حب الوطنی کے تقاضے


ملک اصل میں ایک نظام کو کہتے ہیں۔ یہ وہ میدان ہے جہاں اس ملک کے تمام لوگوں کا جمع ہونا ضروری ہوتا ہے۔ تمام انفرادی راستے اور ترقیات اس ایک میدان میں اکٹھی ہوتی ہیں۔ اوراس ایک میدان یا پلیٹ فارم پر جمع ہونے کے بعد یہاں سے آگے تمام راستے نکلتے ہیں۔ یہ سمجھنا غلط ہے کہ انفرادی طور پر ترقی کرنے کی بدولت ہمارا تعلق ترقی یافتہ اقوام یا نظام سے قائم ہوجائے گا۔

جب کوئی انفرادی طور پر ترقی کرتا ہے اور بظاہر وہ دنیا کے اس ترقی یافتہ نظام کا حصہ بن جاتا جہاں لوگ اس کی صلاحیتوں کو پہچانتے ہیں اور اس کی ترقی کو سمجھ سکتے ہیں۔ مگر اس کی انفرادی ترقی انفرادی نوعیت کی ہی رہتی ہے اور اس انفرادی ترقی کی وجہ سے بنی چھوٹی سی دنیا میں بھی لوگ اس سے اس نظام کے بارے میں سوال کرتے رہتے ہیں جہاں سے اصل میں اس کا تعلق ہوتا ہے۔ اور جب وہ اپنی چھوٹی سی دنیا سے باہر آتا ہے جہاں لوگ اس کی انفرادی ترقی کی وجہ سے حاصل شدہ حیثیت کو نہیں جانتے اور اس کی شناخت صرف اس کا بنیادی نظام ہی رہ جاتا ہے تو ان سوالات کی نوعیت اور شددت اختیار کر لیتی ہے اور اگر وہ ایسے نظام سے تعلق رکھتا ہے جو اجتماعی طور پر بھی نا صرف ترقی یافتہ ہوتا ہے بلکہ دنیا کی ترقی میں بھی اس کا نمایاں کردار ہوتا ہے تو لوگ اس انسان سے اس پوری نظام کی کاوشوں کا شکریہ ادا کرتے ہیں اور اس کی انفرادی ترقی کو بھی اس کے بنیادی نظام کی بدولت ہی سمجھتے ہیں۔

پر اگر انفرادی طور پر ترقی کر جانے والے انسان کا بنیاد نظام ایک پسماندہ اور ترقی پزیر نظام ہے تو لوگ اس کو بھی ویسا ہی سمجھیں گے اور اس کی انفرادی ترقی کی لوگوں کے سامنے کوئی حیثیت نہیں ہوگی اور اس سے بھی بڑھ کر یہ کہ لوگ اس انسان سے اس کی انفرادی ترقی کے قصے سننے کے بجائے اس کے بنیادی نظام کی پسماندگی کی وجہ پوچھیں گے۔ اور اگر اس ترقی یافتہ انسان کا نبیادی نظام کسی بھی حد تک دنیا کے لئے نقصان دے رہا ہو توپھر تو دنیا جہان کی گالیاں اس کا مقدر ہیں۔

بس وہ لوگ جو ڈیڑھ اینٹ کی مسجد بنانے کی سوچتے ہیں۔ اور کہتے ہیں ہم استاد کی بات نہیں مان سکتے، ہم قانون کی بات نہیں مان سکتے، ہم پولیس والے کی بات نہیں مان سکتے، ہم اداروں کی بات نہیں مان سکتے، ہم کیوں کسی کی بات سنیں، جو بھی ہو، کوئی کون ہوتا ہے ہمیں ہدایات دینے والا، اس کو کو تو ہماری بات سننی چاہیے۔ ہم نظام کو بہت اچھی طرح سمجھتے ہیں، ہماری تعلم، مرتبہ، امارت کے بل پر ہی تو یہ نظام بنا ہے۔ ہم ملک سے بہت محبت کرتے ہیں ہم اس ملک کے لئے اپنی جان بھی دے سکتے ہیں۔

ہم کو پتا ہے نظام کیسے چلتا ہے، ہماری آسانی کے لئے ہی تو یہ نظام بنایا گیا ہے، اور ہم سے ہی تو یہ نظام چلا رہے ہیں۔ نا تعلیم، نا تجربہ، نا دنیا کے بارے میں کچھ جانتا ہے مجھے کیا بتائے گا کہ مجھے کیسے زندگی گزارنی ہے۔ میں تعلیم یافتہ، اتنی بڑی کمپنی کا بڑا مینیجر، اتنے لوگ میرے نیچے کام کرتے ہیں۔ یا میں اتنے بڑے باپ کی اولاد یہ نظام تو ہمارے گھر کی کھیتی ہے، اس دو ٹکے (دو پیسے زیادہ بہتر ہے اب) کے انسان کو کیا پتہ میری قابلیت کے بارے میں۔

ایسے لوگوں کو سمجھانے کی ضرورت ہے کہ اگر اکٹھے ہوتے ہوئے تمہارا نظام سے تعلق نا ہوا تو انفرادی حیثیت کی نظام کے آگے کوئی اوقات نہیں۔ جس بھی انسان نے جیسے ہی انفرادی سوچ پر چلنا شروع کیا وہ اصل میں نظام سے کٹ گیا اور اب اس اصل نظام سے کوئی تعلق نہیں رہا اور نا اس نظام سے حاصل ہونے والے فوائد پر اس کا کوئی حق رہا۔ ہر کسی کو اجتماعی طور پر نظام کا حصہ رہتے ہوئے نظام سے اپنے تعلق کو مضبوط کرنا ہوگا۔ ورنہ انفرادیت کے پھیلنے اور اجتماعیت کے فقدان کی وجہ سے نا نظام رہے گا اور نا ہی انفرادیت پر چلنے والوں کی ڈیڑھ انچ کی مساجد قائم رہ سکیں گی۔ سب کی بقاء اس اجتماعیت میں ہے اوراجماع یا اتحاد اصل میں ایک نظام ایک لیڈرشپ کے ذریعے ہی ہو سکتا ہے۔

ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا، ایک لیڈرشپ کے ساتھ چلنا اصل میں قربانی مانگتا ہے۔ جائز چیزوں کی قربانی۔ ناجائز باتوں، ناجائز کاموں سے دور رہنا کوئی قربانی نہیں وہ فرائض کے زمرے میں آتا ہے۔ اگر کوئی آدمی کہے کہ میں نے نظام کی خاطر سفارش قبول نہیں کی یا رشوت نہیں لی تو یہ کوئی قربانی نہیں ہے۔ یا ٹیکس دینا کوئی قربانی نہیں ہے۔ پر اگر کوئی ٹیکس کے ساتھ ساتھ حکومت کی طرف سے قائم کردا فلاحی اداروں میں امدادی رقوم بھی جمع کردے یا ان اداروں میں بلا معاوضہ کام کررے تو یہ اصل میں قربانی ہے۔

اگر کوئی بڑے شہر چھوڑ کر ملک کی ترقی کی خاطر چھوٹے قصبے میں نوکری کرتا ہے تو یہ اصل قربانی ہے۔ یعنی اپنا فرض ادا کرنے کے بعد اپنی جائز کمائی سے قربانی کرنا یا محنت اور دیانتداری سے کام کرنے کے بعد بقیہ وقت میں سے کچھ وقت کی قربانی یا ملک کی خاطر اپنے ہم وطنوں کی خاطر زندگی وقف کر دینا اصل قربانی ہے۔ اور ایک نظام میں ایسی ہی چھوٹی چھوٹی قربانیاں کرنے والے لوگوں کی تعداد اگر زیادہ ہو تو وہ نظام دنیا پر چھاجاتا ہے۔ اور اگر ایک نظام میں لوگ انفرادیت میں کھوئے ہوئے ہوں تو دنیا اس نظام کو بہت آسانی سے کھا جاتی ہے۔

ہم سب کو محب وطن ہونے کا دعوا کرنے سے پہلے اس بات پر ضرور غور کرنا چاہیے کہ ہم کس حد تک اس نظام کا حصہ ہیں۔ نظام کی کسی بھی خامی پر بات کرنے سے پہلے یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ ہم خود اسی طرح کی کیتنی خامیوں کو درست کرنے کی کوشش کے بجائے ان سے فائدہ اٹھاتے رہے ہیں۔

اطہر محمود خان
Latest posts by اطہر محمود خان (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).