میں ایک بدکردار صحافی ہوں


میرے اک فاضل دوست کے بقول پاکستان کے دوسرے بڑے میڈیا ہاؤس کے مالک میرے چاہنے والے اور میرے ٹیلنٹ کو بہت پسند کرتے ہیں لیکن وہ اپنے میڈیا ہاؤس میں مجھے صرف اس لئے جاب دینے کو تیار نہ ہو سکے کہ میں اک بد کردار انسان ہوں۔ کسی بھی ٹی وی چینل یا اخبار میں درجنوں ایسے شعبہ جات ہوتے ہیں جہاں انسان پردہ سکرین پر یا صفحہ تحریر پر اپنی شکل کے بنا بہت سے کام کرتا ہے، صحافتی اداروں سے وابستہ افراد بخوبی جانتے ہیں کہ کسی بھی صحافتی ادارے کا ستر فیصد کام پس پردہ ہوتا ہے اور جو ہم سکرین یا پیپر پر دیکھ رہے ہوتے ہیں وہ پوری ٹیم ورک کے بعد صرف اک بندے کے نام سے شائع یا نشر کیا جاتا ہے۔

لیکن نہیں۔ ڈیسک جاب دینے سے بھی ادارے کا وقار مجروح ہو سکتا تھا، شکر ہے صحافتی اداروں میں ختنے دیکھنے کا رواج نہیں ہے، ملازمت کے لئے اگر ڈوپ ٹیسٹ کی شرط رکھ دی جائے تو سب سے پہلے تو صحافتی اداروں کے مالکان باہر ہوں گے اور اس کے بعد باقی پوری ٹیم، شاید کوئی بہت غریب آفس بوائے بچ جائے کہ اس کے پاس شراب خریدنے کی رقم نہیں ہوتی۔ صحافیوں کو ارزاں قیمت پر وہاں بھی شراب مل جاتی ہے جہاں شراب کو واقعی حرام مانا جاتا ہو، کسی بھی بار، ہوٹل یا شراب کی دکان سے شراب لاتے ہوئے پکڑے جانے پر آپ کا صحافی اور وکیل ہونا ہی کاریگر ہوتا ہے کہ پولیس والوں کے مطابق بھی یہ لوگ مذہب، معاشرت اور اقدار سے بلند ہیں۔

لیکن ایسے ادارے میں میری ملازمت کی باری یہ کہہ کر معذرت کر لی گئی کہ میں بد کردار ہوں، شاید مجھے ملازمت دینے کی وجہ سے نیکی کے فرشتے روٹھ سکتے تھے کہ آپ نے اک ماسٹرز ڈگری ہولڈر، لکھاری اور نقاد کو سینکڑوں میٹرک پاس اعلی صحافیوں کے درمیان لا کر جو بٹھایا ہے اس لئے ہم آپ سے نہیں بولتے اور آئندہ ہم آپ کے ادارے پر نور نہیں برسائیں گے۔

مجھے نہیں معلوم کہ صحافتی اداروں اور ان کے مالکان کے نزدیک کسی بھی صحافی کو ملازمت دیتے وقت کردار کا پیمانہ کیا ہے۔ شاید ان کے لئے اعلی کردار کا پیمانہ طاقتور اداروں، افراد اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کے فراڈ، ملاوٹ، مضر صحت اشیاء کی وجہ سے ہوئی اموات، کسی وڈیرے کے بچوں، انڈسٹریلسٹ یا سیاستدان کے ہاتھوں کم سن بچیوں کے ریپ کی سچی خبروں کو دبا کر، امراء کو دھمکا کر خبر نہ لگانے کے بدلے کروڑوں روپے لینا اعلی کردار کی نشانی مانی جاتی ہو۔

شاید جھوٹی خبریں پھیلا کر بڑے لوگوں، افسران اور سیاستدانوں کو بلیک میل کرتے ہوئے رقوم حاصل کرنے کو اعلی کردار مانا جاتا ہے۔ شاید ورکرز کو مہینوں تنخواہ نہ دینا، انہوں مہینوں فاقوں کرنے کے بعد خود کشی پر مجبور کر دینے کو بلند کردار ہونے کی علامت گردانا جاتا ہو، شاید خوبرو اور حسین لڑکیوں کو ملازمت کے بدلے رکھیل رکھنا، غریب اور ضرورتمند ورکنگ لڑکیوں کے چند ہزار روپے انکریمنٹ کے بدلے، تعاون نہ کرنے پر ملازمت سے فارغ کر دینے کی دھمکی دیتے ہوئے کپڑے اتروانے اور منظور نظر خواتین کو ترقی دیتے ہوئے مستحق لوگوں کا حق مارنے کو کردار کی ثریا سے تعبیر کیا جاتا ہو۔ کیونکہ ہونے کو تو کچھ بھی ہو سکتا ہے۔

میرے سابقہ ادارے میں بھی اک صحافی آیا کرتے تھے، خیر سے اک لڑکی کو اپنی سگی بھانجی متعارف کروا کر ملازمت دلوائی، صرف آٹھ ماہ میں دو بار انکریمنٹ اور اک بار پرموشن کروا ڈالی۔ ان لطف و عنایات کے بدلے وہ اپنی منہ بولی سگی بھانجی کو اپنے فلیٹ پر لے جاکر دست شفقت عنایت فرمایا کرتے تھے۔ ٹی وی پر بڑے بڑے مشہور نام اکثر ایسی حالت میں انٹرویو دینے پہنچ جاتے ہیں جب وہ خود کے الفاظ کو بھی سنبھال نہیں پاتے لیکن تب کوئی مائی کا لال ان سے یہ نہیں کہتا کہ آپ کا کردار برا ہے۔ میڈیا ہاؤسز کے مالکان کے گھروں پر برہنہ مخلوط محافل کا باقاعدہ انعقاد ہوتا ہے لیکن کسی کی اتنی جرات نہیں ہو پاتی کہ کوئی کہہ سکے۔ آپ بدکردار ہو ”۔

صحافت، قانون اور شوبز چند ایسے شعبہ جات ہیں جہاں جنسی تعلقات اور شراب لازم و ملزوم ہے، نوے فیصد مرد و زن ان عادات کو اک روٹین کی طرح اپناتے ہیں، انٹرن شپ کے نام پر پہلے ہی ہفتے لڑکی کو بستر پر لے جانے میں لگ جانا معمول کی بات ہے۔ چند ایک کو چھوڑ کر کسی بھی صحافی کے گھر پر مہمان چلے جائیں، خاطر مدارت کے لئے چائے، ٹھنڈا اور ڈبل ٹھنڈا پوچھا جائے گا۔ یہاں سوشل میڈیا پر صحافت کے نام پر انباکس میں برہنہ تصاویر مانگی جاتی ہیں، بڑے بڑے ناموں کے حامل قاری، حافظ اور مفتیان کرام جو صحافت سے بھی وابستہ ہیں ان کے نام تک سے خواتین خوفزدہ رہتی ہیں کہ ماضی میں بھائی، چاچو، ماموں یا منہ بولا باپ سمجھ کر کچھ تصاویر شئیر کر بیٹھی تھیں۔ نجی محافل میں شراب پیتے ہوئے خواتین کا برہنہ رقص دیکھا جاتا ہے لیکن یہ سب کے سب اعلی ظرف، مومن ترین لوگ اوراعلی کردار کے حامل ہیں۔

سکول کالج کی لڑکیاں اپنی استانیوں اور ہاسٹل وارڈنز کے تعاون سے جسم فروشی میں مگن ہیں، ہر بندے نے گرل فرینڈ یا رکھیل پال رکھی ہے، لوگ دوسروں کو بدکردار کہنے سے پہلے خود ”لڑکوں“ میں دلچسپی رکھتے ہیں، کالجز اور یونیورسٹیز میں اساتذہ چند نمبر زیادہ لگانے یا پاس کرنے کی مد میں دوشیزگی مانگتے ہیں، اک لڑکی کو روندنے کے بعد اس کی سہیلیوں کی ڈیمانڈ کرتے ہیں، کوچنگ سنٹرز میں باقاعدہ دھندہ ہوتا ہے، پولیس اسٹیشنز میں شراب اور چرس محفوظ طریقے سے خرید و فروخت کے لئے دستیاب ہوتی ہے، جسم فروشی کی کمائی کا سب سے بڑا حصہ یا تو تھانے میں جاتا ہے یا مسجد کی تعمیر میں خرچ ہوتا ہے کہ ظاہر ہے ان بے چاریوں کو بھی جنت تو بہرحال درکار ہے۔ لیکن یہ تمام کے تمام لوگ پاک دامن، انتہائی شریف اور صاحب کردار ہیں۔

ہاں جی میں بدکردار ہوں، کہ میں نے آج تک حوا کی بیٹی کا استحصال نہیں کیا، آج تک کسی کو مجبور کر کے، کسی سے جھوٹ بول کر اس کے جسم کو نوچنے کی کوشش نہیں کی، میں بدکردار ہوں کہ مجھ سے ملنے جتنی بھی خواتین آئیں وہ اک دوست اور قاری کی حیثت سے آئیں، باعزت طریقے سے گفتگو ہوئی، ان کے جسم کو دیکھنے تک کی نوبت نہ آسکی، میرے پاس ہفتوں کسی مجبوری کی وجہ سے خواتین رہ کر گئیں، جیسی عزت دار آئی تھیں ویسے ہی واپس اپنے گھر پہنچیں لیکن بدکرداری تو میری فطرت میں شامل ہے۔

اس شخص کو جسے خواتین یہ طعنے ماریں کہ تم ہمیں دیکھتے تک نہیں، ہمیں چھوتے تک نہیں، ہم تمہاری مکمل دسترس میں تھیں، خود اپنی مرضی سے تمہارے پاس تنہائی میں آئیں تھیں لیکن تم فائدہ نہ اٹھا سکے کو بدکردار ہی کہنا چاہیے۔ بالکل میں بدکردار ہوں کہ شراب پیتا ہوں، نہ صرف پیتا ہوں بلکہ جب پیتا ہوں علی الاعلان پیتا ہوں، ایسا نہیں کرتا کہ پینے کے بعد مصلحت میں مسجد بھی پہنچ جاوں، نماز پر بھی کھڑا ہو جاوں اور کسی کو پتہ نہ چلے کہ میں نشے میں ہوں احادیث سنانے لگوں۔ میں اپنے بچوں اور والدین کی قسمیں نہیں کھاتا کہ میں نے پی نہیں ہوئی۔ میں چھپ کے پینے کے بعد باہر آکر شراب پر اور اس کے پینے والوں پر لعنت نہیں بھیجتا۔

ہاں میں شراب پیتا ہوں، کم سے کم یہ کسی کے خون پینے سے، کسی کو خون کے آنسو رلانے سے کہیں بہتر ہے۔ ہاں میں بدکردار ہوں کہ حسن پرست ہونا ہر حساس انسان کی کمزوری ہے، ہاں میں بدکردار ہوں کہ نفسانی خواہشات کی تکمیل کے لئے کوٹھے پر جانے کے بجائے دو بار شادی کی، دونوں بار ازدواجی زندگی میں اختلافات ہونے پر الگ ہوا تو جب جب اپنے جسم کی وحشتوں سے مجبور ہوا، گیا اپنی بیوی کے پاس ہی۔ ہاں میں بدکردار ہوں کہ جب کسی بھی طور تعلق چل نہ پانے کا یقین ہو چلا تو درجنوں چاہنے والوں میں سے جب بھی کسی نے ملنے کی خواہش کا اظہار کیا فقط ایک ہی شرط رکھی۔ شادی۔

ہر بار جب جب کوئی تعلق بنا میں شادی سے کم نہیں مانا اور جب دوسری طرف سے شادی کے علاوہ باقی تمام معاملات جاری رکھنے کا فیصلہ سنایا گیا تو خاموشی سے الگ ہوتا گیا۔ دبئی کہ جسے دنیا میں سیکس سٹی کہا جاتا ہے وہاں چار ماہ سے مقیم ہونے کے باوجود کسی کو چھونے کی کوشش تک نہ کی حالانکہ یہاں بیس درہم میں لڑکی دستیاب ہو جاتی ہے۔ بدکراری میری رگ رگ میں ہے۔ شراب پی کر جھوٹ بولنے سے، لونڈے بازی کر کے حاجی کہلوانے سے، گرل فرینڈ کے ساتھ پکڑے جانے پر اسے سگی بہن کہہ کر جان چھڑانے سے کہیں بہتر ہے کہ انسان بدکردار ہوجائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).