یوجینکس موومنٹ کیا ہے اور ہم اس سے کیا سیکھ سکتے ہیں؟


یوجینکس یونانی الفاظ کا مجموعہ ہے جس کے معنی ہیں ویل بورن یا بہتر نسل۔ یوجینکس وہ سائنس ہے جو انسانی نسل کو بہتر بنانے کے لیے چنے ہوئے اعلیٰ نسل کے افراد کے مابین ہی جنسی تعلقات اور بچے پیدا کرنے کی صلاحیت برقرار رکھنے پر زور دیتی ہے اور دماغی، جسمانی یا سماجی طور پر کمزور افراد کے تولیدی حقوق سلب کرنے پر زور ڈالتی ہے۔ اس مہم کا ابتدائی بنیادی مقصد عمدہ انسانی نسل کی افزائش کے ذریعے موروثی بیماریوں سے نجات حاصل کرنا تھا۔ سننے میں ‌ بظاہر معصوم اور ٹھیک ہی لگتا ہے لیکن اس مہم کا دنیا اور اس کے انسانوں ‌ پر کیا اثر پڑا، آج ہم اس پر بات کریں ‌ گے۔

بیسویں صدی کے نصف حصے تک یوجینکس موومنٹ امریکہ میں ‌ کافی مقبول تھی۔ ہٹلراس فلاسفی پر عمل درآمد سے ایک بہترین آرین نسل کو دنیا میں ‌ پھیلانے کے لیے لاکھوں ‌ بے گناہ انسانوں کے قتل کا ذمہ دار بنا۔ آج کے ماڈرن زمانے میں ‌ یوجینکس کی سائنس معلومات میں ‌ اضافے، ٹیکنالوجی میں ترقی اور میڈیکل اخلاقیات کے باعث کافی بہتر ہوئی ہے اور اس سے بہت ساری جینیاتی اور موروثی بیماریوں ‌ سے انسانوں ‌ کو نجات ملی ہے لیکن اب بھی یہ سائنس کا ایک متنازع میدان ہے جس پربحث جاری و ساری ہے۔ چینی ڈاکٹر کے جڑواں بچیوں ‌ پر کیے گئے تجربے پر بھی یہ بحث کھڑی ہوئی تھی جس پر میں ‌ نے اس سے پہلے بھی مضمون لکھا تھا۔

ریکارڈ کی ہوئی تاریخ‌ دیکھیں ‌ تو اندازہ ہوتا ہے کہ قدیم فلسفی افلاطون وہ پہلے انسان تھے جنہوں ‌ نے یوجینکس کا فلسفہ دنیا کے سامنے رکھا لیکن حالیہ تاریخ‌ میں ‌ اس کو سامنے لانے کا سہرا برطانوی اسکالر سر فرانسس گالٹن کے سر جاتا ہے جنہوں ‌ نے اس نظریے کا ذکر اپنی 1883 کی کتاب میں ‌ کیا۔ جس کا نام
Inquiries into Human Faculty and Its Developmen
ہے۔ گالٹن چارلس ڈارون کے کزن تھے جنہوں ‌ نے دنیا کو برطانوی الیٹ کلاس کو دنیا میں پھیلا کر انسانیت کو بہتر بنانے کی تجویز پیش کی۔ ان کا منصوبہ برطانیہ میں ‌ تو زیادہ کامیاب نہیں ہوسکا لیکن امریکہ میں ‌ اسے مقبولیت حاصل ہوگئی۔ جلد ہی یوجینکس موومنٹ کی بنیاد پر قانون سازی شروع ہوگئی۔ 1896 میں ‌، امریکی ریاست کنیکٹیکٹ میں ‌ ان لوگوں ‌ کا شادی کرنا غیر قانونی قراد دے دیا گیا جن کو مرگی کی بیماری تھی یا وہ ”فیبل مائنڈڈ“ یعنی کہ کمزور ذہن کے تھے۔

یہاں ‌ دھیان رہے کہ آئی کیو کا ٹیسٹ ایک اوپری درمیانے طبقے کے تعلیم یافتہ سفید فام آدمیوں کا بنایا ہوا تھا جو کہ انسانوں ‌ کی ذہانت ناپنے کے بجائے اصل میں ‌ اس بات کا ٹیسٹ ہوتا ہے کہ جو ہمیں ‌ آتا ہے کیا وہ تمہیں ‌ بھی آتا ہے؟ 1903 میں ‌ امریکن بریڈر اسوسی ایشن بنائی گئی جو یوجینکس کے میدان میں ‌ تحقیق کرے۔

جان ہاروی کیلاگ جن کو کیلاگ سیریل کی وجہ سے شہرت حاصل ہے، انہوں ‌ نے بقاعدہ ایک ریس بیٹرمنٹ فاؤنڈیشن بنائی اور انسانوں ‌ کے شجروں ‌ کا اندراج شروع کیا۔ اس فاؤنڈیشن نے یوجینکس پر قومی کانفرنسیں بلائیں اور یہ نتائج اخذ کیے کہ مہاجرین، اقلیتوں اور غریبوں ‌ کو بچے پیدا نہیں کرنے چاہئیں۔ ان آدمیوں ‌ پر بنی ڈاکیومینٹری دیکھیں تو صاف ظاہر ہوتا ہے کہ جس بھی تعلیم کے دائرے کی کوئی بنیاد نہیں ہوتی اس کے گرد بھی کافی سارے لوگ جمع ہوکر اپنے معاشرے کے لیے انتہائی احمقانہ فیصلے کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں جس سے انسانیت کو دھچکا لگتا ہے۔ آج کے امریکہ میں ‌ دائیں بازو کی جماعتوں ‌ کے اخبارات اور ٹی وی چینل بھی اسی دائرے سے تعلق رکھتے ہیں۔

ہم اس بات پر غور کریں ‌ گے کہ یوجینکس کی تحریک کے کون سے خیالات قابل قبول ہوسکتے ہیں۔ ان میں ‌ سے ایک یہ ہے کہ بہن بھائی یا کزن آپس میں ‌ ازدواجی تعلقات استوار نہ کریں کیونکہ اس سے پیدا ہونے والے بچوں ‌ میں ‌ موروثی بیماریوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ایک خاتون کو دیکھا جن کو لیکوڈسٹروفی کی بیماری تھی۔ لیکوڈسٹروفی کے زیادہ تر مریض بچپن میں ‌ ہی مر جاتے ہیں۔ یہ پہلا موقع تھا کہ میں ‌ نے اس بیماری کا کوئی بالغ مریض اینڈوکرنالوجی کلینک میں دیکھا ہو۔ لیکوڈسٹروفی ان بیماریوں ‌ میں ‌ شامل ہے جن کا خطرہ کزنز کے بچوں ‌ میں ‌ زیادہ ہوجاتا ہے۔

کافی ایک ہی طرح‌ سے نسل درنسل زندگی گزارتے آرہے ہیں اور خراب نتائج سامنے ہونے کے باوجود ایک نیا راستہ لینے سے کتراتے ہیں۔ سکھر میں ‌ ایک کلاس فیلو کی اپنے کزن سے شادی ہوئی تھی۔ ان کے چار میں ‌ سے تین بچوں ‌ کو لیکوڈسٹروفی کی بیماری تھی۔ بچے کو نو مہینے پیٹ میں ‌ رکھنا، پھر اس کو پیدا کرنا اور پھر ایک دو سال تک پال کر مرتے دیکھنے میں ‌ سے کچھ بھی خوشی یا سکون کا باعث نہیں ‌ بن سکتا۔

ہمارے چانڈکا میڈیکل کالج میں ‌ بھی ایسے ڈاکٹر کزن آپس میں ‌ شادی کررہے تھے جن کے خاندان میں ‌ تھیلیسیما کی بیماری تھی۔ وہ خود ڈاکٹر ہونے کے ناتے یہ جانتے بھی تھے کہ یہ بیماری کس طرح‌ جینیاتی طریقے سے اگلی نسل میں ‌ منتقل ہوتی ہے لیکن پھر بھی انہوں ‌ نے اپنے لیے، اپنے بچوں ‌ اور اپنے ملک کے لیے یہ فیصلہ کیا کہ جانتے ہوئے بھی ایسے بچوں ‌ کو دنیا میں ‌ لایا جائے۔ تھیلیسیما کے شکار بچوں ‌ کو باقاعدہ خون چڑھاتے رہنے کی ضرورت ہوتی ہے جس کی وجہ سے ان کا جگر اور اسپلین بڑے ہوجاتے ہیں اور ان میں ‌ سے زیادہ تر بچے زندگی کی دوسری دہائی تک چل بستے ہیں۔

ایسے افراد جن کو سنجیدہ دماغی یا جسمانی بیماریاں ‌ ہوں اور وہ اپنی اولاد کو پالنے کی صلاحیت نہ رکھتے ہوں تو لواحقین ان کی بہتری کے لیے یہ فیصلہ کرسکتے ہیں کہ ان کی نس بندی کریں۔ اس میدان میں ‌ ایک ڈاؤن سنڈروم کی لڑکی کا کیس مشہور ہوا تھا جس میں ‌ اس کے باپ نے یہ اپیل کی تھی کہ اس کی بیٹی کی نس بندی کرنے سے نہ روکا جائے کیونکہ وہ اس کا اور اس کے بچوں ‌ کا جن میں ‌ ڈاؤن سنڈروم کا خطرہ پچاس فیصد تک ہوتا ہے خیال نہیں رکھ پائیں گے۔

یہاں تک تو یوجینکس کا فلسفہ ٹھیک ہی لگتا ہے۔ اب ہم یہ دیکھیں ‌ گے کہ امریکہ کی تاریخ میں ‌ یوجینکس کے فلسفے کو استعمال کرکے کس طرح‌ نسلی اور طبقاتی تعصب سے لے کر ذاتی چپلقش میں ‌ انسانی حقوق کی پامالی اور حدود میں ‌ دراندازی کی گئی۔

بیسویں ‌ صدی کی شروعات میں 1909 سے لے کر 1979 تک صرف کیلوفورنیا میں ‌ دماغی امراض کے علاج کے ہسپتالوں میں ‌ معاشرے کو ان بیماریوں ‌ سے بچانے کے لیے تقریباً بیس ہزار مریضوں ‌ کی نس بندی کی گئی۔ حالانکہ ان میں کافی بیماریوں کے موروثی ہونے کے ٹھوس ثبوت مہیا نہیں تھے۔ کافی نس بندیاں اقلیتوں میں ‌ اور ایسے گروہوں ‌ میں ‌ کی گئیں ‌ جن کو حکومت میں موجود افراد کسی بھی وجہ سے پسند نہیں ‌ کرتے تھے۔ دیگر نسلوں ‌ میں ‌ نس بندیاں ‌ کی گئیں ‌ تاکہ اعلیٰ سفید فام نسل آگے بڑھائی جاسکے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2