کیا عرب دنیا میں مذہب سے دوری بڑھ رہی ہے؟
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ کے اب تک کے سب سے بڑے اور تفصیلی سروے میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ عربوں کی ایک بڑھتی ہوئی تعداد اب خود کو غیر مذہبی قرار دے رہی ہے۔
یہ تحقیق ان کئی مطالعوں میں سے ہے جو کہ جنسی رویوں، تحفظ، ہجرت اور خواتین کے حقوق سے لے کر کئی معاملات پر ان کے خیالات جاننے کے لیے کی گئی۔ بی بی سی نیوز عربی کے لیے عرب بیرومیٹر ریسرچ نیٹ ورک کی جانب سے کی گئی اس تحقیق میں 2018 کے اواخر اور 2019 کے موسمِ بہار کے درمیان 10 ممالک اور فلسطینی علاقوں میں 25 ہزار سے زائد افراد کا انٹرویو کیا گیا۔
ذیل میں سروے کے چند نتائج دیے جا رہے ہیں۔
Since 2013, the number of people across the region identifying as “not religious” has risen from 8% to 13%. The rise is greatest in the under 30s, among whom 18% identify as not religious, according to the research. Only Yemen saw a fall in the category.
سنہ 2013 سے اب تک اس خطے میں خود کو ‘غیر مذہبی’ قرار دینے والے افراد کی تعداد 8 فیصد سے بڑھ کر 13 فیصد ہو گئی ہے۔ تحقیق کے مطابق سب سے زیادہ اضافہ 30 سال سے کم عمر افراد میں دیکھنے میں آیا جن کی 18 فیصد آبادی خود کو غیر مذہبی قرار دیتی ہے۔ صرف یمن ایسا ملک ہے جہاں اس زمرے میں گراوٹ دیکھنے میں آئی ہے۔
خطے کے زیادہ تر افراد نے خواتین کے صدر یا وزیرِ اعظم بننے کے حق کا دفاع کیا۔ صرف الجیریا ہی ایسا ملک تھا جہاں انٹرویو کیے گئے 50 فیصد سے بھی کم لوگوں نے خاتون کے سربراہِ مملکت بننے کے تصور سے اتفاق کیا۔
مگر جب گھریلو زندگی کی بات آئے تو زیادہ تر افراد بشمول خواتین کی ایک بڑی تعداد کا ماننا تھا کہ خاندان کے فیصلوں میں ہمیشہ حتمی فیصلہ مرد کا ہونا چاہیے۔ صرف مراکش ایسا ملک تھا جہاں آدھی سے کم آبادی کا یہ ماننا تھا کہ شوہر کو ہی حتمی فیصلہ ساز ہونا چاہیے۔
ہم جنس پرستی کی قبولیت تبدیل ہوتی رہتی ہے مگر پورے خطے میں کم یا انتہائی کم ہے۔ لبنان، جو کہ اپنے پڑوسیوں کے مقابلے میں سماجی طور پر زیادہ آزاد خیال تصور کیا جاتا ہے، وہاں یہ تعداد 6 فیصد ہے۔
غیرت کے نام پر قتل ایسا قتل ہے جس میں رشتے دار اپنے خاندان کے کسی شخص، عموماً عورت کو خاندان کی بدنامی کی وجہ بننے پر قتل کر دیا جاتا ہے۔
Every place surveyed put Donald Trump’s Middle East policies last when comparing these leaders. By contrast, in seven of the 11 places surveyed, half or more approved of Turkish President Recep Tayyip Erdogan’s approach.
سروے کی گئی ہر جگہ نے ان رہنماؤں کا موازنہ کرتے ہوئے ڈونلڈ ٹرمپ کی پالیسیوں کو سب سے آخر میں رکھا۔ اس کے مقابلے میں سروے کی گئی 11 میں سے سات جگہوں میں نصف یا اس سے زائد نے ترک صدر رجب طیب اردوغان کی حکمتِ عملی سے اتفاق کیا۔
Lebanon, Libya and Egypt ranked Vladimir Putin’s policies ahead of Erdogan’s.
لبنان، لیبیا اور مصر میں روس کے صدر ولادیمیر پوتن کی پالیسیوں کی قبولیت اردوغان کی پالیسیوں کے مقابلے میں زیادہ پائی گئی۔
(کُل تعداد ہمیشہ 100 کے برابر نہیں ہوتی کیونکہ ‘معلوم نہیں’ اور ‘جواب دینے سے انکار کرنے والوں کو شمار نہیں کیا گیا۔)
مشرقِ وسطیٰ اور شمالی افریقہ میں کئی لوگوں کے لیے تحفظ و سلامتی اب بھی لوگوں کے لیے ایک فکر کی بات ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ ان کے ملک کے استحکام اور قومی سلامتی کو کس ملک سے سب سے زیادہ خطرہ ہے، تو اسرائیل کے بعد امریکہ کو خطے میں مجموعی طور پر دوسرا جبکہ ایران کو تیسرا سب سے بڑا خطرہ قرار دیا گیا۔
جن تمام جگہوں پر سوال کیے گئے، وہاں تحقیق سے معلوم ہوا کہ ہر پانچ میں سے ایک شخص ترکِ وطن کے باری میں سوچ رہا ہے۔ سوڈان میں نصف آبادی ایسا سوچتی ہے۔ ترکِ وطن کی وجہ بننے والے عوامل میں اقتصادی وجوہات سرفہرست رہیں۔ امریکہ جانے کے بارے میں سوچ رہے لوگوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور بھلے ہی یورپ پہلے کے مقابلے میں اتنا مقبول نہیں رہا مگر اب بھی یہ خطہ چھوڑنے کے خواہشمند افراد کا اولین انتخاب ہے۔
Methodology
طریقہءِ کار
سروے عرب بیرومیٹر نامی ریسرچ نیٹ ورک کی جانب سے کیا گیا۔ پراجیکٹ میں 10 ممالک اور فلسطینی علاقوں کے 25 ہزار 407 افراد کا دوبدو انٹرویو کیا گیا۔ عرب بیرومیٹر پرنسٹن یونیورسٹی میں قائم ایک ریسرچ نیٹ ورک ہے۔ ان کی جانب سے ایسے سروے 2006 سے کیے جا رہے ہیں۔ ٹیبلٹ پر لیے جانے والی 45 منٹ کے انٹرویوز شرکاء کے ساتھ رازدارانہ جگہوں پر کیے گئے۔
یہ عرب دنیا کی رائے ہے چنانچہ اس میں ایران یا اسرائیل شامل نہیں مگر ان میں فلسطینی علاقے ضرور شامل ہیں۔ خطے کے زیادہ تر ممالک اس میں شامل ہیں مگر کئی خلیجی ممالک نے سروے تک مکمل اور شفاف رسائی دینے سے انکار کر دیا۔ کویت کے نتائج بہت دیر سی آنے کی وجہ سے بی بی سی عربی کی کوریج میں شامل نہ کیے جا سکے۔ شام بھی رسائی میں مشکل کی وجہ سے شامل نہیں کیا جا سکا۔
قانونی اور ثقافتی وجوہات کی بناء پر کچھ ممالک نے کچھ سوالات حذف کردینے کے لیے کہا۔ نتائج شائع کرتے ہوئے ان محدودیات کی واضح نشاندہی کی گئی ہے۔
You can find out more details about the methodology on the Arab Barometer website.
آپ عرب بیرومیٹر کی ویب سائٹ پر اس طریقہءِ کار کے بارے میں مزید جان سکتے ہیں۔
- ’موت کا جزیرہ‘: اینتھریکس کے وہ خفیہ تجربے جن کے لیے برطانوی فوج نے سائنسدانوں کی مدد حاصل کی - 24/04/2024
- جمیلہ علم الہدیٰ: مشکل وقت میں شوہر کے ہمراہ ’گھریلو اخراجات اٹھانے والی‘ ایرانی صدر کی اہلیہ کون ہیں؟ - 23/04/2024
- ’مایوس‘ والدہ کی چیٹ روم میں اپیل جس نے اُن کی پانچ سالہ بیٹی کی جان بچائی - 23/04/2024
Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).