انار کلی فٹ پاتھ سے پلیٹ فارم نمبر 4 تک


صاحبان شعر و ادب اور صاحب مطالعہ خوب جانتے ہیں۔ لاہور کے انار کلی کے فٹ پاتھ کو جہاں اتوار کی صبح نوادرات کتب کا میلہ سجتا ہے۔ اس ڈیجیٹل دور میں بھی کتب بین ڈھونڈ ڈھونڈ کے دنیا جہاں کی نایاب کتابیں سستے داموں اپنی لائبریری کی زینت بنا لیتے ہیں۔ میرا جب بھی لاہور جانا ہوا مال روڈ پر دو تین جگہ ضرور جاتا ہوں۔ سب سے پہلے فیروز سنز جانا۔ وہاں کھڑے کھڑے ایک دو گھنٹے درجنوں کتابوں کے فلیپ، پیش لفظ، مضامین کی ورق گردانی اور صاحب کتاب کا حال احوال پڑھنا۔ جب تھک جانا باہر نکل کے الفلاح سنیما کے گیٹ پر نان ٹکیاں کھانا۔ اور پھر خراماں خراماں چلتے ہوئے پاک ٹی ہاؤس جا گھسنا۔ البتہ انار کلی اتوار کی صبح جاتا تھا۔ ( اب فیروز سنز نہیں رہا اور نہ الفلاح سنیما کے گیٹ پر نان ٹکیاں )

یہ 1993 ء کا ذکر ہے۔ ایک صبح انار کلی میں حلوہ پوڑی لسی کا ناشتہ کیا اور پھر کتابوں کے جہاں میں داخل ہوگیا۔ حسب معمول وہیں بیٹھ کے دو چار کتابیں پڑھ ڈالیں۔ اچانک ایک کتاب کے ابتدائی دو تین صفحے پڑھتے ہی جھٹکا سا لگا۔ وہ ایک افسانوں کی کتاب تھی جس کا پہلا افسانہ نے ہی میری توجہ مرکوز کر لی تھی۔ وہ افسانہ کم اور ٹی وی ڈرامہ کا سکرین پلے زیادہ تھا۔ میں بھی ان دنوں لاہور ٹی وی سنٹر پر سکرپٹ نگاری کرتا تھا۔

دو چار پلے آن ائیر جا چکے تھے۔ یوں میں ہر وقت کہانی کی تلاش میں رہتا تھا۔ کتاب کی قیمت پوچھی۔ میری آنکھوں کی چمک اور چہرے پر خوشی دکاندار پہلے ہی تاڑ چکا تھا۔ خیر بھاؤ تاؤ کرتے پندرہ روپے میں وہ کتاب خرید لی گئی۔ مجھے کامل یقین تھا اس افسانہ کو میں ڈرامائی تشکیل کر لوں گا۔ میں نے رکشہ پکڑا ریواز گارڈن ایک دوست کے ہاں جا پہنچا۔ منو بھائی کے گھر سے قریب اس کا فلیٹ تھا۔ سوئے ہوئے دوست ممتاز احمد خان کو جگایا جو کہ میرے شہر مظفرگڑھ کے ہی رہنے والے تھے اور پنجاب کے وزیر برائے نوجوانان ترقی امور کے پبلک ریلیشنز افسر تھے۔

ویسے تو لاہور میں میری مستقل رہائش ڈیفنس میں میری خالہ جان کے گھر ہی تھی۔ جہاں مکمل آسائش اور خوب کھابے چلتے تھے کہ میرے خالو جان سردار عاشق ڈوگر ان دنوں پیپلز پارٹی کے ایم این اے تھے۔ لیکن میں کسی کو بتائے بغیر الحمرا پاک ٹی ہاؤس اور ٹی وی یاترا کرتا تھا۔ اور ایسے ادبی معرکے میں ریواز گارڈن میں ہی سر انجام دیتا تھا۔ ممتاز خان چھڑا چھانٹ تھا۔ صاحب مطالعہ اور گفتار کا غازی۔ شام ہوتے ہی اس کے ہاں تمام وزیروں مشیروں کے پی آر اوز اور سیکرٹری صاحبان جمع ہو جاتے اور دنیا جہاں کے ادب سیاست پر تبادلہ خیال کرتے اور رات کو باہر کھانے پر نکل جاتے۔

خیر میں نے اسکرپٹ لکھنا شروع کر دیا۔ لکھنے کی چٹیک سے میں نہیں گھبراتا۔ شام سے پہلے سکرپٹ مکمل ہو چکا تھا۔ اب مسئلہ تھا افسانہ نگار کا نام لکھوں تو سکرپٹ فیس آدھی ملتی۔ نہ لکھوں تو میر ا ضمیر جو ابھی زندہ تھا مجھے کچوکے لگاتا۔ لیکن معاوضہ پورا ملتا۔ بہت سوچنے کے بعد میں نے ضمیر کی ملامت سے ڈر کے کہانی کار کا نام پہلے لکھا اور ڈرامائی تشکیل میں اپنا نام لکھ دیا۔

اگلے روز ٹی وی اسٹیشن پہنچا۔ ملک کے نامور صحافی نذیر ناجی کے بھائی علی اکبر عباس جو کہ اسکرپٹ ایڈیٹر تھے۔ سلام کلام کے بعد ان کے سامنے سکرپٹ رکھا۔ انہوں نے حسب عادت مسکرا کے سکرپٹ اٹھایا اور چونک کے مجھے دیکھنے لگے۔ ”میں گھبرا سا گیا۔ اس کہانی کار کو آپ ملے ہیں؟ جانتے ہیں یہ کون ہے؟ “ انہوں نے استفسار کیا۔ میں نے نفی میں سر ہلایا۔ ”یہ صاحب ایک بڑے افسانہ نگار ہیں۔ میرے دوست ہیں اور سیکرٹری جنگلات پنجاب ہیں۔

یہ افسانہ آپ کو کہاں سے ملا؟ “ جی فٹ پاتھ سے۔ ”میں نے انہیں تمام روئیداد سنائی۔ انہوں نے فون ملایا اور کہا“ نصرت علی آپ تو بڑی ادبی شخصیت بن چکے ہیں ایک نوجوان نے آپ کے افسانہ کی ڈرامائی تشکیل کی ہے اور وہ آپ کو جانتے تک نہیں۔ ”دوسری طرف قہقہہ سنائی دیا۔ یوں ایک گھنٹہ بعد نصرت علی اس کمرے میں داخل ہوئے جہاں میں اور علی اکبر عباس ان کا انتظار کر رہے تھے۔ علی اکبر عباس سے مصافحہ کرنے کے بعد انہوں نے پہلے مجھے تولتی نظروں سے سرتاپا دیکھا پھر ہاتھ ملایا۔ میں ان دنوں کاٹن کے سوٹ اور نوروزی چپل پہنتا تھا۔ بڑی مونچھیں اور شکل سے رائیٹر کم اور زمیندار زیادہ لگتا تھا۔ ایک دوسرے سے تعارف کے بعد انہوں نے میرا لکھا سکرپٹ پڑھنا شروع کر دیا۔

جوں جوں وہ پڑھتے گئے میرے دل کی دھڑکن تیز ہوتی گئی۔ میں دل ہی دل میں دعا پڑھنے لگا کہ یا اللہ آج عزت برقرار رکھنا میرا سکرپٹ انہیں پسند آجائے۔ زندگی میں کسی کہانی کو پہلی بار ڈرامائی تشکیل دی ہے۔ کوئی غلطی اور سقم نہ رہے گیا ہو۔ میں نے تو ایمانداری سے رائیٹر کا نام بھی لکھ دیا ہے۔ وغیرہ وغیرہ۔ سکرپٹ پڑھنے کے بعد انہوں نے گہرا سانس لیا اور مجھ سے مخاطب ہوئے۔ ”ندیم صاحب میرا یہ افسانہ پلیٹ فارم نمبر 4 جو میرے افسانوں کی کتاب خواب اور پتنگ کا پہلا افسانہ ہے ادبی حلقوں سے پزیرائی پا چکا ہے۔

خود میرے دو تین دوست جو ٹی وی ڈرامہ نگار بھی ہیں انہوں نے اس افسانہ کی ڈرامائی تشکیل کی۔ مجھے افسوس ہوا کہ کوئی بھی میرے نقطہ نظر کو نہ سمجھ سکا اور کسی کا بھی اسکرپٹ مجھے متاثر نہ کر سکا۔ لیکن آپ نے بہت خوبصورتی سے وہ لکھ ڈالا جو میں چاہتا تھا۔ میری طرف سے یہ اسکرپٹ اوکے ہے۔ “ میری خوشی کی کوئی انتہا نہ تھی۔

میں نے اللہ عز و جل کا شکر ادا کیا جس نے میری عزت اور توقیر میں بے پناہ اضافہ کیا۔ یوں پلیٹ فارم نمبر 4 بہت توجہ اور خوبصورتی سے ریکارڈ ہوا اور متعدد بار نشر ہوا۔ اسی دن نصرت علی نے مجھے اپنے گھر رات کے کھانے پر مدعو کیا۔ میں خود اعتمادی سے سرشار بن ٹھن کے ان کے گھر جی آر او۔ ون پہنچ گیا۔ بہت خوش ہوئے تمام گھر والوں سے ملوایا۔ بڑا بیٹا ندیم نصرت سی ا یس ایس کر رہا تھا۔ بہت سی کتابیں گفٹ کیں اور کھانے کے بعد پانچ ہزار روپے معیاری سکرپٹ لکھنے پر انعام دیا۔ میرے لاکھ انکار پر بھی انہوں نے پیسے میری جیب میں ڈال ہی دیے۔ اور کھلی آفر کی کہ آنے والی نئی کتاب میں جو مرضی آئے افسانہ کو ٹی وی کے لیے لکھ سکتا ہوں۔ میں بہت خوش تھا کہ اللہ نے بیٹھے بیٹھائے لاہور کی ایک اہم ادبی لابی کا حصہ بنا دیا تھا۔

نصرت صاحب کی توسط سے نامور اہل قلم اور اہل رشحات سے ملاقاتیں ہونے لگیں۔ اب میرا ان سے ملنا معمول بن گیا۔ ان کے ساتھ اور ان کی توسط سے اب میں شہر کی بڑی اور اہم ادبی تقاریب میں جانے لگا۔ ایک دن پتہ چلا انہیں معدہ میں السر کی تکلیف ہوئی ہے اور وہ فاطمہ میموریل ہسپتال میں زیر علاج ہیں۔ میں پھول لے کر ملنے گیا۔ چہرے پر وہی مسکراہٹ اور دھیما لب و لہجہ میرے آنے کا شکریہ ادا کیا اور کہا کہ معمولی تکلیف ہے انشاء اللہ وہ جلد ٹھیک ہو جائیں گے۔ پھر وہ ٹھیک ہو کے گھر شفٹ ہو گئے۔

میں واپس مظفرگڑھ آ گیا۔

ایک رات ڈسٹرکٹ ہسپتال کے سامنے میں اور میرا دوست نامور شاعر افضل چوہان ایک ہوٹل پر چائے پی رہے تھے کہ نو بجے پی ٹی وی خبر نامہ سے خبر نشر ہوئی کہ ”ملک کے نامور افسانہ نگار اور سیکرٹری جنگلات پنجاب نصرت علی انتقال فرما گئے ہیں۔ “


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).