ میں اب بھی ادویات استعمال کرتی ہوں”

میرے دل میں جیسے کوئی کانٹا چبھو رہا تھا۔ وہ بہت معصوم اور پیاری لگ رہی تھی۔ میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔

(آئس لینڈ کی جواں سال گلوکارہ گلووی سے متاثر ہو کر)

Sara Pétursdóttir (stage name Glowie)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).