جنرل جان جیکب کا جیکب آباد بدل چکا


جیکب آباد

جان جیکب برطانوی دور حکومت میں بالائی سندھ کے پہلے پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ تھے۔ ان کی حکومت نے انھیں جنگجو قبائل پر ضابطہ نافذ کرنے کے لیے یہاں تعینات کیا تھا

دوپہر ایک بجے کا وقت ہے اور درجہ حرارت 45 سینٹی گریڈ پر پہنچ چکا ہے۔ ایک بوڑھا شخص لاٹھی کا سہارا لیے لوہے کا دروازہ کھول کے اندر داخل ہوتا ہے۔

وہ کندھے پر موجودہ کپڑے سے سفید ماربل سے بنی قبر سے دھول مٹی ہٹانا شروع کر دیتا ہیں اور اسی اثنا میں ان کی نظر اِدھر اُدھر کچھ ڈھونڈتی ہے۔

ان کی نظر ایک کونے میں پڑے چراغ پر جا کر ٹھہر جاتی ہے لیکن چراغ میں تیل موجود نہیں۔ وہ اس قبر پر ویسے ہی ہاتھ پھیرتے ہیں جیسے مزاروں پر عقیدت مند پھیرتے ہیں۔

یہ کس کی قبر ہے؟ میرے سوال پر انھوں نے بتایا کہ یہ ’جیکب صاحب‘ کی قبر ہے۔ ’یہ بزرگ تھے۔ اچھے انسان کو ہر کوئی سلام کرتا ہے۔ یہ کوئی دشمن تو نہیں تھا یہ اچھا انسان تھا اس کو ہر کسی کا فکر ہوتا تھا جیکب آباد اس کے نام پر قائم ہے۔‘

اس بوڑھے شخص کا نام الہی بخش ہے جو ہفتے میں ایک مرتبہ یہاں آ کر ’جیکب صاحب‘ کی قبر پر دیا روشن کرتے ہیں۔

برطانوی دور حکومت میں جان جیکب بالائی سندھ کے پہلے پولیٹیکل سپرنٹنڈنٹ تھے۔

اُن دنوں میں برطانوی فوج کی جانب سے خصوصی فرنٹیئر ریگیولیشن کے ذریعے اس علاقے کا انتظام و انصرام چلایا جاتا تھا۔ یہ سلسلہ سنہ 1818 تک جاری رہا جب تک کہ سویلین ڈپٹی کمشنر تعینات نہیں کیے گئے۔

برطانوی حکومت نے جنگجو قبائل پر ضابطہ نافذ کرنے کے لیے انھیں یہاں تعینات کیا تھا۔ اس سے قبل وہ چارلس نیپیئر کی قیادت میں حیدرآباد میں تالپور حکمرانوں کے ساتھ جنگ میں شریک تھے، جس کے بعد انگریز سرکار نے پورے سندھ کا کنٹرول حاصل کر لیا تھا۔

جان جیکب سیمیٹری

جان جیکب 46 برس کی عمر میں سنہ 1858 میں انتقال کر گئے اور ان کی تدفین وصیت کے مطابق اسی علاقے میں کی گئی۔ ان کی قبر پر روایتی صلیب کا نشان موجود نہیں۔

اس قبرستان میں ان کے انتقال سے قبل اور بعد کے برطانوی فوجیوں کی قبریں بھی موجود ہیں جن پر صلیب اور مجسمے موجود تھے لیکن موسمی اثرات نے جہاں انھیں شکست و ریخت کا شکار کیا وہاں انسانی نقل و حرکت سے یہ بھی متاثر ہوئیں۔

جیکب آباد

برینر نیوٹن کے مطابق جان جیکب سیمیٹری کی دیوار نہ ہونے کی وجہ سے جانور احاطے میں داخل ہو جاتے ہیں اور قبروں کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ کچھ مذہبی جنونی بھی ہیں جو توڑ پھوڑ کرتے ہیں

برینر نیوٹن سنہ 1985 سے جان جیکب سیمیٹری کا انتظام سنبھال رہے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ برٹش ایسوسی ایشن فار سیمیٹریز ان ساؤتھ ایشیا اور کامن ویلتھ وار سیمیٹری کے تعاون سے اس قبرستان کی چاردیواری تعمیر کی گئی اور گیٹ لگایا گیا لیکن ایک ٹرک کی ٹکر سے دیوار گر گئی۔

دیوار نہ ہونے کی وجہ سے جانور احاطے میں داخل ہو جاتے ہیں اور قبروں کو نقصان پہنچاتے ہیں جبکہ کچھ لوگ مذہبی جنونی بھی ہیں جو توڑ پھوڑ کرتے ہیں۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ ڈپٹی کمشنر اور علاقے سے منتخب ہونے والے رکن قومی اسمبلی کو بھی درخواست دی ہے لیکن ان کے مطابق حکومت کی ہریٹیج میں دلچسپی کم ہے۔

خان گڑھ سے جیکب آباد

جان جیکب نے جنگجو قبائل کو کنٹرول میں کرنے کے بعد خان گڑھ میں جدید خطوط پر ایک شہر کی منصوبہ بندی کی جس میں چھاؤنی کے علاوہ عام شہریوں کی کالونی، سڑکیں، فراہمی اور نکاسی آب کا نظام اور بازار شامل تھے۔

ان میں سے کچھ کے آثار ابھی تک موجود ہیں۔

ترقیاتی پروگرام کے لیے فنڈز دستیاب نہیں تھے لیکن اس کے باوجود ایک بیابان کو سرسبز علاقے میں تبدیل کیا اور یہاں دریائے سندھ سے بیگاری کینال کے ذریعے پانی لایا گیا۔

اس نہر کی تعمیر کے لیے زمینداروں نے افرادی قوت فراہم کی، اسی لیے اس کا نام بیگاری کینال رکھا گیا۔ انہوں نے تعیناتی سے انتقال تک 30 برس کا عرصہ یہاں گذارا اور دس لاکھ درخت لگائے۔

کبوتر خانہ

جان جیکب نے جہاں عسکری اور انتظامی امور سرانجام دیے وہیں انھوں نے غیر روایتی انداز بھی اختیار کیا۔

ان دنوں میں پیغام رسانی کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے انھوں نے اس کام کے لیے کبوتروں کا استعمال کیا۔ اور اس مقصد کے لیے انھوں نے اپنی رہائش گاہ میں کبوتروں کی ایک نرسری قائم کی۔

جیکب آباد

جان جیکب نے پیغام رسانی کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے اس کام کے لیے کبوتروں کا استعمال کیا

برطانوی دور حکومت کے ڈپٹی کمشنر روجر پیئرس نے اپنی آپ بیتی ’ونس اے ھیپی ویلی‘ میں تحریر کیا ہے کہ پہاڑی علاقوں کے بلوچ قبائلی سندھ کے میدانی علاقوں میں حملہ آور ہوتے تھے جان جیکب نے پہلے انھیں لڑائی میں شکست دی۔

اس کے بعد ان کوششوں کی روک تھام کے لیے مستقل گشت کا سلسلہ شروع کیا گیا جس کے لیے جان جیکب شہر جیکب آباد اور چیک پوسٹوں کے درمیان پیغام رسانی کا کام کبوتروں سے لیتے تھے۔

30 فٹ اونچے اس کبوتر خانے میں آج بھی بڑی تعداد میں کبوتر آباد ہیں۔ مقامی صحافی جان اوڈھانو کے مطابق یہ کبوتر خانہ زبوں حالی کا شکار ہو گیا تھا لیکن چند سال قبل ایک ڈپٹی کمشنر نے اس کی مٹی سے مرمت کرائی۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ سوشل میڈیا کے ایپ سنیپ چیٹ میں اس شہر کی شناخت اس کبوتر خانے سے موجود ہے۔

جیکب صاحب کی میڈم

جان جیکب شادی شدہ نہیں تھے اور برطانوی ماہر آثار قدیمہ اور تاریخ نویس ایچ ٹی لیمبرک نے اپنی کتاب جان جیکب آف جیکب آباد میں تحریر کیا ہے کہ جیکب نہیں چاہتے تھے کہ ان کے افسران شادی کریں کیونکہ ان کا خیال تھا کہ انڈیا میں زندگی بہت سخت اور تلخ ہے۔

جیکب آباد

جان جیکب کے انتقال سے تقریبا ایک سال قبل یعنی سنہ 1857 میں جب جنگ آزادی شروع ہوئی اور مقامی فوجیوں نے برطانوی سرکار کے خلاف بغاوت کی۔ لیکن ان کے گھڑ سوار جتھے میں کوئی بغاوت نہیں ہوئی اور اس کی وجہ ان کی فوج میں مقامی افراد کی اکثریت کو قرار دیا جاتا ہے

’ان سے جب بلوچ سردار سوال کرتے کہ آپ شادی کیوں نہیں کرتے تو ان کا اکثر جواب ہوتا کہ اگر مر جاؤں تو میری بیوی کسی دوسرے سے شادی کر لے گی۔ کیا میں اس کو نظر انداز کر سکتا ہوں کہ جیکب صاحب کی میڈم نے دوسرا شوہر کر لیا۔‘

جان جیکب کے انتقال سے تقریبا ایک سال قبل یعنی سنہ 1857 میں جب جنگ آزادی شروع ہوئی اور مقامی فوجیوں نے برطانوی سرکار کے خلاف بغاوت کی۔

اس وقت وہ جیکب آباد میں بریگیڈیئر کے منصب پر پہنچ چکے تھے، ان کے گھڑ سوار جتھے میں کوئی بغاوت نہیں ہوئی اور اس کی وجہ ان کی فوج میں مقامی افراد کی اکثریت کو قرار دیا جاتا ہے۔

جیکب کلاک

جان جیکب کو عسکری اور منتظم کے علاوہ انجنیئرنگ اور میکنیکل ذہانت بھی حاصل تھی۔ انہوں نے ایک گھڑیال بنایا جو اپنی نوعیت کا ایک منفرد نمونہ ہے۔

جیکب آباد

یہ گھڑیال سپرنگ ٹیکنالوجی اور زمین کی کشش ثقل کے تحت کام کرتا ہے اس میں ایک ہزار کلو وزنی پنڈولم لگایا گیا ہے

یہ لکڑی کے ایک باکس میں ڈپٹی کمشنر کی رہائش گاہ میں تنصیب ہے جو کبھی جان جیکب کی رہائش گاہ ہوا کرتی تھی۔

اس کی نگرانی جہانگیر خان نامی نوجوان کرتا ہے۔ اس گھڑیال میں اسلامی تاریخ، چاند کا سائز، برطانوی اور مقامی وقت بھی موجود ہیں۔ اس گھڑیال کو جان جیکب نے خود ڈیزائن کیا تھا۔

جہانگیر کے مطابق یہ گھڑیال سپرنگ ٹیکنالوجی اور زمین کی کشش ثقل کے تحت کام کرتا ہے اس میں ایک ہزار کلو وزنی پنڈولم لگایا گیا ہے۔

پینڈولم کو زمین اپنی طرف کھینچتی ہے جس سے گھڑیال کے کانٹوں میں حرکت آتی ہے، یہ پینڈولیم 32 میٹر زیر زمین جاتا ہے اور پھر چابی گھما کر اسے اوپر لایا جاتا ہے اور یہ مشق ہر 15 روز بعد کی جاتی ہے۔

جہانگیر کے مطابق پہلے ان کے نانا، اس کے بعد بھائی اور اب وہ اس کی دیکھ بھال کرتے ہیں لیکن اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ بعض اوقات جب اس کا کوئی پرزہ ٹوٹ جاتا ہے تو اس کی مرمت بھی اپنی جیب سے کروانی پڑتی ہے۔

جیکب آباد

جہانگیر خان کے مطابق پہلے ان کے نانا، اس کے بعد بھائی اور اب وہ اس گھڑیال کی دیکھ بھال کرتے ہیں لیکن اس کا کوئی معاوضہ نہیں دیا جاتا ہے

سنہ 2007 میں پاکستان کی سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کی ہلاکت کے بعد ہونے والی ہنگامہ آرائی میں اس گھڑیال کو بھی نقصان پہنچا تھا لیکن بعد میں اس کی مرمت کر کے اسے بحال کیا گیا تاہم اس تک عام لوگوں کی رسائی نہیں۔

جان جیکب کا جیکب آباد بدل گیا

برطانوی راج کی جنوبی ایشیا سے روانگی کے بعد بھی جیکب آباد کی خطے میں عسکری اہمیت برقرار رہی۔

امریکہ نے جب افغانستان میں طالبان حکومت کے خلاف آپریشن شروع کیا تو جیکب آباد کے شہباز ایئر بیس کا نظام ان کے حوالے کیا گیا۔

یہ شہر سندھ اور بلوچستان کو معشیت کے علاوہ روایتی، سماجی اور ثقافتی طور پر بھی جوڑتا ہے۔ یہاں خان آف قلات سے لے کر نواب اکبر بگٹی تک کی رہائش گاہیں موجود تھیں جو سب اب ماضی کا حصہ بن گئی ہیں۔

جیکب آباد

کچھ لوگوں نے شہر کا نام جیکب آباد سے تبدیل کر کے عطار آباد رکھنے کی بھی کوشش کی

جہاں اس شہر کی قدیم تعمیرات اور جان جیکب سے وابستہ یادیں مسمار اور ناپید ہو رہی ہیں وہاں اس شہر کا مزاج بھی تبدیل ہورہا ہے۔

یہاں فرقہ وارانہ کشیدگی کے نتیجے میں سنہ 2015 میں ماتمی جلوس پر خود کش حملہ کیا گیا۔

کچھ لوگوں نے شہر کا نام جیکب آباد سے تبدیل کر کے عطار آباد رکھنے کی بھی کوشش کی اور وجہ یہ ہی بتائی کہ جان جیکب ایک فرنگی اور مسیحی تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بی بی سی

بی بی سی اور 'ہم سب' کے درمیان باہمی اشتراک کے معاہدے کے تحت بی بی سی کے مضامین 'ہم سب' پر شائع کیے جاتے ہیں۔

british-broadcasting-corp has 32295 posts and counting.See all posts by british-broadcasting-corp