ایک نہ ہونے والی ملاقات کی یادیں


یہ ایک عجب اتفاق ہے کہ ہم پاکستانیوں کی دنیا بھر کے لوگوں سے ملاقات ہوجاتی ہے لیکن مصریوں سے نہیں ہوتی، ہوتی بھی ہے تو کم کم ہوتی ہے۔  میرا تجربہ بھی اس سے مختلف نہیں لیکن محمد مرسی صدر منتخب ہوئے تو یہ خواہش جاگی کہ نہ صرف مصر کے اس بطل جلیل سے ملاقات ہونی چاہیے بلکہ بدلے ہوئے مصر پر ایک نظر بھی ڈالنی چاہیے لیکن حالات کا رخ کچھ ایسا رہا کہ مرسی کے دور میں مصر جانے کا موقع مل سکا اور نہ مرسی سے ملاقات کی کوئی صورت پیدا ہو پائی، یہاں تک کہ وہ پاکستان بھی آئے لیکن ملاقات قسمت میں نہ تھی۔ 2014 ء میں کچھ ایسا ہوا کہ مرسی تو نہیں ایک ایسے مصر سے ملاقات کی صورت پیدا ہوئی جس کے گلی کوچوں، مخلوق خدا کے ذہنوں حتیٰ کہ اہراموں کی تاریک عمودی سرنگوں کے دائیں بائیں بھٹکنے والوں کو مرسی نہیں، مرسی کے اثرات دکھائی دیے۔

وہ رات کا پہلا پہر ہی رہا ہوگا جب ایجپٹ ایئر کے طیارے نے دائرے میں ایک لمبا چکر کاٹنے کے بعد اپنے پاؤں زمین پر ٹکا دیے۔  اسی لمحے طیارے کا کیبن تالیوں سے گونج اٹھا۔  ”اس زندہ دلی کا سبب؟ “۔  میں نے دائیں جانب بیٹھے پڑوسی سے دریافت کیا۔ بیک وقت موٹے دانوں کی تسبیح کو ٹٹولتے اور مختصر فلموں سے لطف اندوز ہوکر زیر لب مسکرانے والے پڑوسی نے حیرت سے میری جانب دیکھا اور بھویں اچکائیں۔  صاف نظر آتاتھا کہ ایسے سوال کی اسے توقع ہرگز نہ تھی۔

صورت حال کچھ ایسی دلچسپ ہوگئی کہ اس کے پڑوس میں بیٹھی ”قلو پیٹرا“ (قلو بطرہ) بھی اس مکالمے میں دلچسپی لینے پر مجبور ہو گئی۔ قلوپیٹراکی ہیئت عجیب تھی، اس کے بال سیاہ، گھونگریالے اور طویل تھے، گلے میں ہاتھی دانت کے چمکتے ہوئے دانوں کی چھوٹی سی مالا تھی جو یقینا اس نے ابوجا کے ہیریٹیج بازار سے خریدی ہوگی۔ مجھے یادآیا کہ جب میں اپنے دوست کے ساتھ اس بازار میں سووینیئرز کی خریداری کے لیے بھاؤ تاؤ کررہا تھا، میرے آس پا س سے جو لوگ گزرے، ان میں شاید یہ بھی رہی ہوگی۔

اس لیے حق مہمان داری استعمال کرتے ہوئے اس نے میری مدد ضروری سمجھی کہ اب تو میں ویسے بھی اس کے دیس میں تھا۔ اس کے چہرے پر یکے بعد دیگرے خفگی اور مسکراہٹ کے تاثرات نہایت تیزی کے ساتھ پھیلے اور سمٹے پھر اس نے پھرتی کے ساتھ پہلو بدلا اورکم فہم پڑوسی کے اوپر سے جھکتے اور مکمل طور پراسے نظراندازکرتے ہوئے مجھے مخاطب کیا اور کہا کہ لینڈنگ، سیف (Safe) لینڈنگ، یا اخی! ۔  اس مختصر سے ایپی سوڈ میں خاصی رومانی سی کیفیت پیدا ہو چکی تھی لیکن لمحے کی چوتھائی میں جیسے ہی اس کی بات ختم ہوئی، سارے رومانس کا بیڑا غرق ہوگیا۔

 یہ جان کر بہرحال خوشی ہوئی کہ اس دیس کے باسی اپنے مہمانوں کوسرد مہری سے نظر انداز نہیں کرتے، خوش اخلاق میزبان کی طرح ان کی رہنمائی کرتے ہیں۔  ایئر پورٹ سے نکلنے کے بعد امیگریشن کے دوران اس خاتون سے ایک بار پھر ٹاکرا ہوگیا۔ قطار اس قدر طویل تھی کہ ہوش اڑ گئے۔  اس مرحلے پر ہمارے میزبان کا اردو بولنے والا مصری ساتھی مدد کوآیا ا ور تھوڑی ہی دیر میں یہ کہتے ہوئے مہر لگے پاسپور ٹ ہمارے حوالے کردیے کہ مصر میں کیا نہیں ہوسکتا؟

 یہ دیکھتے ہوئے قلو پیٹرا نے بھی ہماری طرف امید بھری نگاہوں سے دیکھا تو میں نے درد مند مصری سے درخواست کہ یاصدیق یہ مہربانی بھی کرڈالو۔ وہ اس کا پاسپورٹ لے کر گیا تو مجھے موقع مل گیا اور میں نے اس غیرت ناہید سے سوال کیا کہ بی بی، تمھارا دیس حال میں ایک بڑی تبدیلی سے گزرا ہے، یعنی تم لوگوں نے تاریخ رقم کرتے ہوئے ایک جمہوری صدر کو منتخب کیا اور پھر سال بھر میں ہی اس کا تیاپانچہ کرڈالا، اب کیسا محسوس کرتے ہو؟

 سوال سنتے ہوئے اس خاتون کے چمکتے ہوئے سفید مصری چہرے پر سیاہی کا ایک پھریرا آیا اور گیا۔ اس کی چونچالی جیسے مردہ سی ہوگئی۔ لمحہ بھر وہ خاموش رہی۔ پھر کہاکہ کافی پینی چاہیے۔  یہ کہا اور لپکتی ہوئی ریسٹوران کے کاؤنٹر پر پہنچ گئی۔ کھڑکتے ہوئے برتنوں کے شور اور اس سے بھی اونچا بولنے والے مصریوں کی آوازوں کے درمیان وہ نہایت کمزور سی آواز میں بولی کہ ہم لوگ اجنبیوں سے بات اس طرح کی باتیں نہیں کرتے لیکن تم چوں کہ پاکستانی ہو، اس لیے کہتی ہوں کہ ہم نے خود اپنے ہاتھوں اپنے پاؤں پر کلہاڑی چلا ڈالی۔

 تنگ ذہن مختصر مغربی ملکوں کے اس سے بھی تنگ لباس پسند کرنے والی خاتون کے سراپا پر میں نے حیرت کی نگاہ ڈالی۔  ”تم ایک مذہبی شخص بلکہ بنیاد پرست محمد مُرسی کی حمایت میں بات کررہی ہو؟ “ کیوں اس سے کیا فرق پڑتا ہے؟ اس نے کافی کا بھاری مگ اپنے بلاؤز کی طرح مختصر میز پر رکھتے ہوئے پوچھا۔ میرے پاس اس کے سوال کا کوئی جواب تو نہ تھا، اس لیے کہا کہ بس ایسے ہی پوچھ لیا۔ اس کے مسلسل مسکراتے ہوئے ہونٹو ں پر ایک ہزن آمیز سی مسکرایٹ آئی اور اس نے کہا کہ مصری بھی عجیب ہوتے ہیں، اگر فرعونیت کی طنابیں ڈھیلی ہونے لگیں تو بے چین ہوجاتے ہیں۔

  خوف خود پر مسلط رکھتے ہیں اور اسی کیفیت میں ہمیشہ رہتے ہیں، لہٰذا آزادی کی ہمیں بالکل عادت نہیں، شاید فرعونوں کا جبر ہماری عادت بن چکا۔ گفت گو ابھی جاری تھی کہ ہر کام پلک جھپکنے میں کر ڈالنے والا مصری اس کے پاسپورٹ سے کھیلتا ہوا ہماری طرف بڑھتا دکھائی دیا۔ میں نے وقت ہاتھ سے نکلتا دیکھ کر جلدی سے ایک اور سوا ل کیا کہ مرسی کے انتخاب، اس کی معزولی اور بعد ازاں قید کے واقعات پرمختصر ترین الفاظ میں تمھارا تبصرہ کیا ہوگا؟ کہنے لگی کہ فرعون کی غرقابی کے بعد ہم مصریوں نے پہلی بار آزادی کی فضا میں سانس لی تھی یا پھر انتخاب اور ان کے ذریعے پہلے جمہوری صدر کے انتخاب کے بعد۔ اس کے بعد اس نے نہایت تیزی میں کوئی عربی کہاوت دہرائی، مجھے لگا جیسے مومن خان مومن مرحوم طنزیہ انداز میں کہہ رہے ہیں

پھر بہار آئی، وہی دشت نوردی ہوگی

وہی پاؤں، وہی خار مغیلاں ہوں گے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).