مظہر بودلہ کا مظلوم دوست اور عورت گردی کا افسانہ


مظہر حسین بودلہ صاحب کا کالم پڑھا اور یقین مانیے، غصے کی بجائے ہنسی آئی۔ اور اتنی زور سے آئی کہ پاس بیٹھی بیٹی اچھل پڑی کہ آخر ماں نے کیا لطیفہ پڑھ لیا۔

آرٹیکل میں لکھے الفاظ فریم کروا کے گھر میں ٹانگنے کے قابل ہیں اور نوجوان طلاق شدہ دولہا کے ساتھ ہماری پوری ہمدردیاں ہیں۔ بےچارے کے نشیمن پہ فورا ہی بجلی گر پڑی، تاج محل زمین بوس ہو گیا، ارمانوں پہ اوس پڑ گئی اور شیخ چلی کے خواب دھرے کے دھرے رہ گئے۔

اب دیکھیے نا پورے حساب کتاب کے بعد شادی کی تھی کہ دلہن تو ملے گی ہی، گھر کے کام کاج اور پکا پکایا کھانا بھی ہو گا۔ اگر چہ دلہن بھی کام سے واپس آئیں گی مگر گربہ کشتن روز اول کے مصداق پہلے مہینے میں ہی دولہا کے نخرے برداشت کرنے کی عاوت ڈال دی جائے تو خوب مناسب ہو گا۔ ساتھ ہی ساتھ دلہن کی تنخواہ کا مزا بھی، یعنی ایک ٹکٹ میں دو نہیں بلکہ کئی مزے۔

اور ہمارے لئے مزے کی بات یہ ہے کہ دولہا میاں کو ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کی اس قدر جلدی تھی کہ ایک مہینے میں ہی نئی نئی شادی کا سب نشہ ہرن ہو گیا۔ ایک ہی ماہ میں نئی نویلی دلہن سے گھر کا آرام مانگ لیا گیا۔ ایک ہی ماہ میں گھر کے بل کھٹکنے لگے۔ ایک ہی ماہ میں دلہن کی تنخواہ کا حساب کتاب کر لیا گیا۔ ایک ماہ میں ہی رشتے داروں کے سامنے جھگڑے شروع ہو گئے اور ایک ماہ میں ہی اس ڈرامے کا ڈراپ سین ہو گیا۔

ایک ماہ کی شادی اور سارے مراحل طے !

بات کچھ سمجھ نہیں آئی۔ ایک ماہ میں تو نیا ملازم رکھا جائے تو نہ اس کو پتہ چلتا ہے کہ مالک کا مدعا کیا ہے اور نہ ہی مالک کو اندازہ ہو پاتا ہے کہ امور خانہ داری کس ڈھب سے چل رہے ہیں۔ یہاں خانہ داری سے لے کے لین دین اور خلوت و جلوت سب رخ روشن کی طرح عیاں ہو گئے اور وہ بھی صرف تیس دن اور تیس راتوں میں۔ واہ دولہا میاں واہ !

ویسے دولہا میاں کوڑی دور کی لائے پڑھی لکھی کماؤ لڑکی سے بیاہ کرنے کی۔ اور ہمارا مشاہدہ ہے کہ یہ خواب آج کل کافی لوگوں کی بے خواب راتوں کی پرائرٹی لسٹ پہ ہے، یعنی ٹرینڈ ہے۔

مگر مشکل یہ ہے کہ یہ سب دیوانے شوقین تو ہیں مفت کی دھن دولت کے ساتھ زندگی کے مزے لوٹنے کے لیکن ساتھ میں اپنے منصب اعلیٰ یعنی مجازی خدا کے مرتبے پہ بھی فائز رہنا چاہتے ہیں۔

ان کو ایک ایسا پیکج چاہیے جو مزے تو ورکنگ بیوی والے کروائے اور ساتھ میں ایسی دوشیزہ ہو جو مشرقی مرد کے ناز نخرے بھی اٹھا سکے۔ نوکری کے بعد وہ جب ہانپتی کانپتی گھر پہنچے تو ان کے پاؤں سے جوتے اتارے اور حس شامہ کو نظر انداز کرتے ہوئے بدبو دار موزوں پہ بھی الفت بھری نظر ڈالے کہ موصوف کے ساتھ پڑھوائے گئے دو بول اندھی اور فوری الفت کے متقاضی ہیں۔ ساتھ میں معاشرہ انہیں لونڈی نما بیوی کا درس پڑھا چکا ہے سو ان کی خدمت میں گرم گرم کھانا پیش کرے، اور آخر میں راحت دل و جاں کا اہتمام بھی کہ جذبات کا بھی خیال رکھنا ہے۔ اس سب بیگار میں ورکنگ دلہن بیگم کی تھکاوٹ کا کیا عالم ہے یہ سمجھنا دولہا میاں کا سر درد نہیں۔

مضمون کے بیچ بیچ میں ہلکا سا ذکر ملتا ہے کہ شوہر کی ڈانٹ ڈپٹ یا مزاج کی برہمی تو اس رشتے کے بیچ ہوا ہی کرتی ہے اور اس کی یہ اکڑ تو نر مرد کی شان ہے۔ سو دلہن بیگم کی نوکری اپنی جگہ لیکن ان کا اتنا نخرہ بھی نہیں ہونا چاہیے کہ اتراتی پھریں اور شوہر کے مزاج کے ساتھ اتنی چھوٹی موٹی ایڈجسٹ منٹ بھی نہ کر سکیں۔

موصوف نے یہ بھی فرمایا ہے کہ دیہات کے خاندانوں میں عورت کی حکمرانی ہوا کر تی ہے۔ نہ معلوم کون سا گاؤں دیکھ رکھا ہے؟

یا تو حضرت نے یوٹوپیا بسایا ہوا ہے یا پھر کوئی فرضی جنت جہاں عورتوں کی عملداری اتنی ہے کہ لڑکیاں کاری نہیں ہوتیں، ریپ نہیں ہوتیں، اغوا نہیں ہوتیں، ان کی قرآن سے شادی نہیں ہوتی، عزت کے نام پہ قتل نہیں ہوتیں۔ گاؤں کے وڈیرے اور چوہدری گھر کی عورت کے سامنے چوں نہیں کر سکتے۔ ان کے گھروں کی بیٹیاں بھی ویسے ہی حکومت کرتی ہیں جیسی کہ مائیں۔ بیٹیوں کی قسمت کے فیصلے ان کی مرضی سے ہوتے ہیں۔ جرگوں کی جرات نہیں ہوتی کہ کسی مختاراں مائی کو گلیوں میں رسوا کریں۔

بھئی، اگلی دفعہ پاکستان آئی تو ایسا گاؤں ضرور دیکھوں گی، بس مجھے ذرا محل وقوع بتا دیجئے گا۔

چلیے، آپ کو کام کرنے والی عورتوں کے کچھ قصے سناتے ہیں کہ اسی قبیلے سے تعلق ہے۔ معاشرے کی اعلیٰ تعلیم یافتہ یعنی ڈاکٹر عورتوں کی کچھ کہانیاں۔

ایک ڈاکٹر، یورپ کے ایک ملک میں کنسلٹنٹ، میاں کا کسی اور پروفیشن سے تعلق اور ان کی تنخواہ بیگم سے کم تھی۔ شوہر صاحب کی خواہش تھی کہ بیگم اپنا اکاؤنٹ علیحدہ سے نہیں کھولیں اور ان کی تنخواہ شوہر کے اکاؤنٹ میں جائے۔ کچھ اجارہ داری کا مسئلہ تھا۔ سو ڈاکٹر بےچاری نے چپقلش کھڑی کرنے کی بجائے منظور کیا۔ مزے کی بات یہ ہے کہ سالہا سال وہ اپنے کمائے ہوئے پیسے اپنی ذات پہ بھی اجازت کے بنا خرچ نہیں کر سکتیں۔ شوہر صاحب نے پچاس یورو ماہانہ کا جیب خرچ باندھ رکھا ہے۔

ایک اور ڈاکٹر ہیں، ان کو اپنا اکاؤنٹ کھلوانے کی اجازت تو مل گئی مگر وہ اکاؤنٹ آپریٹ نہیں کر سکتیں کہ اے ٹی ایم کارڈ شوہر کی جیب میں اور وہ ٹکے پائی کا حساب رکھنے کے شوقین۔ اگر کبھی کارڈ مانگ لیا جائے تو فورا انا مجروح ہو جا تی ہے اور ڈاکٹر بےچاری کو رعب جمانے اور آنکھیں دکھانے کا طعنہ دیا جاتا ہے۔

ایسی ہی ایک اور ڈاکٹر جو سعودی عرب میں کام کررہی تھیں اور میاں نوکری سے فارغ تھے۔ ہر ویک اینڈ پہ عمرہ کرنے کے بہت شوقین تھے۔ ایسے ہی کسی ویک اینڈ پہ جب وہ ساتھ نہ جا سکیں، شوہر اے ٹی ایم کارڈ جیب میں ڈالے عمرہ کے لئے تشریف لے گئے۔ اور گھر پہ ڈاکٹر کے پاس بچے کا دودھ منگانے تک کے پیسے نہیں تھے۔ شوہر میاں کی واپسی تک ڈاکٹر صاحبہ نے ساتھیوں سے مانگ تانگ کے گزارا کیا۔

چلیں جی اور سنیں۔ ایک ڈاکٹر صاحبہ کو بتا دیا گیا کہ اگر اپنا پروفیشن جاری رکھنا ہے تو اس کی قیمت سب اخراجات کو شئیر کرنا ہے بھلے میاں صاحب کی آمدنی کئی گنا زیادہ ہو۔ اگر یہ نہیں منظور تو گھر بیٹھو، گھرداری کرو جو تمہارا اصل مقام ہے۔ ہمیں کاہے کا فائدہ کہ تمہاری مشقت کا بار برداشت کریں۔

اب ادھر کا حال سنیے، جہاں میاں بھی ڈاکٹر تھےاور دونوں برابر کا کما رہے تھے۔ میاں صاحب کی خواہش تھی کہ بیوی کی تنخواہ کا بھی وہی حساب کتاب رکھیں گے۔ وہ خود اپنے ماں باپ کو پیسےبھیجا کرتے تھےلیکن بیوی کو یہ اجازت نہیں تھی۔ ایک دفعہ بیگم کے والدین ملنے کے لئے آئے تو وہ نہ ان کی خاطر داری کر سکیں اور نہ ہی ان کو کچھ تحفہ خرید کر دے سکیں۔ جس پہ وہ بہت عرصہ رنجیدہ رہیں کہ انہی ماں باپ کی مشقتوں کے صلے میں وہ آج اس قابل تھیں لیکن ان کے میاں یہ دیکھنے سے قاصر تھے۔ ان کے شوہر اپنی ذہین سوچ خود تک ہی محدود نہیں رکھتے تھے بلکہ باقی کے شوہروں کو بھی اپنے ڈھب پہ لا کر اپنی انجمن بنانے کی کوشش میں لگے رہتے تھے تاکہ کہیں سے کوئی اور ان کی بیگم کو بہکا کے بغاوت پہ آمادہ نہ کروا دے۔

ایک اور ڈاکڑ کو جانتے ہیں ہم، جن کے میاں غصے میں اتنے منہ زور اور ہتھ چھٹ ہو جاتے تھے کہ کچھ نہیں دیکھتے تھے کہ ضرب کہاں لگی۔ وہ ان کے دانت توڑ چکے تھے، کان کا پردہ پھاڑ چکے تھے۔ غصہ اترنے پہ ان کے پاس توجیہہ ہوتی کہ ان کے سامنے زبان چلا کے ان کو غصہ دلایا گیا تھا سو سب قصور بیگم کا تھا اور ڈاکٹر صاحبہ بھرم رکھے جا رہی تھیں۔

کچھ ایسے بھی جوڑوں کو ہم جانتے ہیں جن کی بیگمات ڈاکٹر ہیں اور شوہر مناسب نوکری نہ ملنے پہ گھروں میں قیام کرتے ہیں۔ اب آپ یہ نہ سمجھ لیجئے گا کہ ان کے گھروں میں طاقت کا توازن بدل چکا ہے۔ مرد کے لئے مرد ہونے کا لاحقہ ہی تخت و تاج ہے اور وہ سب ورکنگ بیویاں اس صورت حال کے ساتھ نباہ کر رہی ہیں۔

یہ سب اعلی تعلیم یافتہ عورتیں ایسی زندگی گزارنے کا سمجھوتہ کیوں کر لیتی ہیں ؟ اس کا جواب معاشرے کے اس تانے بانے میں ہے جس نے بےنظیر بھٹو جیسی عورت کو گھریلو زندگی میں سر نگوں کر دیا۔ جہاں عورت کے لئے ہر قدم پھونک کے چلنے کا حکم ہے اور جو مرد کو عورت پہ حکمرانی کرنےکے حق کا مانتا بھی ہے اور بڑھاوا بھی دیتا ہے۔

ہماری پچیس سالہ پروفیشنل زندگی کی چند درد بھری کہانیوں کا عکس جنہیں ہم نے قریب سے رستے دیکھا، آئس برگ کی وہ نوک ہے جو دنیا کو نہایت معمولی نظر آتی ہے لیکن طوفانوں کو چھپائے ہوئے ہوتی ہے۔

ان تمام باتوں سے ہمارے معاشرے کے صاحبان لاکھ انکار کریں، عورتوں کے مکر وفریب کی داستانیں ڈھونڈ کے لائیں، لیکن دیکھنا یہ ہو گا کہ تاریخ میں اور روز مرہ کی زندگی میں زیادتی اور حق تلفی کا چلن کس صنف کا خاصہ رہا ہے۔ کس صنف پہ ہونے والے مظالم کی داستانیں صدیوں سے زبان زد عام ہیں اور زبان خلق کو نقارہ خدا سمجھنا ہی چاہیے۔

ہم آپ سے اتنا چاہیں گے کہ خدارا کچھ لمحوں کے لئے اپنے گریبان میں جھانکیے۔ سچ کا سامنا کیجئے، یقیناً معلوم ہو جائے گا کہ ضمیر کا قیدی کون ہے؟

https://www.humsub.com.pk/247170/mazhar-hussain-bodla-8/

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).