سلیکٹڈ وزیراعظم


دوستوں کا کیا ہے کہیں بھی بیٹھ گئے تو کچھ بھی پوچھ لیتے ہیں۔ کبھی کبھی انسان مزاح کے موڈ میں ہوتا۔ کبھی ایسی باتیں پوچھی جاتی ہیں جن کے متعلق انسان کا خاصہ مطالعہ اور گہری فکر سے کام نہیں لیا گیا ہوتا۔

ایسی صورتحال میں دو آپشنز ہوتے ہیں یا تو صاف کہہ دیا جائے کہ بھائی ابھی چائے اور ہنسی مذاق کا وقت ہے۔ ہر وقت سنجیدہ رہنا بھی صحت کے لئے مفید نہیں اور میں اس حوالے سے فی الحال خود بھی کسی نتیجے تک نہیں پہنچا۔ دوسرا آپشن بس ٹرخا دیا جائے، مطلب جو بھی آئے جیسے بھی آئے ابھی نندن کی طرح ادھر ادھر کی چھوڑ کر بات مکمل کی جائے۔

ایسا ہمارے ساتھ کئی مرتبہ ہوتا ہے مگر ہم تو صاف کہہ دیتے ہیں کہ بات کلیئر نہیں یا پھر ابھی اس موضوع پر بات کرنے کا موڈ نہیں۔ ایسے ہی ایک دوست نے پوچھا کہ اپوزیشن موجودہ حکومت کو نا اہل اور سلیکٹڈ بھی سمجھتی ہے اس کے باوجود اسے کیوں نہیں گرا رہی؟ میں نے اس دوست کو مختصر جواب دیا جب آج سلیکٹڈ سلیکٹڈ کا ذکر سنا تو سوچا وہ جواب آپ قارئین تک بھی پہنچا دوں ویسے بھی ابھی تک لکھنے پر حکومت نے ٹیکس عائد نہیں کیا۔

الجواب۔ پہلی بات تو یہ اپوزیشن کو ابھی تک پاوں پر کھڑا ہی نہیں ہونے دیا جارہا۔ اپوزیشن کی مثال اس کشتی کے کھلاڑی جیسی ہے جس کا حریف جانتا ہو کہ میرا حریف مجھے سے تجربہ اور طاقت میں زیادہ ہے۔ اور غلطی سے اس کے پیر حریف پہلوان نے زمین سے اٹھا کر گھما رہا ہو۔ اس ڈر سے کہ اس کے پیر زمین تک پہنچنے نہ پائیں۔ جیسے ہی پیر زمین پر پہنچے یہ مجھے اٹھا کر دور پھینک دے گا۔ اپوزیشن کے ساتھ بھی ابھی تک یہی کچھ ہو رہا ہے۔

جس نے اپوزیشن کے پیر زمین سے اکھاڑ رکھے ہیں وہ جانتے ہیں کہ اگر پیر زمین پر لگ گئے اپوزیشن حکومت کو چلتا کردے گی۔ اور دوسری وجہ جو اس سے بھی کہیں زیادہ مناسب لگتی ہے وہ یہ کہ اپوزیشن خود بھی حکومت کو فی الحال گرانے کے موڈ میں نہیں ہے۔ کیونکہ اپوزیشن جانتی ہے یہ سیاست کے میدان میں نئے لوگ ہیں پہلے باہر سے دھرنوں اور احتجاج میں بیٹھ کر لمبی لمبی چھوڑتے رہے ہیں اب ان پر تھوڑا بوجھ آیا ہے تو چیخ رہے ہیں لہذا انہیں تھوڑا اور چیخنے دیا جائے۔

اپوزیشن چاہتی ہے ان پر مزید بوجھ آئے تاکہ انہیں بھی احساس ہو کہ تمام ادارے ایک پیج پر ہونے کے باوجود ان سے کچھ کیوں نہیں ہورہا؟ جبکہ ہمارے دور اقتدار میں اس طرح ادارے ایک پیج پر بھی نہیں تھے۔ اور اپوزیشن اچھی طرح سمجھتی ہے کیونکہ اپوزیشن کا گرو زرداری صاحب ہے۔ وہ جانتا ہے اس لولی لنگڑی حکومت کو گرا کر ہم اسے سیاسی شہید کا رتبہ نہیں دینا چاہتے۔ اور نہ ہی غیر جمہوری قوتوں کو یہ موقع فراہم کرنا چاہتے ہیں کہ وہ جمہوری نظام کو اس بہانے سے سپوتاز کردیں۔

یہی وہ وجوہات ہوسکتی ہیں تبھی تو اپوزیشن سلیکٹڈ وزیراعظم کے نعرے لگانے کے باوجود حکومت گرانے کی طرف نہیں جارہی۔ ویسے بھی اپوزیشن اب سن بلوغت میں پہنچ چکی ہے وہ ایسی حرکتیں نہیں کرنا چاہتی جو حکومتی نمائندگان کر رہے ہیں۔ سیاست کے میدان میں وہ ابھی تک بچے ہیں جو صبح کچھ فرمائش کرتے ہیں تو شام کو کچھ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).