پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک نتیجہ خیز مرحلے میں ہیں


وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے سیاسی وسفارتی حلقوں کی اکثریت وزیراعظم عمران خان کے تہنیتی پیغام پر بھارتی وزیراعظم کے جواب کو مثبت پیشرفت کے طور پر دیکھ رہی ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے جواب میں بنیادی تجویز یہ نکتہ ہے کہ دونوں ممالک کی قیادت کے درمیان اعتماد سازی ہو۔ بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان نے اس ضمن میں کہا ہے کہ ”مسلمہ سفارتی طریقہ کے مطابق بھارتی وزیراعظم اور وزیرخارجہ نے پاکستان کے اپنے ہم مناصب کے تہنیتی پیغامات کا جواب دیا ہے“ ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ ”اپنے پیغامات میں اس امر کو نمایاں کیاکہ بھارت پاکستان سمیت اپنے ہمسایوں کے ساتھ معمول کے اور تعاون پر مبنی تعلقات کا خواہاں ہے۔“ بھارتی وزیراعظم کا کہناہے کہ ”اس مقصد کے حصول کے لئے یہ اہم ہے کہ اعتماد، دہشت، تشدد اور دشمنی سے پاک ماحول پیدا کیاجائے“ ۔

روایتی خیرسگالی اور معمول کے سفارتی پیغامات سے قطع نظر بھارتی وزیراعظم کے جوابی خط میں بنیادی بات یہ تجویز ہے کہ اعتماد، دہشت، تشدد اور دشمنی سے پاک ماحول پیدا کیاجائے۔ یہ تجویز گزشتہ برسوں کے دوران دونوں طرف کے سفارتکاروں اور سیاسی رہنماؤں کے درمیان ہونے والی تجاویز اور متبادل تجاویز کی تاریخ کے پس منظر میں ہے۔ بھارتی وزیراعظم کے خط کے متن میں اول شرط تشدد، دہشت اور دشمنی سے پاک ماحول پیدا کرنا ہے۔ ایسے ممالک جنہوں نے حال ہی میں ایک دوسرے کے علاقوں میں فضائی حملے کیے اور جوابی فضائی کارروائیاں کیں، جنہوں نے ایک دوسرے کے ملک میں دہشت گردی کرانے کے الزامات ایک دوسرے پر عائد کیے ، اس پس منظر میں یہ تجویز بلاوجہ نہیں آئی۔

گزشتہ پندرہ سال کے دوران کئی مرتبہ دونوں ممالک کے درمیان فوجی صورتحال عدم استحکام سے دوچار ہوئی جس کی وجہ بھارتی شہروں میں ”ہلاکت خیز بڑے حملے“ اور اس کی فوج پر دہشت گرد حملے قرارپائے۔ جیساکہ ہم نے گزشتہ دہائی میں دیکھا ہے کہ اس نوع کے ”ہلاکت خیز بڑے حملے“ نہ صرف جہاں یہ رونما ہوئے، وہاں داخلی اثرات مرتب کرنے کا باعث بنے بلکہ ان کے نتیجے میں بین الریاستی تعلقات بھی خاص طورپر متاثر ہوئے۔ ”بھارتی پارلیمان پر ہلاکت خیز بڑے حملے اور 2008 ءمیں ممبئی میں عام شہریوں کی ہلاکت کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان (پہلے 2002 ء اور پھر 2008 میں ) ہم دو مرتبہ خطرناک ترین فوجی کشیدگی دیکھ چکے ہیں۔

دونوں ”ہلاکت خیز بڑے حملوں“ سے پاکستان اور بھارت فوجی تصادم کے دھانے پر پہنچ گئے تھے۔ دونوں اطراف سرحدی فوج کی بڑے پیمانے پر نقل وحرکت شروع ہوئی۔ فوج اور سیاسی قیادت کا سرحد کے دونوں طرف جنگی جنون اور بخارعروج پر تھا۔ بھارت کی طرف سے آوازیں آرہی تھیں کہ ہم پاکستان کو بطور ریاست مفلوج کرکے رکھ دیں گے۔ پاکستان میں کچھ جنونی للکاررہے تھے کہ پاکستان کے پاس وہ قوت ہے کہ بھارتی تہذیب کو ہی صفحہ ہستی سے مٹا کر رکھ دے گی جیسے زمانہ قدیم میں دنیا اس سے ناواقف تھی۔

واشنگٹن سے فوجی حکام اور خفیہ قوتوں کے اسلام آباد اور دہلی میں رابطوں کے نتیجے میں دونوں جانب ٹھنڈے دماغ صورتحال پر غالب آسکے۔ لیکن ”ہلاکت خیز بڑے حملوں“ نے جنوبی ایشیا کی ان دونوں ریاستوں کے درمیان تعلقات پر ایسا گہرا زخم لگایاکہ اس کے جلد بھرجانے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دے رہی تھی۔ کسی بھی بھارتی شہر میں ”ہلاکت خیزبڑا حملہ“ کب کسی نئی فوجی کشیدگی کا موجب بن جائے، ان خدشات نے صورتحال کو مزید بدتر بنادیا۔

اس کی مثال دیتے ہوئے جوہری اور سلامتی کے امور کے امریکی ماہر مائیکل کریپون کہتے ہیں کہ ”ہلاکت خیز بڑے حملے“ کے رونما ہونے کی صورت پاکستان اور بھارت میں کسی تصادم کو مستقبل میں روکنے کی واشگنٹن کی صلاحیت میں نمایاں کمی آئی ہے۔ یہ نکتہ ہمیں ایک بہت ہی نازک سوال کا سامنا کرنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا پاکستانی ریاست یہ صلاحیت رکھتی ہے کہ وہ کسی بھی بھارتی شہر میں ممکنہ طورپر ”ہلاکت خیزبڑے حملے“ کو رونما ہونے سے روک پائے؟

یہ سوال بداعتمادی کے اس ماحول سے جڑا ہے جو ماضی میں بھارتی شہروں میں ہونے والے ”ہلاکت خیزبڑے حملوں“ سے پیدا ہوا جن کے رونما ہوتے ہی بھارتی حکومت اور میڈیا نے اس کا الزام پاکستان سے آنے والے عسکری گروہوں پر لگایاکہ اس کارروائی کو انجام دینے والوں کو مبینہ طورپر پاکستانی انٹیلی جنس میں موجود بے قابو عناصر کی پشت پناہی اور تعاون حاصل تھا۔ ان میں سے ممبئی طرز کے کچھ حملوں کی جڑ پاکستان میں تلاش کی گئی۔

جنوری 2015 ءمیں اس وقت پاکستان میں تعینات بھارت کے ہائی کمشنر ’ڈاکٹر ٹی سی اے راگھوان‘ سے میری گفتگو ہوئی تھی جس میں، میں نے ان سے کھل کر اور دوٹوک انداز میں ان کی رائے پوچھی تھی کہ اگر مستقبل میں سرحد پار ایسا کوئی ہلاکت خیز بڑا حملہ ہوتا ہے تو اس کے علاقائی سلامتی کی صورتحال پر کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان سے مسلسل یہ مطالبہ کیاجارہا تھا کہ حملوں میں ملوث عسکری گروہوں کے خلاف فوری اور ضروری اقدامات کرے۔

بھارتی ہائی کمشنر سے گفتگو میں میری رائے یہ تھی کہ بھارت کا پاکستان سے یہ مطالبہ حقیقت پسندانہ نہیں کہ پاکستان اپنی سرزمین سے بھارتی شہروں میں ہلاکت خیز بڑے حملے رونما ہونے سے روکنا یقینی بنائے۔ اس سے میری مراد یہ تھی کہ گزشتہ دس برس میں پاکستان میں ریاستی مشینری بذات خود اپنے شہروں میں اس نوعیت کے حملے روک نہیں پائی لہذا ایسی صورتحال میں بھارت کا یہ تقاضا غیرحقیقت پسندانہ نہیں تو اور کیا ہے کہ پاکستان بھارتی شہروں میں ایسے حملے ہونے سے روک پائے؟

بھارتی ہائی کمشنر نے اس نقطہ نظر سے اتفاق کرتے ہوئے البتہ اس میں یہ اضافہ کیا کہ پاکستان کو بھارتی قیادت کے ساتھ اعتمادسازی میں اضافہ کرنا ہوگا۔ اعتماد سازی سے شاید ان کا مطلب یہ تھا کہ پاکستان کو بھارتی سیاسی قیادت کو یہ اعتماد دینا چاہیے کہ پاکستانی ریاستی مشینری کا کوئی حصہ کسی بھی طریقے سے ہلاکت خیز بڑے حملوں میں ملوث نہیں۔ میرے اس سوال کہ ”پاکستان کی طرف سے اس اعتماد کو کون بنائے گا؟ سیاسی قیادت، فوج یا پھر انٹیلی جنس ایجنسیاں؟“ ان کا سادہ جواب تھا ”جہاں تک بھارت کا تعلق ہے تو میرے خیال میں پاکستان میں سیاسی قیادت کو یہ اعتماد بنانا چاہیے۔“

دلچسپ امر یہ ہے کہ گفتگو کے دوران بھارتی ہائی کمشنر ڈاکٹر ٹی سی اے راگھوان نے کہاکہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات ایک ’ٹپنگ پوائنٹ‘ (نتیجہ خیز مرحلے ) پر ہیں جہاں ذرا سا دھکا ہمارے تعلقات میں بڑی بہتری لاسکتا ہے۔ انہوں نے بڑا دلچسپ انکشاف کیا کہ وزیراعظم نواز شریف اور وزیراعظم نریندر مودی ایک دوسرے کے احساس کو پہچانتے ہیں اور بہت جلد یہ اچھا تعلق دونوں ممالک کے تعلقات میں بہت بڑی بہتری لائے گا۔

اس گفتگو سے میں نے یہ اخذ کیا کہ پاکستان اور بھارت دونوں ایک ایسے قابل عمل فعال طریقہ کار کی طرف بڑھ رہے ہیں جس سے دونوں ممالک کی سکیورٹی اسٹیبلشمنٹ فوری اطلاعات اور انٹیلی جنس کا تبادلہ کرسکیں گی جس سے مستقبل میں بھارتی شہروں میں حملوں کے واقعات سے بچاؤ ممکن ہو سکے گا۔ اس گفتگو کے متعدد ماہ وسال بعد پاکستانی اور بھارتی انٹیلی جنس سروسز نے کئی مرتبہ فوری معلومات کا تبادلہ کیا۔ جہاں تک مجھے یاد ہے ایسے ہی ایک موقع پر وزیراعظم نواز شریف کے قومی سلامتی کے مشیر نے ’رئیل ٹائم انفارمیشن‘ بھارتی حکومت کو ان مجرموں اور دہشت گردوں کے بارے میں دی تھی جو بھارتی صوبہ راجستھان سے ممکنہ سرحد عبور کرنے سے متعلق تھی۔ اگرچہ اس کا سرکاری طورپر اعلان نہیں کیا گیا تھا لیکن کسی طرح کا طریقہ کار پہلے سے دونوں حکومتوں کے درمیان موجود تھا کہ معلومات اور رئیل ٹائم انٹیلی جنس کا تبادلہ کرسکیں۔

رئیل ٹائم معلومات اور انٹیلی جنس کا تبادلہ کرنے کے طریقہ سے زیادہ اہم دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کے درمیان کسی طرح کی اعتماد سازی میں پیشرفت ہے تاکہ یہ اعتماد بحال ہو سکے کہ دونوں ممالک کی ریاستی مشینری بدنام زمانہ خفیہ کھیل سے ایک دوسرے کو عدم استحکام سے دوچار کرنے میں ملوث نہیں۔ بھارت پہلے ہی پاکستانی انٹیلی جنس سروس اور پاکستان میں عسکری گروہوں کی مقبوضہ جموں وکشمیر میں اس کی فوج پر دہشت گرد حملوں میں ملوث ہونے کا الزام لگاتا ہے اور اس کے جواب کے طورپر بھارتی حکومت پاکستان کو علاقائی اور عالمی سطح پر تنہاءکرنے کے لئے سفارتی سطح پر حملے کرتی ہے۔ اسی بنیاد پر بھارتی فضائیہ کا پاکستان کے اندرآکر متعلقہ مقامات کو نشانہ بنانے کا دعوی کیا گیا۔

دونوں ممالک کی سیاسی قیادت کے درمیان اعتماد سازی ہی اس دلدل سے نکلنے کا واحد راستہ ہے۔ تاہم پاکستانی وزیراعظم عمران خان کے لئے یہ معاملہ آسان نہیں بلکہ مسائل سے پُر ہے۔ پہلی بات یہ ہے کہ ان کی مخالف جماعتوں اور میڈیا کے ایک حصے کی جانب سے یہ آوازیں بلند ہورہی ہیں کہ حکومت پر ان کا مکمل کنٹرول نہیں۔ یہ پہلو ایک ثالث کے طورپر ان کی قدرواہمیت کو کم کرے گا۔ دوسری بات بھارتی قیادت کا یہ تاثر اور سوچ ہے کہ وزیراعظم عمران خان وہ شخص ہیں جنہیں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ نے ماضی میں پاکستان اور بھارت کے درمیان ہونے والی اعتماد سازی کی کوشش کو نواز شریف حکومت کے خلاف باربار کے احتجاج کے ذریعے ناکام بنادیا۔ رائے عامہ کو مطمئن کرنے کے پہلو سے دونوں حکومتوں کے لئے یہ ایک مسئلہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).