گھنی مونچھیں، پراسرار مسکراہٹ اور کراچی کے قبرستان میں ایک قبر


وہ سب کچھ خیابانِ محافظ اور خیابانِ غاضی کے موڑ پہ ہوا۔ میں اپنی ٹویوٹا کیری میں تیزی سے موڑ کاٹ کر نکلی تھی کہ سامنے سے ہی وہ بڑی سی پجارو آگئی اور میری گاڑی پوری شدت کے ساتھ پجارو سے جا ٹکرائی۔ میرے تو جیسے ہوش اڑگئے۔ گاڑی کا نقصان ہوا مگر خوش قسمتی سے مجھے کچھ بھی نہیں ہوا۔ میں نے زور لگا کر دروازہ کھولا اور باہر نکل کر پوری شدت سے اس ڈرائیور پر چڑھ دوڑی تھی۔

”اندھے ہو۔ دیکھ کر نیں چلتے ہو۔ مار دیا میری گاڑی کو۔ پتا نہیں کن لوگوں نے تمہیں گاڑی دی ہے۔ ڈرائیور بنا دیا ہے۔ “ میں چیخ ہی رہی تھی کہ ایک بھاری بھرکم آواز نے مجھے چونکا دیا۔ ”میں نے گاڑی دی ہے اسے، میں نے ڈرائیور بنایا ہے اس کو، سارا قصور میرا ہے۔ اس کا کیا قصور ہے، کچھ بھی نہیں۔ ناراض اس پہ نہ ہوں مجھ پہ ہوں۔ اس غریب پہ کیوں برس رہی ہیں۔ “

میں نے چونک کر دیکھا۔ پجارو کے دوسری طرف کلف والی سفید شلوار سفید قمیض میں ملبوس وہ لمبا سا آدمی کھڑا تھا۔ اس کے سرخ وسفید چہرے پر بھری بھری سیاہ مونچھیں اور گنجان بھنوؤں کے نیچے چھوٹی چھوٹی گہری آنکھیں مجھے غور سے دیکھ رہی تھیں۔ اس کے لبوں پہ مسکراہٹ تھی۔ ایک عجیب سی مسکراہٹ نہ سمجھ میں آنے والی پراسرار، گھمبیر، خوف ناک، زہریلی نجانے کیا؟

میں نے بالکل گڑبڑا کر اپنا دوپٹا ڈھونڈنے کی کوشش کی تھی۔

”بی بی آپ کی گاڑی بن جائے گی، فکر نہ کریں میرے ڈرائیور کی غلطی ہے۔ آپ کو میرا ڈرائیور گھر چھوڑ آئے گا۔ میں نے پہلی دفعہ دیکھا کہ پجارو کے پیچھے ایک دوسری پجارو نما گاڑی کھڑی تھی اور اس کا ڈرائیور دروازہ کھول کر مجھے اشارے سے بلا رہا تھا۔

میں نے بھی یہی مناسب سمجھا کہ پہلے گھر جاؤں اور گھر جا کر بتاؤں۔ اس وقت میرے پاس لائسنس بھی نہیں تھا۔

میں گھر سے مائیکل ڈگلس کی فلمیں لینے نکلی تھی۔ میں اس وقت آئی بی اے میں پڑھتی تھی اور فائنل کا امتحان دے کر فارغ ہی ہوئی تھی۔ مجھے ہالی ووڈ کی فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ ویسے تو انڈیا کی فلمیں بھی اچھی لگتی تھیں خاص طور پہ امیتابھ بچن، شاہ رخ، جوہی چاؤلہ اور مادھوری ڈکشٹ کی مگر بنیادی طور پر ہالی ووڈ کی فلموں میں بڑی شوقین تھی۔ چھٹیوں میں ہم سہیلیوں نے مختلف پروگرام بنائے تھے۔ چار دن پہلے عذرا کے گھر پر جمع ہوکر ہم سب نے جولیا رابرٹس اور نکول کڈمین کی فلمیں دیکھی تھیں۔

آج مجھے مائیکل ڈگلس اور رابرٹ ڈی نیرو کی فلمیں لانی تھیں۔ آج سب ہی لوگوں نے میرے گھر پر آنا تھا۔ جلدی کی کوئی وجہ تو نہیں تھی مگر نجانے کیوں میں بڑی بے پروائی سے تیز گاڑی چلاتی ہوئی خیابان محافظ سے مڑی تھی۔ مڑی کیا میں نے سرخ سگنل کا بھی خیال نہیں کیا اور مڑگئی تھی کہ اس پجارو سے میری گاڑی جا ٹکرائی اور یکایک یہ حادثہ ہو گیا۔

میں تقریباً دوڑتی ہوئی دوسری گاڑی میں بیٹھی تھی۔ ابو اور بھیا گھر میں ہی موجود تھے۔

میرے حواس بحال ہوئے تو ان کی سمجھ میں آیا کہ میں کیا کرکے آئی ہوں۔ مجھے پتا تھا کہ غلطی سراسر میری ہے۔ ابو کے منع کرنے کے باوجود میری عادت تھی کہ میں گاڑی کافی تیز چلاتی اوراکثر سرخ نشان کا بھی خیال نہیں کرتی تھی۔

پانی پی کر ہم لوگ دوسری گاڑی سے جلدی جلدی واپس اس موڑ پر پہنچے تو دیکھا کہ میری گاڑی کو ایک دوسری گاڑی کھینچ کر گزری کی طرف لے جارہی ہے۔ ہم لوگوں نے جا کر دوسری گاڑی روکی تو اس میں بیٹھے ہوئے مکینک نما ایک آدمی نے بتایا کہ شاہ صاحب نے کہا ہے کہ گاڑی کو مرمت کرکے آپ کے ایڈریس پر پہنچا دیا جائے۔ ساتھ ہی اس نے شاہ صاحب کا فون نمبر بھی دیا کہ اگر کوئی بات کرنی ہے تو ان سے کرلیں۔

مجھے پتا تھا کہ غلطی میری تھی لیکن یہ لوگ مجھے کچھ کہنے کے بجائے الٹا میری ہی گاڑی بنوانے پر تلے ہوئے ہیں۔ عجیب بات تھی، بالکل عجیب۔ اس کی پراسرار سی مسکراہٹ کی طرح۔

ابو نے وہیں پر کھڑے کھڑے دیے ہوئے نمبر پر فون کیا جہاں سے کوئی جواب نہیں آیا تھا۔ مجبوراً مکینک سے اس کا ایڈریس لے کر ہم لوگ گھر واپس آگئے۔

گھر پر پہنچتے ہی شاہ صاحب کا فون آگیا۔ انہوں نے میرے ابو سے اپنے ڈرائیور کی غلطی کی معافی مانگی اوریقین دلایا کہ گاڑی اچھی طریقے سے مرمت کرا کر ایک ہفتے کے اندر اندر گھر پہنچوادی جائے گی اور اس کے علاوہ بھی اگر کوئی جرمانہ ہے تو وہ ادا کرنے کو تیار ہیں۔ ابو شاہ صاحب کی شرافت سے متاثر ہوئے۔ میں نے کہا بھی کہ غلطی سراسر میری تھی اور ہم لوگوں کو ہی الٹا کچھ دینا چاہیے کہ ان کی جیپ پر بہرحال ایک بڑا سا ڈینٹ تو لگ ہی گیا تھا۔

میں اکثر سوچتی ہوں کہ گاڑی کی مرمت کا خرچہ ہمیں شاہ صاحب سے نہیں لینا چاہیے تھا۔ اگرنہ لیتے تو شاید زندگی کا سفر کسی اورطریقے سے کٹتا۔ شاید نہیں جو قسمت میں لکھا تھا وہ تو ہونا ہی تھا۔ شاید وہ حادثہ ہی نہ ہوتا تو زندگی کا سفر ذرا مختلف ہوتا اس سے زیادہ بڑھ کر شاید یہ ہو کہ اگرمیں خوب صورت نہ ہوتی تو وہ سب کچھ نہیں ہوتا۔

خوب صورت نہ ہونا تو میرے اختیار میں نہیں تھا۔ میں خوب صورت تھی، بے باک تھی، گھر میں چھوٹی ہونے کی وجہ سے سر چڑھی بھی۔ ابو ورلڈ بینک میں کام کرتے تھے۔ گھر میں روپے پیسے کی کمی نہیں تھی، جو چاہتی وہ ہوجاتا۔ ابو کے ساتھ کئی دفعہ لندن نیویارک جا چکی تھی اور دنیا دیکھی ہوئی تھی میں نے۔ شاید اسی وجہ سے بے باک اور پراعتماد بھی ہوگئی تھی۔ دو بھائیوں اوردو بہنوں میں سب سے زیادہ میرا ہی خیال رکھا گیا تھا۔ باجی کی شادی ہوگئی تھی اوروہ اپنے شوہر کے ساتھ کینیڈا میں رہتی تھیں جہاں ان کا شوہر کیمیکل انجینئر تھا۔ بڑا بھائی کراچی میں گرینڈ لیز بینک میں اچھے عہدے پر کام کرتا تھا اور مجھ سے بڑا واحد لندن اسکول آف اکنامکس میں پڑھ رہا تھا۔ ابوابھی کچھ مہینے ہی پہلے ورلڈ بینک سے ریٹائر ہوکر واپس کراچی پہنچے تھے لیکن ابھی بھی اکثر انہیں کسی نہ کسی کنسلٹنسی کے لیے کبھی یورپ کبھی امریکا آنا جانا پڑتا تھا۔

حادثے کے دسویں دن شاہ صاحب کا ڈرائیور گاڑی لے کر آگیا۔ گاڑی مکمل طور پر نئی ہوگئی تھی جو پرانی ٹوٹ پھوٹ ہوئی تھی اسے بھی شاہ صاحب نے صحیح کرادیا تھا۔ ابونے کہا تھا کہ آج کل کے زمانے میں بھی شریف لوگ ہوتے ہیں، بڑی بات ہے۔

بڑی بات تو اس کے بعد ہوئی اور بالکل غیر متوقع طریقے سے ہوئی۔ یہ سب کچھ اتنا تیزی کے ساتھ ہوگیا کہ آج جب میں پیچھے مڑ کر دیکھتی ہوں تو لگتا ہے کہ وہ سارے واقعات آندھی طوفان کی طرح ملین میل پر سیکنڈ کی رفتار سے ہوگئے تھے۔

دوسرے دن ہی کی بات ہے کہ شام کے وقت گھر پہ کچھ مہمان پہنچے جن کے ساتھ پھلوں اورمٹھائیوں کے ٹوکرے تھے جنہیں گیراج میں اتاردیا گیا۔ دونوں مہمان شاہ صاحب کے دوست تھے جنہوں نے ابو سے میرا ہاتھ مانگا تھا۔ انہوں نے کچھ بھی نہیں چھپایا۔ شاہ صاحب بڑے زمیں دار تھے۔ بڑے وڈیرے، بڑی زمینوں اور حویلیوں کے مالک۔ کراچی میں کئی بنگلے اوربے شمار جائیداد ان کے پاس تھی اور حکومت میں بے انتہا اثرورسوخ۔ ان کی عمر چوالیس سال تھی اور ان کی دوبیویاں پہلے سے تھیں۔ ایک بیوی گاؤں میں تھی جو شاہ صاحب سے عمر میں بڑی تھی، جس سے ان کے کوئی بچے نہیں تھے۔ ایک بیوی حیدرآباد میں تھی جس سے شاہ صاحب کے پانچ بچے تھے اوراب وہ مجھ سے بھی شادی کرنا چاہتے تھے۔

ابو کے غصے کے باوجود ان پیغام لانے والوں نے کہا کہ مجھے ہر طرح کی عزت دی جائے گی۔ دین مہر کی جو رقم طے ہوگی وہ پہلے ہی ادا کردیں گے، ڈیفنس میں ہزار گز پہ بنا ہوا ایک مکان میرے نام کردیا جائے گا اور بہت ساری باتیں وغیرہ وغیرہ۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں

ڈاکٹر شیر شاہ سید
Latest posts by ڈاکٹر شیر شاہ سید (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2 3 4