امام بخاری کے دیس میں چند روز


ازبکستان کا سفر کریں اور امام بخاری کے مرقد پر حاضری دیں نہ بخارامیں ان کی جائے پیدائش کی زیارت کریں تو دل کوقرار کیسے آئے۔ بخارا کے چپے چپے پر تاریخ رقم ہوئی۔ اس کے درویوار شاندار روایات اور تہذیب کے امین ہیں۔ گزرے زمانے کے اثرات اور شواہد اب بھی شہر کے ہر ایک حصے پر ثبت ہیں۔ صدیوں پرانی عمارتیں، میوزیم، مساجد، مدارس، پارک اور بازار اس شہرکے جاہ وجلال کی کہانی بیان کرتے ہیں۔ یہ امر باعث مسرت ہے کہ سرکار نے ہر عمارت اور مقام کو محفوظ بنانے، اس کی روایتی خوبصورتی کو برقرار رکھنے کے لیے روپیہ پانی کی طرح بہایا۔

فن تعمیرات کے ماہرین کے وارے نیار ہوچکے ہیں۔ پرانی عمارتوں کی اصلی صورت میں بحالی کے لیے مہنگے ترین منصوبوں کی بھی حکومت فنڈنگ کرتی ہے۔ عالم یہ ہے کہ بخارا کو میوزیم کا شہر کہاجانے لگا ہے۔ شہر میں جہاں بھی جائیں قدیم اور جدید تہذیب کا امتزاج دیکھنے کو ملتاہے۔ پرانی آبادیاں کھنڈرات کا منظر پیش نہیں کرتیں بلکہ انہیں اس طرح بنایاسنوارا گیا کہ وہ شہر کی رونق بن گئی ہیں۔

سوویت یونین کے زمانے میں جن خانقاہوں، مدارس اور مساجد کو تالے ڈال دیے گئے تھے آج وہ گھماگھیمی سے جگ مگا رہی ہیں۔ بخارا میں کئی لوگوں سے پوچھا کہ سوویت یونین کے قبضے میں گزرے ستر برسوں کے بارے میں ان کے کیا جذبات ہیں؟ اکثر لوگ اس سوال کاجواب دینے سے کتراتے لیکن وہ یہ ضرور بتاتے کہ سوویت یونین کے اس خطے میں قدم جمانے سے قبل ہر گلی محلے میں مسجد ہواکرتی تھی۔ روسیوں نے ان مساجد کو گودام بنادیا۔ ان کا رسم الخط تبدیل کیا۔

عربی حروف تہجی اجنبی بنادیئے گئے۔ ماضی سے رشتے ازسر نو استوار کرنے کی خاطر کچھ لوگ اب بچوں کو عربی رسم الخط میں لکھے قرآن کی تعلیم دیتے ہیں۔ دبے لفظوں میں یہ بھی بتایا جاتاہے کہ روسیوں نے بخارا پر قبضے کے لیے ہوئی جہازوں سے بمباری کی۔ تاریخی عمارتوں پر اس بمباری کے نشانات ابھی تک دیکھے جاسکتے ہیں۔

عام شہریوں میں روس کے خلاف کوئی نفرت یا انتقام کا جذبہ نہیں پایاجاتا۔ وہ ماسکو کے ساتھ دوستانہ تعلقات رکھنے کے حامی ہیں۔ آج بھی روس ازبکستان کا بڑا تجارتی شراکت دار ہے۔ سردیوں میں ہزاروں روسی ازبکستان کی سیروسیاخت کو آتے ہیں۔ کئی لوگوں نے بتایا کہ روسی نسل کے لوگ آج بھی ازبکستان میں آباد ہیں لیکن اب وہ اعلیٰ عہدوں پر فائز نہیں رہے۔ اکثر کو ماسکو واپس بلالیا گیا۔ بخارا میں بھی تاشقند کی طرح کیمونرم کے جدامجدیا فکری گرو کے مجسمے دیکھنے کو نہیں ملتے۔

ؓبخارا میں درجنوں خانقاہیں اس خطے کی صوفیانہ روایات کی عکاسی کرتی ہیں۔ تصوف کے کئی ایک سلسلوں کی کڑیاں ازبکستان سے جا ملتی ہیں۔ سولہویں اور سترویں صدی میں بخارا میں ایسی عمارات تعمیر ہوئی جو درویشوں کے ڈیرے کہلاتے ہیں۔ ان محل نماعمارتوں میں مساجد کے علاوہ طعام وقیام کا اعلیٰ انتظام کیاجاتاتھا۔ وسطی ایشیا اور ترکی سے کئی ایک درویش بخارا کا رخ کرتے۔ بعض کئی کئی ماہ تک یہاں قیام کرتے۔ سرکار اور اہل ثروت درویشوں کی خدمت کرتے۔ ان کے آرام کا خیال کرتے اور ان کی موجودگی کو خیر وبرکت کا باعث قراردیتے۔ اگرچہ یہ سلسلہ کب کا تمام ہوچکا لیکن آج بھی معمر لوگ اس زمانے کو یاد کرتے ہیں۔

صوفیا کے گہرے سماجی اثرات اور سوویت یونین کے قبضے کی بدولت یہاں اسلام کا اعتدال پسندانہ تصور پایاجاتاہے۔ مذہب محبت اور قوم کو منظم کرنے کے کام آتاہے، نہ کہ انہیں فرقوں میں تقسیم کرنے کے۔ نئی نسل میں قدیم روایات کے احیاء کا جذبہ موجزن ہے۔ لوگ اپنے کلچر سے محبت کرتے ہیں اور اس پر فخر بھی۔ امام بخاری کا نام بڑی عزت سے لیاجاتاہے۔ انہیں اس خطے ہی کی نہیں بلکہ عالم اسلام کی شناخت قراردیاجاتاہے۔ ان کی حیات او رخدمات پر کئی ایک یادگاریں تعمیر کی گئی ہیں۔

تاشقند سے بخارا کے لیے ہوئی سفر کے علاوہ بلٹ ٹرین بھی دستیاب ہے جو کم خرچ اور بلانشین ہے۔ بلٹ ٹرین کی شان وشوکت دیکھ کر گمان گزرا کہ غالباً سوویت یونین عہد میں اس ٹرین کا منصوبہ مکمل ہواہوگا۔ استفسار پر بتایاگیا کہ محض چھ سال قبل بلٹ ٹرین چالو کی گئی۔ ذرائع موصلات پر حکومت کی خصوصی توجہ ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء پاکستان کے مقابلے میں کافی ارزاں نرخوں پر دستیاب ہیں۔ ٹرانسپورٹ کے کرائے بھی مناسب ہیں۔ ٹیکسی ہو یا ٹرین لوگ خوشدلی سے سفر کرتے نظر آتے ہیں۔

خط غربت سے نیچے بہت کم لوگ زندگی گزارتے ہوں گے۔ سات دنوں میں ایک بھی شخص بھیک مانگتے نظر نہیں آیا۔ ایسا محسوس ہوتاہے کہ حکومت اور نجی اداروں نے روزگار کے اتنے ذرائع پیدا کردیئے ہیں کہ شہری ہاتھ پھیلانے کے بجائے کام کرکے پیٹ پالتے ہیں۔ یہ دیکھ کر مسرت ہوئی کہ بخارا جو کہ تاشقند اور سمرقند کے مقابلے میں ذرا قدامت پسند شہر ہے وہاں بھی خواتین معاشی سرگرمیوں میں بھرپور حصہ لیتی ہیں۔ کچھ خواتین سے استفسار بھی کیا کہ وہ رات گئے تک کاروباری اداروں میں موجود رہتی ہیں کیا وہ اپنے آپ کو محفوظ سمجھتی ہیں۔ عورتوں ہی میں سے بعض نے بتایاکہ کوئی انہیں چھیڑنے یا ہراساں کرنے کا تصور بھی نہیں کرسکتا۔ قانون ایسے لوگوں کے ساتھ کوئی نرمی نہیں برتا۔

عمومی طور پر معاشرے پراعتدال پسند اور صوفی اسلام کے اثرات نمایاں ہیں۔ تاشقند اور سمر قند میں عالمگیریت کا رنگ غالب نظر آتاہوا محسوس ہوتاہے۔ اس کے برعکس بخارا میں مقامی کلچر کی چھاپ گہری اور نمایاں ہے۔ انگریزی شوق سے سیکھی جاتی ہے۔ یونیورسٹیوں میں طلبہ کی حوصلہ افزائی کی جاتی ہے کہ وہ انگریزی کی تعلیم حاصل کریں۔ بعض تعلیمی اداروں بالخصوص یونیورسٹیوں میں تدریس کا ذریعہ ہی انگریزی ہے۔ پاکستان سے آئے کئی ایک طلبہ نے بتایا کہ وہ میڈیکل کی تعلیم کے حصول کے لیے یہاں مقیم ہیں۔ انہیں یہ تعلیم انگریزی میں دی جاتی ہے۔

امیر تیمور کو آج بھی ہیرو اور آئیڈل تصور کیاجاتاہے۔ بعض لوگوں نے بتایا کہ اگر چنگیز خان اور ہلاکو وسطی ایشیاکی مسلم سلطنت کو تاراج نہ کرتے توآج اس خطے کے مسلمان دنیا میں سائنس اور سماجی علوم میں قائدانہ کردار ادا کررہے ہوتے۔ عام شہریوں میں احساس کمتری نام کی شہ تلاش کرنے سے بھی نہیں ملتی۔ سماجی ناہمواری کا تصور بھی کم ترین سطح پر نظر آتاہے۔ امیر اورغریب کے درمیان تفاوت پائی تو جاتی ہے لیکن سماجی تعلقات میں بڑی رکارٹ نہیں۔

ایک ہفتے کے مشاہدے نے راقم الحروف کے چودہ طبق روشن کردیئے کہ ہمارے پڑوس میں وہ مسلم ممالک جنہیں ہم زیادہ اہمیت نہیں دیتے، نہ صرف معاشی طور بلکہ تعلیمی اور سماجی طور پر بھی بہت بلند مقام حاصل کرچکے ہیں۔ ان کے شہریوں پر حیات جرم نہیں بلکہ کامیابیوں اور کامرانیوں کا سفر ہے۔ مشکلات یہاں بھی لوگوں کودرپیش ہیں لیکن کسی ایک شخص نے بھی یہ شکایت نہیں کی کہ اسے ریاست تحفظ، تعلیم، صحت اور پینے کا صاف پانی فراہم کرنے سے بھی قاصر ہے۔ وسطی ایشیا کی دیگر ریاستوں میں جانے کا موقع نہیں ملا لیکن ان کے بارے میں بھی یہی اطلاعات ہیں کہ وہ ترقی کی ابتدائی منزلیں کب کی پار کرچکی ہیں۔ اب وہ عروج کی طرف گامزن ہیں۔

ارشاد محمود

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

ارشاد محمود

ارشاد محمود کشمیر سے تعلق رکھنے والے ایک سینئیر کالم نویس ہیں جو کہ اردو اور انگریزی زبان میں ملک کے موقر روزناموں کے لئے لکھتے ہیں۔ ان سے مندرجہ ذیل ایمیل پر رابطہ کیا جا سکتا ہے ershad.mahmud@gmail.com

irshad-mehmood has 178 posts and counting.See all posts by irshad-mehmood