پاکستان عالمی سیاحوں کے لئے جنت کیوں نہیں بن سکتا؟


لوگ دن رات محنت کر کے پیسے کماتے ہیں پھر سیاح بن کر وہ ہی دولت دوسرے ملک لٹانے کیوں چلے جاتے ہیں۔ آخر سالوں کی کمائی چند ہفتوں میں لٹانے میں کیا مزہ ہے۔ کہتے ہیں خواہشات اصل میں ضروریات پر حاوی ہوتی ہیں، اور لوگ اس دنیا میں جنت کی خواہش رکھتے ہیں اور نکل پڑتے ہیں کسی حور و قصور والی جنت کی تلاش میں۔ کیا پاکستان سیاحوں کے لئے جنت ہے؟ اس سوال کا جواب خود پاکستانی کیا دیں گے؟

اگر ہم جذباتی نہ بنیں تو درحقیقت پاکستان خود اپنے لوگوں کے لئے بھی سیاحتی جنت نہیں ہے۔ دنیا بھر میں جس ٹرمنالاجی کو ”سیاحت“ کہتے ہیں وہ ضیاء دور کے بعد پاکستان میں ناپید ہو چکی ہے۔ اب ہم اور ہمارے بچے صرف سسرال، میکے، ننہال، ددہال اور دور کے رشتیداروں کے پاس گھومنے تو جاسکتے ہیں مگر کسی ایسے شہر میں جانے سے کتراتے ہیں جہاں ان کو جاننے والا کوئی نہ ہو۔ اس وقت اگر کوئی ملک کے فاٹا اور شمالی علاقاجات گھومنے جاتا ہے تو اس کو بھی پاکستان آرمی کی محنتوں کا شکرگزار ہونا چاہیے۔

کیا ہم جانتے ہیں پاکستان میں ہرسال کتنے سیاح گھومنے آتے ہیں؟ عالمی سیاحت پر نظر رکھنے والوں کے بنائے گئے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان ان ممالک میں شامل ہیں جہاں سب سے کم سیاح آتے ہیں، اور ان آنے والوں میں بھی اکثریت سیاحت کے ساتھ اصل میں کسی نہ کسی کام سے آتے ہیں۔ اگر ہم گذشتہ دس سال کے بھی اعداد و شمار دیکھیں تو پتا چلے گا کہ سال 2009 ع میں 85500، سال 2010 ع میں 907000، سال 2011 ع میں 1167000، سال 2012 ع میں 966000، سال 2013 ع میں 565212، سال 2014 ع میں 530000، سال 2015 ع میں 563400، سال 2016 ع میں 965498، سال 2017 ع میں 1750000 اور گذشتہ سال 2018 ع میں 1900035 سیاح پاکستان گھومنے آئے۔

اس کا مطلب ہے گذشتہ پورے دس سال میں ہمارے پاس ٹوٹل ایک کروڑ سولہ لاکھ ( 10169145 ) سیاح گھومنے آئے۔ جبکہ اگر ہم صرف اپنے برادر اسلامی ملک ترکی کی سیاحت پر نظر گھمائیں تو پتا چلے گا کہ ان کے پاس صرف ایک سال 2018 میں ساڑھے تین کروڑ سیاح گھومنے آئے، اور اس سال 2019 ع میں یہ تعداد ساڑہے چار کروڑ تک جانے کی امید ہے۔ مطلب 8 کروڑ آبادی والا ملک ترکی اپنی آبادی کے آدہے کے برابر ساڑھے 4 کروڑ کے برابر آنے والے سیاحوں کی میزبانی کرے گا۔

لوگ ترکی کیوں جاتے ہیں، پاکستان کیوں نہیں آتے، حالانکہ اسلام کا قلعہ تو ہم ہیں۔ دنیا کی قدیم ترین تہذیب انڈس سولائیزیشن تو ہمارے پاس ہے، بدھ مت کے اوائلی آثاروں سے لے کر ہندو دھرم کے تمام بابرکت وید بھی یہاں لکھے گئے، سکھ ازم کی بنیادیں یہاں ہیں، بہت بڑا سمندر، وسیع صحرہ، بلند وبالا برف پوش پہاڑ، دلفریب وادیاں، سرسبز نخلستان، آباد میدان، بڑے بڑے شہر اور ہماری خیال میں لذیذ کھابے بریانی، پلاؤ، کڑہائی، پائے، چکڑ چنے، حلیم اور دہی بھلے وغیرہ وغیرہ۔ کیا یہ دلچسپی کی بات نہیں کے حیدرآباد اور لاہور کے لوگ پاکستان میں سیاحوں کی جنت سمجھے جانے والے علاقوں مری، ناران کاغان اور گلگت میں پہنچنے کے بعد بھی مٹن کڑھائی اور نان چنے کھاکر خوش ہوجاتے ہیں کہ ”واہ جی واہ چس آگئی“۔

دنیا میں اس وقت کئی ممالک ہیں جن کی معیشت کا بڑا انحصار ہی سیاحت پر ہے اور ان کے پاس وسائل اور علاقے پاکستان کے مقابلے میں بہت نہیں انتہائی کم ہیں۔ اگر ہم صرف مالدیپ، ملائشیا، سعودی عرب، دوبئی اور ترکی کو ہی دیکھ لیں تو سمجھ میں آجائے گا کہ یہ ممالک اپنی جمادات، نباتات، وسائل، پہاڑ، صحرا اور دیگر خوبصورتیوں میں ہم سے بالکل آگے نہیں ہیں۔ پھر کیا وجھ ہے کہ لوگ وہاں تو جوک در جوک جاتے ہیں اور ہمارے پاس گھومنے تو درکنار اپنی کسی کام سے بھی نہیں آتے۔ ہمیں سوچنا پڑے گا کہ ہمارے دیس کے دروازے باہر سے بند ہیں یا اندر سے۔

کیا ہم جانتے ہیں سعودی عرب کی معیشت کا اصل دارومدار حج اور عمرہ پر آنے والے لوگوں پر ہوتا رہا ہے، اس وقت بھی تیل کے بعد ان کی معیشت کا دوسرہ انحصار انہیں حجاج اور عمرہ کرنے والوں پر ہے۔ مگر اس سے دلچسپ بات یہ کہ اعداد و شمار کے مطابق سال 2018 ع ساڑھے سترہ لاکھ لوگوں نے حج کا سفر کیا۔ اور اسی طرح سے گزشتہ دس سالوں میں کم و بیش ایک کروڑ ساٹھ لاکھ لاگوں نے حج کی سعادت حاصل کرنے کے لئے سعودی عرب کا سفر کیا۔

دنیا اور خود سعودی عرب ان حجاج اکرام کو بھی بین الاقوامی سیاحوں میں گنتے ہے۔ مگر اس سے زیادہ حیرت انگیز اعداد وشمار یہ ہیں کہ مکہ المکرمہ میں دس سالوں میں جتنے لوگوں نے حج کرنے کے لئے سفر کیا اس سے قریب تر لوگ صرف ایک سال میں متحدہ عرب امارات کے صرف اک شہر دبئی گھومنے آئے، مطلب سال 2018 ع میں دبئی کی سیاحت کرنے والے سیاحوں کی تعداد ایک کروڑ 57 کی ہے۔ اس اس سے زیادہ ایک کروڑ 75 لاکھ سیاح پئرس، ایک کروڑ 85 لاکھ سیاح لندن اور سب سے زیادہ دو کروڑ 50 ہزار سیاح بینکاک پہنچے، یہ اعداد وشمار صرف شہروں کے ہیں ان ممالک کی تو بات ہی اور ہے۔ مطلب ہمارے پاس کوئی مجبوری اور کام سے ہی آتا ہے مگر گھومنے نہیں آتا۔ ایسا کیوں ہے۔

اگر ہم صرف اپنے برادر اسلامی ملک ترکی کی ہی مثال لیتے ہیں تو پتا چلتا ہے کہ ترکی دنیا میں سیاحوں لبھانے والا سب سے بڑا اسلامی ملک ہے۔ اس وقت بھی عالمی رینکنگ میں فرانس، اسپین، آمریکا، اور چین کے بعد سب سے زیادہ سیاح ترکی آتے ہیں۔ پاکستان ادب اور صحافت میں ترکی کے تاریخ، تمدن اور حالات پر کمال مہارت رکھنے والے دانشور فرخ سہیل گوئندی کا کہنا ہے کہ یہ لاکھوں کروڑوں سیاح ترکی میں اس لئے آتے ہیں کہ ترکی ان کے لئے اپنے دل کے دروازے کھول دیتا ہے، ہمارے لوگ جو ترکوں کی میزبانی دیکھ کر ان پر قربان جاتے ہیں ان کو پتا ہونا چاہیے کہ ترک سرکار اور عوام ہم سے زیادہ قربان روسی، جرمن اور بلغارین پر جاتے ہیں، کیوں کہ وہ سیاح ہی اصل میں ان کی معیشت کو سب سے زیادہ سہار۱ دیتے ہیں۔

فرخ سہیل گوئندی جیسا کھرا قلمکار بھی ترکی، قطر، دبئی اور ملائیشیا میں سیاحت کی ترقی کے اصل عوامل بتانے سے احتزاز کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ ”لوگ یہاں پہاڑ دیکھنے یا عبادت کرنے نہیں آتے، مگر ان کو یہاں وہ تمام سہولیات ملتی ہیں جو دنیا کے ہر سیاح کو سکوں کے لئے چاہیے، اور یہ آپ خود سمجھ جائیں کہ وہ کیا سہولیات ہیں۔ “ اتنا فرمانے کے بعد چند تصاویر دکھانے پر اکتفا کرگئے ہیں کہ سمجھ والے خود سمجھ جائیں۔ حالانکہ دنیا سمجھتی ہے کہ ”لوگ دن رات محنت کر کے پیسے کماتے ہیں پھر سیاح بن دوسرے ملک لٹانے کیوں چلے جاتے ہیں۔ آخر سالوں کی کمائی چند ہفتوں میں لٹانے میں کیا مزہ ہے۔ کہتے ہیں خواہشات اصل میں ضروریات پر حاوی ہوتی ہیں، اور لوگ اس دنیا میں جنت کی خواہش رکھتے ہیں اور نکل پڑتے ہیں کسی حور وقصور والی جنت کی تلاش میں۔ “

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2