عمران خان نے مریم نواز کو لیڈر بنا دیا‎


مریم نواز کی پریس کانفرنس کا لب لباب تو واضح اور سامنے ہے کہ میاں نواز شریف کو علاج کے لئے ملک سے باہر جانے کی اجازت دی جائے۔ اس عاجز نے 6 مئی 2019 کو شائع ہونے والی تحریر میں تفصیل سے عرض کر دیا تھا کہ نواز شریف کا علاج پاکستان میں ممکن تو ہے مگر کسی بھی پیچیدگی کی وجہ سے یہاں کا کوئی ڈاکٹر انہیں ہاتھ لگانے کو تیار نہیں کہ اگر سرجری کے دوران نواز شریف کو کچھ ہو گیا تو وہ ڈاکٹر اور اس کا خاندان کہاں جائے گا۔ کون اس کی بات پر یقین کرے گا کہ قدرتی امر تھا یا ڈاکٹر نے پیسہ لے کر قتل کیا ہے۔ اسی بات کی تصدیق آج مریم نواز نے اپنی گفتگو میں کر دی ہے۔ اب آئیں باقی گفتگو اور لب و لہجہ کی جانب۔ سیاست کے کسی بھی طالب علم کے لئے مریم نواز کا سفر بھرپور دلچسپیاں لئے ہوئے ہے۔ ان کو مستقبل کی قیادت کے لئے ان کے والد نواز شریف نے تیاری شروع کروائی تھی۔ ان کو وزیر اعظم ہاؤس میں بلا کر دفتر دیا جانا، نوجوانوں کی بہبود کا فنڈ ملنا، سوشل میڈیا کی ٹیم کی تیاری اور امریکی دارالحکومت کا دورہ، دنیا کے سامنے ایک طرح سے تعارف تھا۔ یہ اور بات کہ ان کوششوں کو پذیرائی تو کیا ملتی الٹا سیاسی نقصان ہو گیا اور ایک ایک کر کے انہیں اٹھائے قدم واپس لینا پڑے۔ نواز شریف سمیت کون جانتا تھا کہ مریم نواز لیڈر تو بنے گی مگر انہیں لیڈر وہ نہیں، کوئی اور بنائے گا، کچھ اور ہو گا جو مریم کو لیڈر بنائے گا۔

آج مریم نواز لیڈر بننے کے راستے پر پہلا قدم رکھ چکی۔ آج کی پریس کانفرنس میں وہ پہلی مرتبہ بادشاہ کی لاڈلی شہزادی کے بجائے ایک دلیر اور نڈر انسان لگیں جس نے ریڈ لائین کراس کر دی۔ اس نے آج بتایا کہ نواز شریف اور مجھے بہت کچھ پتہ ہے جس کو بتانے میں صرف پانچ منٹ لگیں گے، یہ کہ اگر نواز شریف کو کچھ ہوا تو صرف عمران خان نہیں، وہ سب لوگ اس کے ذمہ دار ہوں گے جو اس شامل ہیں۔ سب جانتے ہیں مخاطب کون ہے۔ اس نے کہا کہ چند لوگ قومی اداروں کو سیاست میں لا کر ملک پر ظلم کرتے ہیں، سب جانتے ہیں اشارہ کن کی جانب تھا۔ اس نے کہا کہ یہ جعلی حکومت ہے اس سے کیا این آر او مانگنا، صاف ظاہر ہے کہ اس کا مطلب کیا ہے۔ اپنے چچا شہباز شریف کی پالیسی سے متعلق سوالوں کا جواب اس نے نپے تلے انداز میں بہت مہارت سے دیا۔ تند و تیز سوالوں سے آج وہ گھبرائی نہیں الٹا اس نے صحافیوں سے سوالات کر کے ان کو خاموش کروا دیا۔

بے شک انسان کی نظر محدود اور اندازے ناپختہ ہیں اور قدرت کے قانون اٹل۔ انسان کو امارت، لاڈ پیار، طاقت، محلات، نوکر چاکر اور دوستوں، خوشامدیوں کا ساتھ اور حوصلہ افزائی مل کر بھی کندن نہیں بنا سکتی، اسے لڑنا نہیں سکھا سکتیں۔ اسے مخالف ہواؤں کا سامنا کرنا نہیں سکھا سکتیں بلکہ اس کا اثر الٹا ہوتا ہے جس کا ثبوت خود مریم نواز ہیں۔ دوسری جانب، تقدیر کا جبر، حالات کی سختی، دوستوں، خوشامدیوں کی بے وفائی اور سب سے بڑھ کے اپنی بے بسی اور تقدیر کے سامنے لاچاری کا احساس جب مصنوعی شان شوکت کے پرخچے اڑاتا ہے تب، انسان کے اندر سے وہ کندن برآمد ہوتا ہے جس کی پہلی جھلک آج مریم نواز نے دکھا دی۔

نواز شریف کو عمران خان اور ان کے ہمنواؤں کا شکریہ ادا کرنا چائیے کہ جن کی وجہ سے ان کا خواب اور خواہش کہ ان کی بیٹی ان کی جگہ سنبھالے پورا ہوتا نظر آ رہا ہے۔ آج مریم نواز نے کھل کر آواز لگا دی ہے، اب یہ فیصلہ کرنے والوں نے کرنا ہے کہ یا تو نواز شریف کو ملک سے باہر بھیج کر مریم نواز کی ممکنہ احتجاجی للکار کو روک لیں اور اپنے لئے ایک اور مصیبت کو ٹال دیں، اس سے مریم نواز کے سیاسی سفر کی رفتار آہستہ بھی ہو جائے گی مدھم بھی۔ دوسری جانب کا رخ کیا تو بہت کچھ کھو سکتا ہے۔ ایک دن ہم سب نے دنیا کو چھوڑنا ہے، فرض کریں آج کی پریس کانفرنس کے بعد نواز شریف کا وقت آن پہنچتا ہے، اور ایسا قدرتی طور پر ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد مریم نواز کہاں کھڑی ہو گی؟

جو نام وہ آج نہیں لے رہی، کیا پھر بھی چپ رہے گی؟ کیا اسے اپنی پارٹی کے لوگ خاموش رہنے دیں گے؟ وہ چپ بھی رہے تو زمانہ خاموش رہے گا؟ شہباز شریف کی حقیقت پسندی، ایسے کسی حادثے کی صورت میں دو لمحوں میں اڑ جائے گی۔ مسلم لیگ کے ووٹر کا مذاق جتنا دل چاہے اڑا لیں کہ وہ تاجر ہے، وہ بزدل ہے وغیرہ۔ مگر یاد رہے کہ ستر کی دہائی کے اختتام تک کراچی کے اردو بولنے والوں کے بارے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ ان سے ایم کیو ایم نکل آئے گی۔ اس کا پس منظر بالکل دوسرا تھا یہاں اور ہے مگر یہ مماثلت تو ہے نہ کہ ایک امن پسند کمیونٹی ہتھیار اٹھا کر کھڑی ہو گئی۔ درست ہے کہ جب چاہا، بنا دیا اور جب چاہا ختم بھی کر دیا۔ مگر اس سفر میں کتنے ہزار گھرانے برباد ہوئے، اس حساب کی کوئی قیمت ہم نے ادا کی یا نہیں۔ اس حقیقت کا اعتراف کرنے میں کوئی ہرج نہیں کہ ابھی ہمارے حکومتی اداروں کی ساکھ ہرگز ہرگز ایسی نہیں کہ نواز شریف کے احتساب کو غیر جانبدارانہ تصور کیا جائے۔ اس بات کو نہ ملک کے اندر کوئی مانتا ہے نہ باہر۔

اس بات میں تو اب کسی کو شک نہیں کہ ہماری حالت اچھی نہیں۔ کاروباری آمدنی کے ذرائع کو ٹیکس کے نیٹ ورک میں لانے کی مخالفت کوئی پاگل ہی کرے گا لیکن اس کے لئے جن راستوں کا انتخاب کیا جا رہا ہے وہ مزاحمت پیدا کرے گا۔ اس مزاحمت کو بھی اگر ڈنڈے سے روکنے کا ارادہ ہے تو مزید انتشار پھیلے گا۔ ہر طرف پھیلتی اس بے چینی سے چومکھی لڑائی لڑنے سے بہتر نہیں کہ مزاحمت کے ایک مرکزی مقام کو بے اثر کر دیا جائے۔ نواز شریف اگر ملک سے باہر چلے جانے کو تیار ہیں تو فوراً اس موقع سے فائدہ اٹھا لیں، ہماری تاریخ بتاتی ہے کہ اندھے انتقام کا نتیجہ کیا نکلتا ہے۔

میرا پختہ یقین ہے کہ اگر بھٹو صاحب کو پھانسی نہ دی جاتی اور وہ زندہ رہتے، چاہے جیل میں رہتے، تو بے نظیر بھٹو اس طرح منظر عام پر آتیں اور نہ سیاست میں کامیاب ہوتیں۔

حالات، دوسروں کے ظالمانہ فیصلوں اور تقدیر نے بے نظیر بھٹو کے پاس کوئی اور راستہ چھوڑا ہی نہیں تھا اور پھر جو ہوا، وہ ایک اداس کر دینے والی تاریخ ہے۔ کیا ویسی ہی کوئی تاریخ ہم پنجاب میں دہرانا چاہتے ہیں۔ یہ پیر پرستی کا معاشرہ ہے، ایک خاندان کی حکومت کے جس انداز حکمرانی کے خلاف پی ٹی آئی اٹھی اور مقبولیت حاصل کی تھی، کسی انہونی کی صورت میں یہ سب نہ صرف چوپٹ ہو جائے گا بلکہ شریف خاندان کی آئیندہ نسلوں کی حکومتوں کا مستقبل بندوست ایک طویل عرصہ جان نہیں چھوڑے گا۔

سیاست دان کی طاقت عوام ہوتے ہیں ان کا حساب عوام کو لینے دیں۔ آخر کا چسکہ یہ کہ آج قطر سے ایک مہمان آیا، جس کی گاڑی وزیر اعظم نے خود چلائی۔ اس پر تو کچھ الزام تھے نہ؟ تو پھر عمران خان اس کی گاڑی چلانے کے بعد کیا ہوئے؟ اس مہمان یعنی امیر قطر کا طیارہ پاکستان اترنے سے قبل اس پریس کانفرنس کا اہتمام کیا کوئی اتفاق تھا؟ جو شہزادہ، پانامہ کیس میں نواز شریف کی مدد کے لئے پاکستان کی سپریم کورٹ کو خط لکھ سکتا ہے کیا وہ اس کے بدلے نواز شریف کی رہائی نہیں مانگے گا؟ اگر وہ مانگ بیٹھا تو؟ اپنے ملک میں اس کی سرمایہ کاری ہم مانگ رہے ہیں، وہ نہیں۔ حکمران جماعت، جو کچھ امیر قطر کے بارے میں کہتی رہی ہے کیا وہ اس سے بے خبر ہو گا؟

یہ ایک دلچسپ صورتحال ہے، دیکھیں خان صاحبِ کی زنبیل سے کیا نکلتا ہے، اگر ایک نئے این آر او کے اوپر خان صاحب کو اپنی ہی مہر لگانی پڑی تو؟ کوئی بات نہیں خان صاحب، ایک بار پھر چار چھ دن کے لئے نتھیا گلی کا چکر لگا لیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).