میاں شہباز شریف سے تفصیلی بات چیت


پاکستان مسلم لیگ (ن) کے صدر اور قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف جب سے لندن سے واپس آئے ان سے ملاقات نہیں ہوئی تھی۔ آتے ہی وہ بجٹ اجلاس کے لیے مصروف ہو گئے۔ بہر حال وہ لاہور آئے تو ملاقات ہو گئی۔ میں نے ملتے ہی پوچھا کیوں واپس آگئے ہیں۔ وہ مسکرائے، کہنے لگے کیوں آپ کا خیال ہے مجھے واپس نہیں آنا چاہیے۔ میں نے کہا موسم اچھا نہیں ہے، دوبارہ گرفتاری بھی ہو سکتی ہے۔ آجکل گرفتاریوں کا موسم چل رہا ہے۔ شہباز شریف نے قہقہہ لگایا اور کہنے لگے گرفتار تو پہلے بھی ہوئے ہیں۔ نیب نے ریمانڈ میں بھی رکھا ہے۔

پھر عدالت نے ضمانت دی ہے اور فیصلہ میں لکھا ہے کہ نیب کرپشن کا کوئی الزام ثابت نہیں کر سکا ہے۔ نیب نے ضمانت منسوخی کی درخواست دی ہے جس میں سپریم کورٹ کے جج نے نیب کے وکیل کو کہا ہے کہ انھیں ضمانت منسوخی کے لیے بہت محنت کرنا ہوگی۔ جس کا صاف مطلب ہے کہ میرا کیس بہت مضبوط ہے۔ باقی نیب بادشاہ ہے چاہے تو دوبارہ گرفتار کر لے۔ لیکن کیا اب گرفتاری کے ڈر سے پاکستان چھوڑ جائیں۔ یہ ممکن نہیں۔ میں نے کہا یہاں تو یہی مشہور تھا کہ آپ این آر او لے کر گئے ہیں اب دوبارہ نہیں آئیں گے۔

انھوں نے کہا کیسا این آر او ہے۔ میں بھی گرفتار ہو رہا ہوں۔ حمزہ گرفتار ہے۔ میاں نواز شریف کی ضمانت کی درخواست مسترد ہو رہی ہے۔ خواجہ سعد رفیق کی ضمانت مسترد ہو گئی ہے۔ شاہد خاقان عباسی کو نیب نوٹس مل رہے ہیں۔ میں نے کہا اس سب کے باوجود آپ واپس آگئے ہیں۔ چند ماہ باہر گزار لیتے، طوفان تھم جاتا تو واپس آ جاتے۔ انھوں نے کہا نہیں میں قائد حزب اختلاف ہوں۔ پارٹی کا صدر ہوں۔ کیسے باہر رہ سکتا ہوں۔ ٹیسٹ کروانے تھے۔ اللہ کا شکر ہے سارے ٹیسٹ ٹھیک آگئے ہیں۔

میاں شہباز شریف کے انداز سیاست پر ہمیشہ سے سوالات رہے ہیں۔ ایک عمومی تاثر یہی ہے کہ وہ مفاہمت کی سیاست کرتے ہیں۔ ان کے خیال میں ن لیگ کو مزاحمت کے بجائے راستہ تلاش کر نے کی کوشش کرنی چاہیے۔ یہ وہی شہباز شریف ہیں جو دھاندلی کے تحفظات کے باوجود حکومت کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے تیار تھے۔ لیکن اب شاید یہ وہ شہباز شریف نہیں ہیں۔ ان کے خیال میں حکومت کے ساتھ اب تعاون ممکن نہیں ہے۔ شہباز شریف کے خیال میں حکومت نے اپوزیشن کے ساتھ تعاون کا بہترین وقت محاذ آرائی میں ضایع کر دیا ہے۔

شہباز شریف کے خیال میں آنے والا وقت اچھا نہیں ہو سکتا۔ معاشی بحران سنگین سے سنگین ہو تا جا رہا ہے۔ حکومت کے پاس اس سے نکلنے کا کوئی راستہ نہیں ہے۔ حکومت ایک دلدل میں پھنس چکی ہے۔ میں نے قرضوں کے کمیشن کے بارے میں پوچھا تو انھوں نے کہا کہ احتساب کی طرح یہ بھی ایک مذاق ہے۔ حکومت حساس معاملات پر عاقبت نا اندیشی کا مظاہرہ کر رہی ہے۔ قرضوں کے معاملات بہت حساس ہیں انھیں سیاست کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔

انھوں نے پہلے سی پیک کے بارے میں ایسے بیانات دیے جس سے چین ناراض ہو گیا۔ پہلے کہتے رہے کہ سی پیک میں کرپشن ہوئی۔ بعد میں چپ کر گئے۔ لیکن نقصان تو ہو گیا۔ اب عالمی مالیاتی اداروں کو ناراض کریں گے۔ کل کوئی پاکستان کو قرضہ نہیں دے گا۔ پھر معافیاں مانگتے پھریں گے۔ آپ دیکھیں آئی ایم ایف جانے کے فیصلہ میں تاخیر سے پاکستان کا کتنا نقصان ہوا ہے۔ لیکن اس حکومت کا مسئلہ یہ ہے کہ انھیں پہلے سمجھاؤ تو انھیں سمجھ نہیں آتی۔ اگر کمیشن بنانا ہے تو نیلم جہلم میں تاخیر پر بنائیں۔ پشاور بی آر ٹی پر بنائیں وہ بھی تو قرضہ پر بن رہی ہے۔ لیکن اس پر کوئی سوال نہیں۔ حکومت کی عالمی ساکھ پہلے ہی ختم ہو چکی ہے۔ دوست ممالک ناراض ہو چکے ہیں۔ ایسے میں یہ کمیشن حالات کو مزید خراب کرے گا۔ تا ہم ہم تیار ہیں۔

بجٹ پر میں نے بات چھیڑی تو انھوں نے کہا بجٹ حکومت کے گلے میں پھنس گیا ہے۔ اسی لیے وزارتوں کی لوٹ سیل لگ گئی ہے۔ اتحادیوں نے بھی منہ کھول لیے ہیں اور حکومت بھی لٹا رہی ہے۔ لیکن اس پر کوئی کمیشن نہیں بن سکتا۔ اس پر کوئی سوال نہیں ہو سکتا۔ اس بجٹ کی کیا بات کریں خود حکومت کے ارکان اس بجٹ کے خلاف بول رہے ہیں۔ حکومتی ارکان بھی اس بجٹ کا دفاع کرنے کو تیار نہیں ہیں۔ لیکن حکومت عوام پر ظلم کرنے پر تلی ہوئی ہے۔ اس لیے اس کو کچھ نظر نہیں آرہا۔

میں نے کہا کہ یہ میثاق معیشت کی کیا کہانی ہے۔ بہت شور ہے۔ وہ مسکرائے۔ انھوں نے کہا کہ میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ جب یہ حکومت بر سر اقتدار آئی تھی تو ہم نے اس کو میثاق معیشت کی پیشکش کی تھی۔ لیکن حکومت نے ٹھکرا دی۔ جس پر اسپیکر نے مجھے کہا کہ آپ اب بھی اس کے لیے تیار ہیں۔ تو میں نے کہا بات ہو سکتی ہے۔ تا ہم میں سمجھتا ہوں کہ اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ حکومت معاشی محاذ پر اپنی ناکامیوں کا خود اعتراف کر چکی ہے۔

اسد عمر اور پوری معاشی ٹیم کی چھٹی اس بات کا ثبوت ہے۔ نئی معاشی ٹیم کے بارے میں پوری قوم کی کیا رائے ہے سب کے سامنے ہے۔ لوگ نئی ٹیم کے آنے پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ ایسے میں کیا بات ہو سکتی ہے۔ حکومت نے اپنی حماقتوں سے معاشی بحران پیدا کیا ہے۔ اب اس بحران کی ذمے د اری کیسے اٹھائی جا سکتی ہے۔ وہ اسپیکر کی بات کا ایک جواب تھا۔ اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا۔ جس حکومت کی کوئی معاشی پالیسی ہی نہ ہو۔ اس سے کیا میثاق معیشت کیا جا سکتا ہے۔

میں نے شہباز شریف سے حکومت کے خلاف تحریک اور حکومت کو گرانے کے حوالہ سے بہت سے سوالات کیے ہیں۔ وہ اکثر سوالات کے جواب میں خاموش رہے۔ وہ پیپلزپارٹی کے ساتھ تعلقات پر بھی مجھے محتاط نظر آئے ہیں۔ انھیں صدر اور وزیر اعظم کے انتخاب کے موقع پر پی پی پی کا کردار یاد ہے۔ لیکن پھر بھی وہ پی پی پی کے ساتھ دروازے بند نہیں کرنا چاہتے۔ تا ہم آنکھیں کھلی رکھنا چاہتے ہیں۔ انھیں مولانا فضل الرحمٰن کی اے پی سی سے بھی بہت امیدیں ہیں۔

میں نے پوچھا کہ صادق سنجرانی پر عدم اعتماد میں کیا رکاوٹ ہے۔ وہ کہنے لگے پی پی پی تیار ہے۔ تا ہم اے پی سی میں فیصلہ ہوگا۔ باقی فیصلے بھی اے پی سی میں ہوں گے ۔ ملاقات اپنے اختتام کی جانب تھی میں نے کہا کہ یہ مشکل وقت کب ختم ہوگا۔ وہ مسکرائے اور کہنے لگے زیادہ گزر گیا ہے۔ تھوڑا رہ گیا ہے۔ میں نے کہا اسلام آباد پر چڑھائی کا کوئی ارادہ ہے۔ کہنے لگے ابھی تو مولانا نے اکتوبر میں اسلام آباد پر مارچ کا اعلان کیا ہوا ہے۔ اور کسی جماعت نے ابھی کوئی اعلان نہیں کیا ہے۔ دیکھیں اے پی سی میں کیا بات ہوتی ہے۔ وہیں کوئی فیصلہ ہو سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).