پراپیگنڈہ اچھی گورننس کا متبادل نہیں ہو سکتا


پاکستان تحریک انصاف کی بقا کی جنگ گڈ گورننس یا کارکردگی پر مبنی نہیں ہے۔ یہ گوئبلز کے دو نظریات پر مبنی ہے؛ پہلی یہ کہ اگر آپ کسی چیز کے بارے میں جھوٹ بولیں تو اتنے تسلسل سے بولیں کہ عوام اسے سچ سمجھنے لگیں۔ دوسری یہ کہ اگر آپ اپنے دشمن کو بار بار دیوار کے ساتھ لگاتے رہیں تو ان کے پاس وقت نہیں بچے گا کہ وہ آپ کی ناکامیوں پر توجہ دے سکیں۔ یہی وجہ ہے کہ عمران خان ہر وقت اپنی کامیابی کے بڑے بڑے دعوے اور سیاسی مخالفین کے جرائم پر پکڑنے کی دھمکیاں دیتے نظر آتے ہیں۔

شہزاد اکبر جو وزیر اعظم کے احتساب کے معاون خصوصی ہیں اکثر بڑے بڑے دعوے کر دیتے ہیں لیکن ان میں سے ابھی تک کچھ حقیقی طور پر مثبت نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔ ابھی حال ہی میں انہیں شرمندگی کا سامنا کرنا پڑا جب انہوں نے یہ دعوی کر دیا کہ پی ٹی آئی گورنمنٹ نے برطانوی حکومت سے مجرموں کی حوالگی کے معاہدے پر دستخط کیے ہیں جس کا مقصد یہ ہے کہ ن لیگی رہنما اسحاق ڈار کو جو لندن میں ‘چھپے بیٹھے ہیں’ کو پاکستان واپس لایا جائے گا۔ انہوں نے یہ دعوی بھی کیا کہ برطانوی میجسٹریٹ نے اسحاق ڈار کو کئی کرپشن چارجز پر طلب کیا ہے۔

لیکن دعوے کے ایک دن بعد ہی ایک رپورٹر نے جب برطانوی ہوم منسٹر جیرمی ہنٹ سے پوچھا کہ وہ صورتحال کو واضح کریں۔ مسٹر ہنٹ نے پاکستان کے وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی کی موجودگی میں واضح جواب دیتے ہوئے کہا: ہمارے درمیان ایسا کوئی معاہدہ نہیں ہوا جو سیاسی عزائم کے تحت شہریوں کی ملک بدری کے لیے استعمال کیا جا سکے۔ شاہ محمود جواب میں جیرمی ہنٹ کی بات کی تصدیق کیے بغیر نہ رہ سکے۔ ایسا لگتا ہے کہ اسحاق ڈار کو گھر بیٹھ کر پریشانی میں انگلیاں چٹخانے کی ضرورت بھی نہیں پڑی ہو گی۔ وہ پہلے ہی ہوم آفس کے عہدیداروں سے مل کر حقائق سے آگاہ کر چکے تھے کہ کیسے انہیں اور ان کی پارٹی پی ایم ایل این کے دوسرے عہدیداروں کو سیاسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔

ایسا لگتا ہے کہ پاکستان کے فنانس منسٹر حفیظ شیخ، جو آئی ایم ایف کی طرف تعینات کیے گئے ہیں تا کہ پاکستان کی طرف سے آئی ایم ایف سے مذاکرات کریں، بھی عمران خان سے کندھا ملا کر ان بڑے بڑے دعووں کا شکار ہو چکے ہیں۔ انہوں نے حال ہی میں اعلان کیا کہ ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے پاکستان کو 3اعشاریہ 4 ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے۔ اس جھوٹ پر حیرانی کا اظہار کرتے ہوئے ایشین ڈویلپمنٹ بینک نے اپنے ترجمان کے ذریعے فوری طور پر اس دعوے کی تردید کر دی۔

سب سے بڑا دعوی کرنے کا انعام عمران خان کو جاتا ہے۔ ابھی کچھ عرصہ قبل انہوں نے کراچی سے آئیل اور گیس کے ذخائر کی امید دلائی اور کہا کہ اس سے پاکستان کی غربت ختم ہو جائے گی اور ملک جنت بن جائے گا۔ متعلقہ وزارت اور امریکی ڈرلنگ کمپنی کو یہ دعوی پسند نہیں آیا۔ انہیں ناکامی کا سامنا کرنا پڑا اور بہت جلد وہ اپنی دکان اور کام بند کر کے گھر چلے گئے جب کہ دوسری طرف عمران خان عوام کو دو نفل پڑھ کر دعائیں کرنے کی ترغیب دیتے دکھائی دیے۔

عمران خان اب پاکستان کے لیجنڈری پائیڈ پائیپر بن چکے ہیں۔ انہوں نے دعوی کیا کہ وہ 90 دن میں کرپشن ختم کر دیں گے۔ انہوں نے یہ بھی دعوی کیا کہ ان کے آتے ہی غیر ملک میں مقیم پاکستانی اربوں روپے کا ذر مبادلہ بھیجیں گے اور غیرملکی تاجروں سے اربوں کی انویسٹمنٹ لائیں گے۔ انہوں نے وعدہ کیا کہ وہ 5 ملین غریب پاکستانیوں کو گھر کی دولت سے مالا مال کریں گے۔ انہوں نے کہا کہ وہ کے پی میں ایک ارب درخت لگائیں گے۔ انہوں نے کہا تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے قرض لینے کی بجائے خود کشی کر لیں گے۔ ان کے دعووں اور وعدوں کی لسٹ بہت لمبی ہے۔

پی ٹی آئی کے وزیر فیصل واڈا کو بھی نہیں بھولا جا سکتا جنہوں نے چند دن قبل کہا تھا کہ ان کی حکومت پاکستانیوں کو کچھ ہفتے میں ایک ملین سے زیادہ نوکریاں دے گی۔ اب حکومت نے ایک رپورٹ جاری کی جس میں کہا گیا ہے کہ انڈیا نے پاکستان کی طرف سے مذاکرات کی پیشکش کا مثبت جواب دیا ہے۔ دہلی کا کہنا ہے کہ ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔

شاید نیب کے ذریعے پی پی اور ن لیگ کے خلاف انتقامی کارروائیاں پی ٹی آئی حکومت کی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لیے کافی نہیں تھیں اس لیے پرائم منسٹر نے ایک نئے کمیشن کے قیام کا فیصلہ کیا جو اس بات کی تحقیقات کرے گا کہ قوم پر قرضہ پچھلے دس سال میں اس قدر کیوں بڑھ چکا ہے۔ اس کمیشن کی سربراہ نیب میں بھرتی ایک پولیس آفیسر کریں گے۔ اس میں مختلف گورنمنٹ ایجنسیوں سے لیے گئے افسران جے آئی ٹی کی طرز پر شامل کیے جائیں گے۔ یہ ایک اچھا اقدام ہو سکتا ہے اگر اسے اس تناظر میں دیکھا جائے کہ اس کا تعلق معاشی پالیسی سے ہے لیکن یہ تفاصیل ایک اے لیول کا طالب علم بھی سٹیٹ بینک اور وزارت خزانہ کی طرف سے میسر اعداد و شمار کی مدد سے فراہم کر سکتا ہے۔ اسی طرح ڈاکٹر حفیظ شیخ جو پی ٹی آئی کے فنانس منسٹر ہیں اور مشرف اور زرداری دور حکومت کی ان قرضوں پر مبنی معاشی پالیسیوں کے ذمہ دار تھے وہ عمران خان کو ان پالیسیوں کی لاجک سمجھا سکتے ہیں۔ لیکن نہیں۔ اس کی بجائے وزیر اعظم اسے پی پی اور ن لیگ کا جرم قرار دے کر مجرمانہ کارروائی بنانا چاہتے ہیں۔ اسی وجہ سے مشرف کی ملٹری گورنمنٹ کی پالیسیوں کو اس اقدام میں شامل ہی نہیں کیا گیا۔

کرپشن کے خلاف اس ختم نہ ہونے والی جنگ کے لیڈر جنگجو شہزاد اکبر نے اعلان کیا ہے کہ یہ کمیشن آڈیٹر جنرل آف پاکستان کی مدد سے پی پی اور ن لیگ کے تمام منصوبوں کی تحقیقات کرے گا جن کی وجہ سے ملک کا قرضہ بڑھتا گیا اور اس طرح پی پی اور ن لیگ کے رہنماوں اور ان کی فیملیز کی کرپشن کا پردہ فاش ہو۔ دوسے الفاظ میں یہ کہا جا سکتا ہے کہ اپوزیشن کے خلاف مزید پروپیگنڈہ کرنے کی تیاری ہے۔ یہ حکمت عملی گورننس کا متبادل نہیں ہو سکتی۔ پروپیگنڈہ سے عوام کو نوکریاں، صحت، تعلیم اور گھر کی سہولت نہیں مل سکتی۔ پروپیگنڈہ سے غریبوں کی جیب میں رقم نہیں ڈالی جا سکتی۔ یہ کھلی حقیقت ایک دن پی ٹی آئی کے سامنے آ کھڑی ہو گی اور اس جماعت کو بڑا نقصان پہنچائے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).