پنجاب پولیس: مغلیہ دور سے عہد تبدیلی تک


پولیس انگریزی زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب محافظ کے ہیں، فارسی زبان میں پولیس کے ، پاسبان اور عربی میں شرطہ کا لفظ کا استعمال کیا جاتا ہے، پاسبان کا مطلب دربان، چوکیدار، نگہبان اور حفاظت کرنے والے کے ہیں۔

پولیس کو عمومًا بطور سرکاری وکیل جانا جاتا ہے جو قانون کونافذ کرنے اور ضرورت کے مطابق قوت کا استعمال کرتے ہوئے عوامی و سماجی نظم و نسق کو برقرار رکھنے کی ذمہ دار و مختار ہوتی ہے۔ اسی لئے پولیس کو عوام کا محافظ سمجھا جاتا ہے، جس کی ذمہ داری ہے کہ عوام و الناس کی جان و مال کی حفاظت کو ہر ممکن یقینی بنایا جائے۔

مغلیہ سلطنت 1526ء سے 1857ء تک برصغیر پر حکومت کرنے والی ایک مسلم سلطنت تھی۔ سلطنت مغلیہ کی بنیاد ظہیرالدین بابر نے 1526ء میں پہلی جنگ پانی پت کے مقام پر دہلی سلطنت کے آخری سلطان ابراہیم لودھی کو شکست دے کر رکھی تھی۔ مغلیہ سلطنت اپنے عروج میں تقریبا پورے برصغیر پر حکومت کرتی تھی۔ یعنی موجودہ دور کے افغانستان، پاکستان، بھارت اور بنگلادیش پر ان کا ہی سکہ چلتا تھا۔

مغلیہ دور میں بھی عوام کی جان ومال اور اس کی حفاظت کے لئے نظام موجود تھا جس کے مطابق علاقہ کے زمین دار جس کو اس وقت کا علاقے میں بڑا سمجھا جاتا تھا اسی کو ہی علاقے کا محافظ سمجھا جاتا تھا۔ قدیم دور کی روایات کے مطابق آج کل دیہاتوں میں اہل علاقہ کی طرف سے حفاظت کے لئے لگایا گیا ٹھیکری پہرہ مغلیہ دور کی یاد تازہ کرتا ہے۔ عوام کی جان ومال کی حفاظت کا نظام مغلیہ دور کے طور طریقوں سے ہی اخذ کیا گیا ہے۔

برصغیر میں مغلیہ سلطنت کا دور ختم ہوتے ہی برطانوی راج کا آغاز ہوا۔برطانوی راج میں ہی عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لئے 22 مارچ 1861 کو پنجاب کے علاقوں میں پنجاب پولیس کے نام سے پولیس متعارف کروائی گئی۔ جس کا کام عوام کی جان و مال کے ساتھ ساتھ قانون کا نفاذ یقینی بنانا تھا۔

مغلیہ دور کے اختتام کے بعد برطانوی راج میں حکومت برطانیہ نے وقت کے ساتھ ساتھ اپنی پولیس کو بہتر سے بہتر بنایا۔ آج اگر دیکھا جائے تو برطانوی پولیس کا ہر اہلکار مکمل حفاظتی سامان سے لیس اور مکمل طور پر تربیت یافتہ ہوتا ہے۔ مغلیہ دور میں ہی 29 ستمبر 1829 سے قائم میٹرپولیٹن پولیس سروس آج دینا کی رینکنگ میں پہلے نمبر پر جانی جاتی ہے۔ میٹرو پولیٹن پولیس کے برطانیہ میں 180 اسٹیشن قائم ہیں۔ جن میں تیس ہزار آٹھ سو اکتھر اہلکار اور افسران کام کر رہے ہیں۔

1947ء کی تقسیم کے بعد پاکستان کے حصے میں آنے والا پنجاب لاہور، ملتان اور راولپنڈی پر مشتمل تھا جبکہ جالندھر اور دہلی بھارت کے حصے میں رہ گئے تھے۔ اسی لئے یہاں پر قانون کے نفاذ کے لئے پنجاب پولیس کے نام سے آج بھی پولیس موجود ہیں ۔

ایک رپورٹ کے مطابق پنجاب پولیس میں 180000 سے زائد پولیس اہلکار عوام کی جان ومال کی حفاظت کے لئے موجود ہیں، جبکہ 722 پولیس اسٹیشن قائم ہیں۔ جن میں تین ہزار سے زائد خواتین پولیس اہلکار بھی حفاظت کے فرائض سر انجام دے رہی ہیں۔

برطانوی پولیس نے وقت کے ساتھ ترقی کی، اسی لئے دنیا میں پہچانی جاتی ہے لیکن تبدیلی کے اس دور میں بھی پنجاب پولیس اپنی روایتی قانون شکنی سے باہر نہیں آئی۔ پنجاب پولیس کے اہلکار وں کی اخلاقی تربیت نہ ہونے کی وجہ سے پنجاب پولیس کو سب سے زیادہ مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ قانون کے نفاذ کے لئے ضروری ہے کہ اہلکار اور افسران قانونی طور طریقے کو سامنے رکھ کر اپنا کام سر انجام دیں۔

پولیس اہلکار کا دوران ڈیوٹی اپنی سرکاری ٹوپی سے لے کر بوٹ تک مکمل ڈرس اپ ہونا قانون نافذ کرواتے وقت اتنا ہی ضروری ہے جتنا ملک چلانے کے لئے عوام پر قوانین کا ہونا ضروری ہے۔ غیر تربیت یافتہ پولیس اہلکار کے ہاتھوں اپنے سرکاری اسلحہ سے اپنے ہی پیٹی بند بھائی کا خون ہو جاتا ہے۔ تبدیلی کے اس دور میں ایسا نہ ہونا ہی تبدیلی کہلائے گا۔ دھکا اسٹارٹ پولیس کی پرانی گا ڑیاں آج بھی تبدیلی کے دور میں روڈ پر نظر آرہی ہیں ۔ رشوت خور پولیس اہلکار آج بھی پنجاب پولیس کو آگے بڑھنے نہیں دے رہے۔ سفارشی اہلکار چند پیسے ٹکے لگا کر آج بھی کسی کے مخالف پر غیر قانونی پرچے کروا رہے ہیں، تھانوں کے حوالات میں پولیس اہلکاروں کی طرف ملزمان کو گالم گلوچ اور تشدد کا سلسلہ آج بھی جاری ہے۔

اسی لئے آئی جی پنجاب کیپٹن (ر) عارف نواز خان کو ایکشن لینا پڑا اور پنجاب کے تمام تھانوں میں 24 گھنٹوں میں سی سی ٹی وی کیمرے لگانے کا حکم دے دیا، ان کا کہنا تھا کہ شہریوں کو غیر قانونی حراست میں رکھنے یا اختیارات سے تجاوز کرنے والے افسران واہلکار محکمے کا حصہ نہیں ہوں گے۔

سپریم کورٹ آف پاکستان کے سنئر جج جسٹس گلزار احمد نے پولیس کی تنخواہوں کو بڑھانے سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران ریماکس دیے کہ “زیادہ تر پولیس اہلکار رات کو ڈکیتیاں کرتے ہیں، پورے ملک میں پولیس کا نظام فلاپ ہو چکا ہے، پولیس نام کی کوئی چیز نہیں، ملک میں ڈکیتیاں ہو رہی ہیں، لوگ ایک دوسرے کے گلے کاٹ رہے ہیں، پولیس کہاں ہے؟“

 پولیس کو 8787 پر مجبور ہو کر کال کرنے والا شہری آج بھی اپنے بیلنس کا زیاں ہی سمجھ رہا ہے۔ پولیس اہلکاروں کو عوام پر قانون نافذ کروانے کے لئے قانونی اختیار تو دے دیا جاتا ہے لیکن آج بھی پولیس اہلکاروں کو قانونی سوچ اور اس پر عملدرآمد کی سمجھ نہیں۔ قانون کے نفاذ کے دوران پولیس اہلکاروں کے رویوں میں تبدیلی ضروری ہے۔

پنجاب میں عوام الناس پر قانون نافذ کروانے کےلے پنجاب پولیس اپنا ایک اہم مقام رکھتی ہے۔ قانون نافذ کروانے والے اداروں کو چاہیے کہ ایک پولیس اہلکار کو اس وقت ہی قانون نافذ کرنے کے لئے عوام کے درمیان بھیجا جائے جب وہ خود بھی قانون پر مکمل عمل درآمد کرتا ہو،

 2018  کے الیکشن کے بعد سے تبدیلی پنجاب پولیس کے لئے سو فیصد تنخواوں میں تو آ گئی ہے لیکن عملی طور پر آنا باقی ہے اس طرح تبدیلی کے دور میں پنجاب پولیس کو بھی اس کی سوچ کے ساتھ ساتھ وسائل سے لیس ہو کے عوام کے درمیان بھیجا جائے۔ پولیس اہلکاروں کے لئے ضروری ہے کہ وہ اپنے لب و لہجے میں بھی تبدیلی لائیں تاکہ عوام پولیس سے ڈرنے کی بجائے قانون پر عملداری کو اپنا شعار بنائیں۔ ورنہ پنجاب پولیس کا دنیا کی رینکنگ میں شامل ہونا خواب ہی رہ جائے گا۔

سید اظہار باقر

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید اظہار باقر

سید اظہار باقر ترمذی نے انگیزی ادب کی تعلیم پائی ہے۔ سماجی مسائل پر بلاگ لکھتے ہیں ۔ ان سے سماجی رابطے کی ویپ سائٹ ٹوٹر پر @Izhaar_Tirmizi نیز https://www.facebook.com/stirmize پر رابطہ کیا جا سکتا ہے۔

syed-izhar-baqir has 11 posts and counting.See all posts by syed-izhar-baqir